میں ترا دشمن نظر آنے لگوں
حضرت رئیس امروہوی ایک برگزیدہ خاندان کے نہایت معزز و محترم فرد ہیں۔ دادا پردادا تو شیخ طریقت تھے ہی‘ یہ بھی کسی طرح کسی سے کم نہیں ہیں۔ تصّوف سے خاص مناسبت ہے اور اس موضوع پر وقتاً فوقتاً خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں۔ مطالعہ بھی تو اُن کی گھُٹی میں پڑا ہوا ہے۔ میلان طبع شعر گوئی کی طرف زیادہ ہے۔ میرا خیال ہے اس میدان میں آبائواجداد ہی کیا‘ دنیائے ادب میں کوئی ہمسر بھی مشکل سے ملے گا۔ الفاظ و معانی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں‘ بادل سے چلے آتے ہیں۔ اگر وہ کہیں مضموں مرے آگے تو اس پر تعلّی کی تہمت لگانا یقیناً مشکل ہو جائے گا۔ جب چاہا جسے چاہا جہاں چاہا بٹھا دیا‘ سجا دیا‘ لڑا دیا‘ ممولے کو شہباز سے لڑانے کا فن وہ خوب جانتے ہیں‘ شعر کہنا ان کے لیے اتنا ہی آسان ہے جتنا سانس لینا‘ جتنا کھانس لینا‘ فطرت نے بڑی فیاضی سے کام لیا ہے۔ کیسا ہی مشکل موضوع ہو‘کتنا ہی وسیع و عریض پس منظر ہو‘ کھٹ سے دریا کو چار مصرعی کوزے میں بند کر دیں گے۔ سیاسی ہی نہیں اخلاقی ومعاشرتی امور پر گرفت اتنی بھرپور کہ بے ساختہ زبان سے نکلے واہ واہ سبحان اللہ۔
گزشتہ تیس برسوں سے روزنامہ جنگ میں قطعہ نگاری کا فرض ادا کر رہے ہیں‘ اسے جوہر دکھانا بھی کہہ سکتے ہیں‘ یہ قریب قریب فی البدیہہ کہے جاتے ہیں‘ گنیے تو بائیس اکیس ہزار شعر تو یہی ہو جاتے ہیں اور وہ جو یاروں کو درجنوں کے حساب سے بلامعاوضہ اور قیمتاً غزلیں لکھ لکھ کر بانٹتے رہے وہ کس کھاتے میں جائیں گی۔ سچ مچ صاحب دیوان ہو گئے‘ لوگ‘ شاگردوں کی صف میں ایسے بزرگ بھی دیکھے جو بجاطور پر رئیس کے اُستاد نظر آتے ہیں۔ ویسے وہ حضرات ہیں بھی تو اُستاد ہی‘ سر کھپائیں رئیس‘ ناموری ہو میری آپ کی‘ لیکن بقول خود‘ مکھن تو وہ اپنے لیے سنبھال کر رکھتے ہیں۔ شاگردوں کی تعداد تین چار سو کے لگ بھگ ضرور ہو گی‘ زیادہ ہو تو تعجب نہ ہو گا۔ میں ایسے بزرگوں کو بھی جانتا تو ہوں جنہوں نے غزل ہی کیا‘ مرثیہ گوئی میں مانگے کے اُجالے کا نور بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ قطعہ نگاری میں جو خصوصیت حضرت کو حاصل ہے وہ اردو میں کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوئی۔ قوم کی نبض پر ہمیشہ ہاتھ رہا۔ لگی لپٹی رکھے بغیر لکھا بے خوف اور نڈر ہو کر ارباب اقتدار پر ہمیشہ کڑی تنقید کی اور زدپر رکھا مگر بات دل میں اتر جائے کبیدگی نہیںانشراح صد کا سامان کرے‘ یہ شیوہ خاص ہے‘ ان کی بات میں ایک شان ہے ‘آن ہے ‘دبدبہ ہے ‘مزاح ہے‘ پھکڑ نہیں طنز ہے‘ بے حد لطیف‘ تضحیک کا گزر نہیں‘ حقہ پیتے بہت سو کو دیکھا مگر اتنے زودار کش لگاتے ہوئے کسی کو نہ دیکھا۔ چرس پینے والے اس انداز میں دم لگا سکتے ہیں‘ سگریٹ اور حقہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور قلم بھی۔ کارکن چلم دن میں کئی بار تازہ کرتے ہیں‘ پیتے تو وہ گزشتہ تیس برس سے شراب بھی ہیں‘ بڑی باقاعدگی سے سرشام لیکن سجا بنا کر نہیں‘ الماری میں منہ ڈالا اور بڑا سا گھونٹ نگل لیا۔ گلاس تو الماری سے باہر بھی آ جاتا ہے مگر بوتل کو ہوا نہیں لگنے دیتے۔ بہت سینت سینت کر رکھتے ہیں کتابوں کے انبار کے پیچھے چھپی رہتی ہے اور دوستوں سے فرمائش بھی کرتے رہتے ہیں بھری پری بوتل تو رکھی جاتی ہے۔ میں نے ایک مُنّی سی بوتل سکاچ وسکی پیش کی دو تین جام تو ضرور چھلک جاتے مگر اس کو کیا کیجئے کہ ہاتھ جھٹک کر منہ بنا کر وہ لوٹا دی گئی۔ سچ ہے اونٹ کی داڑھ میں زیرے کا کیا کام۔ چار پیالے تو انہیں بہکا نہیں سکتے۔ ترنگ میں آ کر آگے بڑھ جائیں تو اول فول بکنے لگتے
ہیں‘ زبان تھتھلانے لگتی ہے اور یہ ہوش نہیں رہتا کہہ کیا رہے ہیں کر کیا رہے ہیں۔ بے خودی کا یہ عالم میں نے بارہا دیکھا ہے۔ ایسی ہی ایک کیفیت میں چارپائی پر بیٹھے بیٹھے ادھر سے ادھر کھسکانے کی جدوجہد ایک ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ رہی‘ بڑی مشکل سے لحاف اوڑھایا اور سلا دیا۔ صبح اٹھے تو تازہ دم‘ وہی قلم وہی حاضر باش‘ مضمون نگاری‘ مجلس آرائی‘ کوئی سرگرانی نہیں کسی قسم کا اضمحلال نہیں‘ گویا کچھ ہوا ہی نہیں‘ جامۂ احرام کے دھبے دھونے کی ضرورت انہوں نے کبھی محسوس ہی نہیں کی‘ ایک زمانے میں خواب آور گولیوں پر یاروں نے لگا دیا‘ ویلیوم یاکیانام تھا ان کا‘ گھنٹوں بے سدھ پڑے رہتے‘ بولتے بولتے غائب‘ دماغ البتہ حاضر‘ میرے گائوں میں آئے تو آزمانا چاہتے تھے بھنگ کا خمار کیسا رہتا ہے لیکن میں نے اس کم حوصلہ نشے بازی سے باز رکھا۔ مری اور پنڈی کی بنی ہوئی دیسی جن کا پورا دس روپے کا آتا تھا‘ برسوں وہی خریدتے اور پیتے رہے۔ حلقہ ارادت اور جیب میں جوں جوں وسعت آتی گئی ‘معیار اونچا ہوتا گیا اب انگریزی اور فرانسیسی وسکی کا چٹخارہ پڑ چکا ہے۔
جس کا کھائیں گے اسی کا گائیں گے‘ یہی جوش ملیح آبادی نے کیا‘ بھارت ماتا ترنگا اور نہرو فکر و نظر کا مرکزی نقطہ رہے ۔زندگی بھر اے ٹی نقوی کے بھرے میں آ کر پاکستان میں بس جانے کی سوجھی‘ یہاں نظریہ پاکستان کے مخالفوں کی آئو بھگت بھلا کیا ہوتی‘ خوب لے دے ہوئی اخباروں میں ایک شور ایک ہنگامہ۔ ہمارے رئیس احمد جعفری مرحوم نے متعدد شذرے ظفر علی خاں کے ''زمیندار‘‘ میں تابڑ توڑ لکھے لیکن جوش ہندوستانی سے پاکستانی بن گئے روحانی طور پر تو خیر نہیں‘
جسمانی ہجرت کامیاب رہی۔ اردو برادری نے ڈرتے ڈرتے پذیرائی کی اور جب فضا ذرا صاف ہوئی تو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ رئیس کے ہاں غروب آفتاب کے ساتھ جوش صاحب کا طلوع ہوا‘ اچھی خاصی گھٹنے لگی۔ جوش کے پائوں جم گئے تو یہ آنا جانا کم سے کم تر ہوتا چلا گیا۔ رئیس کی معیت میں مجھے بھی جوش صاحب کے ہاں جانے اور مزے مزے کی باتیں سننے کا موقع ملتا رہا‘ حضرت اپنی بوتل ساتھ لے کر چلے تو ہم نے پوچھا یہ کیوں‘ فرمایا جوش کے ہاں چلتے ہیں‘ وہ بہت کنجوس ہیں‘ وہاں جاتے جاتے شام ہو جائے گی‘ وہیں بیٹھ کر پئیں گے۔ نو تعمیر بنگلے کی دوسری منزل کے چھجے پرچھ بجتے ہی بوتل اور گلاس چُن دیئے گئے۔ جوش صاحب نے جھوٹوں بھی اپنی بوتل کی طر ف اشارہ نہ کیا۔ اپنی بوتل اپنے پیمانے تک ہی محدود رہیِ‘ میں یہ کمینگی اور ظرف کی کم مائیگی دیکھ کر ملول کیا ہوتا۔ شادمانی سی شادمانی یہ رہی کم از کم میں تو ایسا خسیس الفطرت نہیں ہو سکتا ۔یہ بھی کہہ سکتے ہیں پاس احتیاط کا ایک پہلو یہ بھی ہے ۔پھر بھی دم گھٹنا تو چاہیے۔ ویسے رئیس کا یہ ہے کہ پیمانہ و صہبا ان کے آگے رکھ دیجیے تو گل افشانی گفتار دیکھنے کی چیز بھی ہو جاتی ہے‘ بشرطیکہ حد اعتدال سے آگے نہ بڑھنے پائیں...!
آج کا مقطع
ایک یوسف ہوں ظفر اور برادر اتنے
نیت اب کیا کہوں میں ان کی بھلا کیسی ہے