عزت مآب چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے معمول کے بیان میں کہا ہے کہ'' عرصہ سے چیخ اور رو رہے ہیں پتا نہیں گڈ گورننس کب آئے گی‘‘۔ خاطر جمع رکھیے! اگر موجودہ صورتحال پر آپ سواو موٹو نوٹس نہیں لیتے تو یہ رونا دھونا اور چیخ پکار جاری رہے گی اور آپ ریٹائر ہو کر گھر پہنچ جائیں گے‘ تاہم ضرورت ایجاد کی ماں ہے ‘کے مصداق ‘ دوسری طرف سے کام شروع ہو گیا ہے یعنی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ پنجاب‘ ان کے صاحبزادے ‘ خواجہ آصف اور وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر وغیرہ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ الیکشن کمیشن میں کیپٹن صفدر کے خلاف اپنی اہلیہ کے اثاثے چھپانے کے الزام میں نااہلی کی کارروائی شروع کی جا چکی ہے۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم کے بیرونی دوروں پر اٹھنے والی رقم کے کیس میں ہائی کورٹ لاہور نے تفصیلات کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ واضح رہے کہ ان کارروائیوں کا جوڈیشل کمیشن کی ممکنہ تفتیش و تحقیق سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘ ایک اوراطلاع کے مطابق نیب بھی حکمرانوں کے خلاف مواد اکٹھا کرنے میں مصروف ہے۔
جہاں تک بڑی اپوزیشن جماعت ‘ پیپلز پارٹی کا تعلق ہے‘ اس کے بارے میں کہا تو یہی جا رہا ہے‘ اور اس کے عمومی رویے سے بھی صاف ظاہر ہے کہ وہ حکومت کی مدد کر رہی ہے لیکن اس پر اسے نظرِ ثانی کرنا پڑے گی جو بظاہر نظر بھی آ رہا ہے کیونکہ خصوصاً پنجاب میں
اس کا سیاسی صفایا پہلے ہی ہو چکا ہے اور اگر وہ ایک کرپٹ حکومت کو بچانے میں لگ گئی تو اس کی رہی سہی مقبولیت مزید نیچے آ جائے گا اور چیئرمین بلاول‘ پارٹی کی تنظیم نو کے سلسلے میں جو سر کھپائی کر رہے ہیں۔ان کوششوں پر بھی اس عمل سے پانی پھر جائے گا‘ اس لیے وہ ایسا افورڈ ہی نہیں کر سکتی اور بالآخر حکومت کو اسے اللہ کے سپرد ہی کرنا پڑے گا۔ نیز وزیر اعظم و مذکورہ بالا دیگر حضرات کے خلاف یہ جماعت ان کی نااہلی کے لیے کارروائی کرنے جا رہی ہے‘ اس سے بھی اس کے موڈ اور مجبوری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اسی تناظر میں وزیر اعظم کے ساتھ زرداری صاحب کی ملاقات کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا لگتا ہے اور اس سلسلے میں بعض پارٹی لیڈروں کے بیانات سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ زرداری صاحب یہ ملاقات نہیں کریں گے اگرچہ مولوی فضل الرحمن اس کام کے لیے لندن میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں وہ اس مرحلے پر نوازشریف کی مدد کر کے‘ جو صرف ملاقات تک ہی محدود ہو سکتی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں مزید ناپسندیدہ ہونا بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ نیز وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم موجودہ شکنجے میں جس حد تک پھنس چکے ہیں وہ ان کی کوئی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں بلکہ ایسا کر کے وہ اپنی پوزیشن مزید کمزور کر لیں گے۔
ہمارے ایک دوست جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے میڈیا سیل میں سرفراز ہو گئے ہیں‘ انہوں نے احتساب کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ احتساب ہو گا اورخوفناک احتساب ہو گا۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وزیر اعظم اس دلدل سے نکل آئیں گے تو بولے‘نکل آئیں گے کیا‘ وہ تو نکل چکے ہیں۔ دونوں باتوں میں بقول جناب سہیل وڑائچ کھلا تضاد ہے کہ اگر صاحب موصوف اس بحران سے نکل جائیں تو پھر خوفناک احتساب کس کا ہونا ہے‘ یعنی ع
جناب شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
کچھ عرصے پہلے تک وزیر اعظم کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ اپنی جگہ مریم نواز کو بٹھا کر عارضی طور پر الگ ہو جاتے۔ لیکن اب یہ امکان بھی باقی نہیں رہا کیونکہ وہ اپنی کمپنیوں کے حوالے سے پہلے ہی غلط بیانی کی مرتکب ہو چکی ہیں اور اس طرح وہ کسی بھی ایسے عہدے کے قابل نہیں سمجھی جائیں گی‘ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ اب وہ کسی غیبی امداد ہی کے منتظر ہو سکتے ہیں کیونکہ بظاہر تو کام کافی خراب ہو چکا ہے۔
کرپشن کا عالم تو یہ ہے کہ اربوں اور کروڑوں کے نت نئے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔ سندھ میں ایک وزیر کے گھر سے دو ارب روپے برآمد ہوئے ہیں اور وہ دبئی فرار ہو چکا ہے ۔ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کے گھر سے پورا خزانہ برآمد ہو جاتا ہے‘ کرنسی نوٹوں سے بھری ہوئی لانچ پکڑی جاتی ہے جبکہ ایک بیکری کے واٹر ٹینک سے 45لاکھ روپے دستیاب ہوتے ہیںاس لیے اگر اب بھی قیامت نہیں آتی تو خاطر جمع رہے‘یہ کبھی نہیں آئے گی حالانکہ اس پر ہمارا پختہ ایمان ہے۔ اور ‘ اگر خدا کی بے آواز لاٹھی برسنے کے لیے ہے تو اس میں جتنی تاخیر اب تک ہو چکی ہے‘ اس سے زیادہ کیا ہو گی۔
اور‘ اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو یہ ملک رہنے کے بالکل ہی قابل نہیں رہے گا جبکہ پہلے ہی ہزاروں بامعنی لوگ حالات سے تنگ آ کر راہِ فرار اختیار کر چکے ہیں جن میں ڈاکٹر‘ انجینئر‘ سائنس دان‘ ٹیکنیشن اور اساتذہ شامل ہیں‘ حتیٰ کہ جو طلبہ یہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں‘ ان میں سے اکثر واپس آ کر ملک کی خدمت کرنے کے بجائے وہیں پر مستقل سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ملک میں صرف یہ حکمران طبقہ ہی رہ جائے گا۔ اور ‘ اب آخر میں کاشف حسین غائر کا رنگِ غزل:
جو اشک بچ گئے انہیں لاتا ہوں کام میں
تھوڑی سی دھوپ روز ملاتا ہوں شام میں
بستی میں اک چراغ کے جلنے سے عمر بھر
کیا کیا خلل پڑا ہے ستاروں کے کام میں
اک شخص اپنی ذات کی تعمیر چھوڑ کر
مصروف آج کل ہے مرے اِنہدام میں
مجھ کو بھی اُس گلی میں محبت کسی سے ہے
اب نام کیا بتائوں‘ رکھا کیا ہے نام میں
کاشف حسین دشت میں جتنے بھی دن رہا
بیٹھا نہیں غُبار میرے احترام میں
آج کا مقطع
اُمید وصل کو ظفر اتنا غلط نہ جان
اس جھوٹ سے تو سوچ میں سچائی آئے گی