تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     27-05-2016

غریب قوم کی رہی سہی پونجی

پی آئی اے کی حیثیت ایک فسادی گھرانے کی ملکیت جیسی ہے۔ جسے اہل خاندان‘ حرص و ہوس کے باعث ایک دوسرے کی ضد میں‘ نوچ کھانے پر تلے ہوں۔ چند ماہ پہلے پی آئی اے کے ملازمین کی جس طرح تذلیل اور توہین کی گئی‘ اس سے حکومت کے مذموم ارادوں کا پتہ چلتا ہے۔ سرکاری کرپشن کی انتہا پر آج پوری قوم شور مچانے پر مجبور ہے؛ حتیٰ کہ ماضی کی لوٹ مار پر چپ رہنے والی جماعتیں بھی شور مچانے پر مجبور ہیں۔ یہی جماعت اسلامی تھی‘ جو آج کل کرپشن کے خلاف احتجاجی ٹرین چلا رہی ہے‘ اس نے ماضی کی تمام لوٹ مار پر ‘ یا تو خاموشی اختیار کئے رکھی یا حکمران سیاسی جماعتوں اور آمروں کے ساتھ حصے داری کرتی رہی۔ اگر اس کو اعتراض ہو‘ تو میں مثالیں دینے کو تیار ہوں۔ چونکہ ان دنوں پاناما لیکس کی وجہ سے احتجاج کی لہر اٹھی ہوئی ہے۔ میں بیداری کے اس موسم میں‘ پاکستانی عوام کے انتہائی قیمتی اثاثوں ‘ پی آئی اے کو نوچ کھانے والوں کی طرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں۔ شاید اس غریب قوم کی رہی سہی پونجی‘ لٹیروں کے ہاتھ سے بچ جائے۔حقیقت میں پی آئی اے کے انتظامی امور پر ہمیشہ سرکاری اہلکاروں کا قبضہ رہا اور انتظامیہ کے لوٹ مار کرنے والے ڈاکواپنی اندھی لوٹ مار کے نتائج کا الزام‘ پی آئی اے کی یونین پر لگاتے رہے۔ آج بھی لگا رہے ہیں‘ کل بھی لگائیں گے۔ کیونکہ ان کی نظریںپی آئی اے کے رہے سہے گوشت پر گڑی ہیں۔ نیم مردہ پی آئی اے پر گزراوقات کرنے والوں نے اپنے ادارے کی صورتحال ''بی بی سی‘‘ تک پہنچائی ‘ جسے میں نذر قارئین کر رہا ہوں۔
''پاکستان کی قومی فضائی کمپنی ‘پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں مگر ایسی کیا پانچ باتیں ہیں ؟جنہیں عموماً پی آئی اے سے غلط منسوب کیا جاتا ہے۔
پی آئی اے کے 'بوڑھے‘ فلیٹ کے بارے میں، بات تو ہر اس شخص کی منہ سے سنی جاتی ہے، جس نے اس کمپنی کے بارے میں بات کی۔ مگر آپ حیران ہوں گے کہ ایسی تمام باتیں بالکل غلط ہیں۔پی آئی اے کے پاس تقریباً ہمیشہ سے ہی اکثر جدید اور تکنیکی اعتبارسے ‘بہترین طیارے رہے ہیں۔پی آئی اے کے ٹرپل سیون طیاروں کی عمر اور پی آئی اے کو ملنے کی تاریخ، جن میں سے بعض اس سے قبل دوسری فضائی کمپنیوں کے زیرِ استعمال رہ چکے ہیں۔پی آئی اے کے بیڑے میں، لانگ ہال یا دور کی مسافت کی پروازوں کے لئے، بوئنگ کے جدید 777 اور ایئر بس کے قدرے پرانے اے 310 طیارے ہیں۔پی آئی اے کے پاس چھ اے 310 طیارے ہیں، جن کی عمریں 22 سال سے 24 سال کے درمیان ہیں اور یہ اس وقت ایئرلائن کے زیرِاستعمال سب سے پرانے طیارے ہیں، جو ملک کے اندر اور شرق بعید کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔بوئنگ 777 طیاروں کی عمر 10 سے 12 سال کے درمیان ہے، جس کی ایک قسم، لانگ رینج کا سب سے پہلا طیارہ پی آئی اے نے حاصل کیا تھا۔ اس سے قبل پی آئی اے، بوئنگ کے 747 طیارے استعمال کرتی تھی، جنہیں موجود حکومت نے ریٹائر کر دیا ہے۔
ملتان میں پی آئی اے کے فوکر طیارے کے حادثے کے بعد، مشرف حکومت نے اطالوی طیارہ ساز، اے ٹی آر سے جدید ترین طیارے حاصل کیے جو پی آئی اے کی ملکی اور مختصر فاصلے کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ لاہور سے اسلام آباد یا اسلام آباد سے ملتان یا گلگت۔درمیانی سے مختصر فاصلے کی پروازوں کے لئے، پی آئی اے ان دنوں صرف ایئر بس کے اے 320 طیارے استعمال کرتی ہے۔ اس سے قبل پی آئی اے بوئنگ 300-737 طیارے استعمال کرتی تھی، جنہیںموجودہ حکومت نے ریٹائر کر دیا ہے۔اس کے علاوہ پی آئی اے، اے ٹی آر کے 42 اور 72 طیارے ،مختصر دورانیے کی پروازوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔
پی آئی اے کے تمام طیارے، دنیا میں کہیں بھی پرواز کر سکتے ہیں اور یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ان باتوں کی بنیاد میں، پی آئی اے کے نو طیاروں کے علاوہ باقی طیاروں پر 2007 ء میں لگنے والی پابندی ہے۔ تاہم جن طیاروں پر 2007ء میں پابندی عائد کی گئی تھی، وہ اب ریٹائر کئے جا چکے ہیں۔2014ء میں پی آئی اے کے طیاروں پر، یورپی یونین کے ممالک میں کارگو لے جانے کے حوالے سے جو پابندی عائد کی گئی تھی وہ بھی اٹھائی جا چکی ہے۔
پی آئی اے کے بارے میں یہ بات ہر ایک کرتا ہے اور وزرا سے لے کر عام آدمی تک، اس حوالے سے جو غلطی کرتا ہے، وہ گوگل کی مدد سے اعدادوشمار تیار کرنے کی ہے۔اس میں سب سے بنیادی بات، طیاروں کی تعداد ہے، جو اس حکومت کے دور میں تیزی سے بڑھی ہے۔ جس کی وجہ سے فی طیارہ ملازمین کی تعداد مختلف ہے۔پی آئی اے کے مطابق اس وقت فضائی کمپنی کے پاس، 14771 ملازمین ہیں اور یہ تعداد فی طیارہ 388 ملازم بنتی ہے۔اس وقت پی آئی اے کے پاس 38 طیارے ہیں، جن میں آنے والے چند ہفتوں میں مزید اضافہ ہو گا جس سے ملازمین کی تعداد مزید کم ہو جائے گی۔دنیا میں ملازمین کی فی طیارہ اچھی شرح ،سو سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے مگر اس کا انحصار کمپنی کی پروازوں اور اس کے براہِ راست اور ذیلی کمپنیوں کے ملازمین کی تعداد اور ملازمین پر خرچ کی جانے والی رقم پر ہوتا ہے، جسے عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے۔
پی آئی اے اپنے 38 طیاروں کی مدد سے روزانہ 120 کے قریب پروازیں چلاتی ہے، جو طویل فاصلے سے درمیانے فاصلے کی پروازوں کے ساتھ، ایک بہتر کارکردگی ہے۔پی آئی اے کے پاس دنیا کے بہترین ہوائی اڈوں پر ،بہترین لینڈنگ رائٹس کی سہولت ہے۔اگر پی آئی اے کے پاس اسی طرح کے بہتر طیارے ہوں اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو وہ سب مسافر جنہیں غیرملکی فضائی کمپنیاں سہولت فراہم کر رہی ہیں، پی آئی اے بھی انہیںسفری سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔پی آئی اے کی سب سے زیادہ پروازیں شرق اوسط،خصوصاً دبئی اور پاکستان کے درمیان ہیں جن میں پی آئی اے، دو پاکستانی اور درجن بھر شرق اوسط کی فضائی کمپنیوں سے مقابلہ کرتی ہے۔جہاں پی آئی اے کے طیاروں اور اس کی وجہ سے پروازوں کی تعداد ماضی میں کم ہوتی گئی وہیں غیر ملکی کمپنیوں کو دھڑا دھڑ پاکستان میں، تھوک کے حساب سے لینڈنگ رائٹس دیے گئے۔شرق اوسط کے ممالک سے تعلق رکھنے والی فضائی کمپنیاں، اس وقت پاکستان میں کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد، اسلام آباد سیالکوٹ اور پشاور سے پروازیں چلا رہی ہیں۔ایمریٹس اور قطر جیسی فضائی کمپنیاں، اسلام آباد، کراچی، لاہور حتیٰ کہ سیالکوٹ جیسے شہروں کے لیے بوئنگ 777 یا ایئر بس اے 330 جیسے طیارے چلاتی ہیں اور پی آئی اے کا انحصار ان روٹس کے لئے چھوٹے ایئر بس اے 320 طیاروں پر ہے۔2005ء میں، بیرونی فضائی کمپنیاں ایک ہفتے میں، پاکستان کے لئے سو کے قریب پروازیں چلاتی تھیں اب یہ تعداد 400 کے لگ بھگ ہے۔مختصر یہ کہ آج جو مسافر فلائی دبئی، فلائی ناس، ایئر عریبیہ یا اومان ایئر پر سفر کرتے ہیں، وہ پی آئی اے یا پاکستانی فضائی کمپنیوں پر بھی کر سکتے ہیں مگر یہ بات بہت کم کی جاتی ہے کہ مسافروں کی مد میں ہونے والے سارے نقصان کا سارا فائدہ برادر خلیجی ممالک کی فضائی کمپنیوں کو ہوا ہے۔
روزویلٹ ہوٹل کو 2007ء میں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ،جسے بعد میں واپس لے لیا گیا مگر اب بھی بہت سی للچائی نظریں اس ہوٹل پر لگی ہیں۔پی آئی اے کو ایک بیمار کمپنی قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن یہ ادارہ امریکی شہر ،نیویارک کے مرکزی گرینڈ سینٹرل سٹیشن کے قریب ایک ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے روزویلٹ ہوٹل سمیت ،دنیا کے اہم شہروں میں متعدد ہوٹلوں کا مالک ہے۔روزویلٹ ہوٹل 1979ء میں پی آئی اے کی ذیلی کمپنی، پی آئی اے انویسٹمنٹس نے خریدا تھا، جس میں ابتدائی طور پر سعودی شہزادے فیصل نے سرمایہ کاری کی تھی۔پی آئی اے نے بعد میں اس ہوٹل کے 99فیصد حصص خرید لیے تھے۔جہاں پی آئی اے میں خسارے کا دور دورہ ہے، یہ ان چند منافع بخش سرمایہ کاریوں میں سے ہے ،جن سے پی آئی اے منافع کماتی ہے۔پی آئی اے نے اس کے علاوہ 1979ء میں لیز پر حاصل کیا جانے والا پیرس کا سکرائب ہوٹل بھی 2002ء میں خرید لیا تھا۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved