پچھلے دنوں جب وزیر اعظم صاحب قومی اسمبلی میں اپنے تینوں بچوں کے غیر ملکی اکائونٹس کی صفائی پیش کرنے آئے تو ان کے ہر دوسرے جملے پہ ان کی جماعت کے اراکینِ پارلیمان زور زور سے ڈیسک بجاتے رہے۔ نون لیگ کے اعلیٰ سطحی رہنمائوں کی جانب سے ان اراکین کو حکم ہی یہی دیا گیا تھا کہ وہ ڈیسک بجاتے رہیں۔ فی الوقت تنہائی کے شکار وزیر اعظم کے لئے اپنی حمایت اور حزبِ اختلاف کے سامنے اپنی طاقت کے اظہار کے لئے ایسا کرنا ضروری بھی تھا۔ آخر ان کے پیارے وزیر اعظم نے احتساب اور ٹیکس سے بچنے کے لئے دولت بیرون ملک بھیجی ہے‘ دوسری طرف اعتزاز احسن جیسے کہنہ مشق سیاستدان اور پی پی پی و پی ٹی آئی کے بڑے بڑے رہنما بھی وزیر اعظم پر تنقید کی محض اداکاری کر رہے تھے کیونکہ انہیں علم تھا کہ اگر انہوں نے اس بات کو کچھ زیادہ چھیڑا تو خود انہی کے کرتوتوں سے پردہ اٹھ جائے گا۔ آصف زرداری ہی کو دیکھ لیجئے۔ ان کی دولت کی کوئی حد، کوئی حساب ہی نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ صرف ایک سینما چلاتے تھے لیکن اب وہ ارب پتی ہو چکے ہیں۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟ زرداری صاحب مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے‘ اس کے باوجود ہمارے قانونی نظام میں موجود نقائص کی بدولت وہ بہ آسانی ہمارے ملک کے عہدہء صدارت تک بھی پہنچ گئے۔ پی پی پی کے دیگر قائدین نے بھی اپنی جماعت کے اقتدار کے زمانے میں خوب دولت کمائی۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو اس کی نام نہاد شفافیت کے بارے میں جتنا کم کہا جائے، بہتر ہو گا۔ خود عمران خان نے اپنے غیر ملکی اکائونٹ کا اعتراف کیا، اور پارٹی میں ان کے دست و بازو سمجھے جانے والے رہنما یعنی جہانگیر ترین اور علیم خان کے بھی بیرون ممالک میں اکائونٹس موجود ہیں۔ پی ٹی آئی وفاقی حکومت کے لئے ایک حقیقی چیلنج بن سکتی تھی لیکن میاں صاحب کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا کوئی واضح طریقِ کار اس کے پاس موجود نہیں۔ حکومت نے احتسابی اور تحقیقاتی عمل کے لئے جو شرائطِ کار وضع کیں‘ وہ کھوکھلی اور بے معنی ہیں۔ پاناما دستاویزات کے انکشافات کے بعد شور چاہے جتنا بھی مچا ہو‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شریفوں پہ ہاتھ ڈالنا ایک لاحاصل سعی کے سوا اور کچھ نہیں۔ چیف جسٹس نے بھی بجا طور پر مجوزہ کمیشن کی سربراہی سے معذرت چاہی ہے کیونکہ انہیں علم ہے کہ مجوزہ شرائطِ کار محض ایک دھوکہ ہیں۔ یہ سمجھنا محض ایک حماقت ہو گی کہ ایک کمیشن کے ذریعے دستاویزات کی پوری کڑی کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لئے وقت، پیسے، وسائل اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فارنزک مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ناں کی رٹ جنہوں نے لگائی ہے‘ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر سخت شرائطِ کار کے تحت کسی کمیشن نے تحقیقات شروع کیں تو ان کی زد میں پی ٹی آئی والے بھی اسی شدت سے آئیں گے‘ جس شدت سے ان کا اثر نون لیگ والوں پر ہو گا۔ سو کہانی تو یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کو ڈیسک بجانا، واہ واہ کرنا اور کچھ نہ کرنے پہ بھی بس پیٹھ تھپتھپانا ہی بڑا اچھا آتا ہے۔ یاد کیجئے کہ وزیر اعظم گیلانی صاحب نے بھی اپنے رخصت ہونے والے وزرا کے کارناموں کی کس قدر تعریف کی تھی۔ بہ الفاظِ دیگر وہ تعریف اپنی ہی کر رہے تھے کیونکہ ان کے لیڈر تو وہ خود ہی تھے۔ کیا ہم لوگ بہ حیثیت قوم مبالغے کی سزا جھیل رہے ہیں؟ کیا ہماری اپنی حقیقی آواز کبھی نہیں اٹھے گی؟ ہمارے عوام کو چاہئے کہ وہ گیلانی صاحب اور ان کے ستر وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ کسی بھی منتظم کی، چاہے وہ صدر ہو، وزیر اعظم ہو، آرمی چیف ہو، چیف جسٹس ہو، وزیر اعلیٰ ہو، وزیر ہو، مشیر ہو، وفاقی سیکرٹری ہو یا پھر کسی سیاسی جماعت یا کسی کارپوریشن کا سربراہ ہو، اس کی اصل قدر اس کے بارے میں ان لوگوں کی رائے سے معلوم ہوتی ہے جو اس کے زیر انتظام ہوتے ہیں۔ ہمارے اربابِ اقتدار نے ایک ایسی ''360‘‘ (یعنی ایک مکمل اور جامع جائزہ) اپنے بارے میں کروائی تو سبھی فیل قرار پائیں گے۔ مطلب یہ کہ عوام سے پوچھا جانا چاہئے کہ وہ حکمرانوں کی کارکردگی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ امریکہ میں کارپوریٹ دنیا کے اعلیٰ کارکردگی کے حامل قائدین اپنے اور اپنے منیجرز کے بارے میں ایک ''360‘‘ کروانے پہ مکمل یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے 360 کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا‘ لیکن پھر ایک دفعہ ہماری بات چیت ایک ایسے سی ای او کے ساتھ ہوئی‘ جس نے اپنی 360 کروائی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ یہ 360 کسی دوسری ایسی ایجنسی سے کروائی جاتی ہے‘ جس کا متعلقہ فرد یا تنظیم اور اس سے وابستہ افراد کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہوتا۔ اسی لئے یہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہوتی ہے۔ جس شخص کا جائزہ لیا جا رہا ہوتا ہے‘ اس کے ماتحتوں سے اس کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ پرسنل اسسٹنٹس سے لے کر بورڈ ممبران تک سبھی لوگ ان میں شامل ہوتے ہیں‘ جو اس سی ای او کو رپورٹ کرتے ہیں۔ اس جائزے میں پوچھے گئے سوالات تفصیل طلب ہوتے ہیں‘ لہٰذا مثبت اور منفی دونوں قسم کی فیڈ بیک حاصل ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار، جنہیں یہ ملک اپنا ذاتی کھیل کا میدان محسوس ہوتا ہے‘ جو عوامی مینڈیٹ رکھنے کے دعوے کرتے ہیں اور جنہیں جمہوریت کے پرستاروں کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے، کو کیوں ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں‘ یا یہ کہ ان کا احتساب کبھی نہیں ہونا چاہئے! ''360‘‘ سے جو بات ہم نے سیکھی‘ وہ یہ ہے کہ اگر ہمارے لیڈر خود احتسابی سے گھبرائیں نہیں‘ اور ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیشن کے ذریعے، جسے فیصلہ دینے میں کسی سزا کا خوف یا کسی انعام کا لالچ نہ ہو، اپنی کارکردگی کا شفاف جائزہ لینے دیں تو ہمارے ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع مل سکتا ہے۔ سب سے اہم سوال اس کمیشن کے سامنے اعتبار کا ہو گا کہ آیا پاکستانی اپنے حکمرانوں پہ اعتبار کرتے ہیں؟ ہم شرط لگا کر کہہ سکتے ہیں کہ اس لحاظ سے پاکستان کا کوئی بھی لیڈر چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، چاہے نون لیگ ہو، پی پی پی ہو یا پی ٹی آئی، معتبر نہیں ٹھہرے گا۔ ان میں سے زیادہ تر اس امتحان میں ناکام ہی رہیں گے۔ اگر ایک امریکی کارپوریشن کا سی ای او اپنے ادارے کی کایا پلٹ کر پریس اور پبلک کی داد سمیٹ سکتا ہے تو پاکستان کے سی ای او کے لئے یہ کیوں ممکن نہیں کہ وہ انہی قوانین و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر اپنی کارکردگی کا اپنے وزیروں، عام کارکنوں، پارٹی ورکروں، میڈیا اور دانشوروں کے ذریعے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ جائزہ کرائے؟ زرداری دور میں صرف موبائل سروس کے شعبے میں ہی ترقی ہوئی تھی۔ اس زمانے میں ایک سبزی کی چھابڑی والے سے جب ہم نے پوچھا کہ کیا وہ روزانہ ہماری گلی میں آتا ہے‘ تو اس نے جواب دیا کہ یہ میرا موبائل نمبر رکھ لیں، جب ضرورت ہو تو مجھے کال کر لیں، میں حاضر ہو جائوں گا۔ چابی ساز کا بھی یہی حال تھا۔ دکان اس کی چوک میں تھی لیکن وہاں وہ اکثر موجود نہیں ہوتا تھا۔ ایک بار پاس سے گزرتے ہوئے ایک شخص نے ہمیں بتایا تھا کہ اگر اس سے کام کروانا ہے تو پہلے اس سے وقت لینا ہو گا۔ بہت سال پہلے اپنے ایک کالم میں ہم نے بُوٹا کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح بند گٹروں کی صفائی میں گھریلو خواتین کی مدد کے لئے وہ موبائل فون کا استعمال کیا کرتا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے کور کمانڈروں کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران موبائل انقلاب کا سارا کریڈٹ لیتے ہوئے ہمارا وہی کالم اٹھا کر دکھایا تھا۔ یہ بات ہمیں ایک ایسے شخص نے بتائی جو اس ملاقات کے دوران موجود تھا۔ پچھلے تین برسوں سے اس ملک پہ شریفوں اور ان کے رشتے داروں کا راج ہے۔ اس عرصے کے دوران ان کے رپورٹ کارڈ پر قابلِ درج اضافہ صرف اورنج ٹرین اور جنگلہ بس سروس کا ہی ہو سکتا ہے!