تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     27-05-2016

میرا باپ امیر تھا

اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ جنت کی سیر کر کے تشریف لائے تو صحیح بخاری میں ہے۔ صحابہ کو بتلایا کہ حضرت ابراہیمؑ کے چہرے کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا میرا چہرہ ہے... جی ہاں! حضرت ابراہیم خوبصورت تھے اور ہمارے حضرت محمد کریمؐ بھی انتہائی حسین و جمیل تھے۔ چہرہ ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ معنوی حسن کا بھی حامل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے حضرت ابراہیم ؑبردبار اور ٹھنڈے مزاج کے تھے تو ہمارے حضور نبی کریمﷺ بھی حلیم اور انتہائی اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے۔ یہ وصف لیڈرشپ کا وصف ہے ؛لہٰذا حضورﷺ نے اس وصف کا واضح اظہار فرمایا۔ ہمارے حضور نبی کریمﷺ چونکہ حضرت ابراہیمؑ کے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ؛لہٰذا اللہ کے رسولﷺ نے ان کا بھی وصف بتلایا۔ مدینہ منورہ میں اپنی افواج سے مخاطب ہو کر سالار صحابہﷺ نے فرمایا! اے اولاد اسمٰعیلؑ خوب تیراندازی کرو کیونکہ تمہارے باپ جناب اسمٰعیل علیہ السلام بہت اچھے تیرانداز تھے۔(بخاری) جی ہاں! لیڈرشپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک اور عوام کی حفاظت کے لئے اپنی سپاہ کو جدید ترین مشقوں میں سے گزار کر کندن بنائے؛ چنانچہ ہمارے حضورﷺ نے اس وصف کا بھی اظہار کیا کہ ہمارے باپ اسمٰعیل علیہ السلام دفاع کے معاملے میں بھی بہت آگے تھے۔ لیڈرشپ کا کام یہ بھی ہے کہ مشکل کی گھڑی میں سیسہ پلائی دیوار بن جائے‘ چنانچہ حنین کے مقام پر جنگ میں جب اچانک تیروں کی بوچھاڑ میں زیادہ تر مسلمان سپاہ بھاگ اٹھی تو حضرت محمد کریمﷺ تیروں کی بارش میں جم کر کھڑے رہے اور اپنی سپاہ کو اپنی جانب بلایا اور فرمایا: ''میں نبی ہوں اس میں کچھ غلط نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘ (بخاری)۔ قارئین کرام! غور فرمائیں، اللہ کے رسولﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں قریشی ہوں‘ میں ہاشمی ہوں میں سردار کا بیٹا ہوں، میں مالدار کا بیٹا ہوں، میں سرمایہ دار کا بیٹا ہوں، اس لئے کہ یہ سب انتہائی چھوٹی باتیں ہیں اور انسانیت کے محسن کی پاک اور مبارک زبان سے ایسی باتیں ادا نہیں ہو سکتیں چنانچہ آباء و اجداد کا تذکرہ ہوا مگر ان کے ان اوصاف کی وجہ سے ہوا جو اوصافِ حمیدہ ہیں، شریفہ ہیں اور عالیہ و عظیمہ ہیں۔ اعلیٰ و اعظم رسول کی زبان سے جو جملہ نکلتا ہے وہ بھی اعلیٰ اور اعظم ہی ہوتا ہے۔
ہمارے حضورﷺ کے والد گرامی جناب عبداللہ تاجر تھے، بزنس مین تھے، امپورٹ ایکسپورٹ کیا کرتے تھے وہ فوت بھی ہوئے تو تجارتی سفر میں۔ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کے لئے شام گئے تھے، واپس آتے ہوئے مدینہ منورہ میں فوت ہوئے تھے۔ جیسا کہ سورۃ قریش میں ذکر ہے، قریش تاجر تھے۔ امپورٹرز اور ایکسپورٹرز تھے۔ ہمارے حضورﷺ نے اسی کاروبار کے سلسلہ میں اپنے چچا جناب ابوطالب کے ہمراہ شام کی انہی تجارتی راہوں کا سفر کیا تھا جن پر آپﷺ کے آبائواجداد سفر کر چکے تھے، یعنی تجارت آپ کا خاندانی کاروبار تھا۔ پھر آپﷺ نے جوانی میں خود یہ کاروبار کیا۔ مکہ کی مالدار ترین خاتون حضرت خدیجہؓ جو اسی کاروبار سے تعلق رکھتی تھیں، آپﷺ کی زوجہ بن گئیں، ان کو ''ملیکۃ التجار‘‘ کہا جاتا تھا انہیں آج کے حساب سے دیکھیں تو مڈل ایسٹ چیمبر آف کامرس کی سربراہ کہا جا سکتا ہے۔ یوں عظیم شوہر اور عظیم رفیقہ حیات دونوں کاروباری، تاجر، امپورٹر اور ایکسپورٹر تھے۔ 
آپﷺ جب مدینہ میں مہاجر بن کر تشریف لائے تو حکمران بنا دیئے گئے۔ آپ چاہتے تو مدینہ میں لمبا چوڑا کاروبار شروع کر دیتے اور اہل مدینہ سے فرماتے کہ میرا دادا بھی مالدار تھا۔ میرا باپ بھی بزنس مین تھا۔ میری اہلیہ بھی عرب کی تمام خواتین میں سب سے بڑی تاجر اور مالدار خاتون تھیں۔ میں خود بھی بزنس کرتا رہا لہٰذا میں نے یہ جو ''بزنس ایمپائر‘‘ کھڑی کی ہے یہ میرا خاندانی ورثہ ہے۔ لوگو! یہ بات تو حقیقت ہوتی مگر بڑی چھوٹی بات ہے اور میرے اعلیٰ و اعظم حضورﷺ کے مبارک اور پاک دہن سے ایسی بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ حکمران مدینہ نے کاروبار نہیں کیا جو تھا وہ بھی لٹا دیا اور مسکین رعایا کے ساتھ حکمرانی بھی مسکینی میں کر دکھائی۔ 
جی ہاں! حکمرانی کا بوجھ اور تقاضا ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ یا تو کاروبار کر لیا جائے اور یا پھر حکمرانی کر لی جائے۔ حکمران تو رہنما ہوتا ہے اور رہنمائی پوری قوم کی کرتا ہے وہ چونکہ قومی کاروبار کا سوچتا ہے اس لئے قومی رہنما ہوتا ہے۔ اگر وہ خاندان اور رشتہ داروں کے مال کی بڑھوتری میں لگا رہے تو پھر قوم کے ساتھ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ کاروبار کرے اور اپنے خاندان کے لئے بزنس ایمپائر بنائے، عیش کی زندگی گزارے، مگراپنے آپ کو قومی رہنما نہ کہلوائے۔ 
قومی رہنما تو اقبال اور قائد کے بعد پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے کہ پاکستان کے معروف سفارتکار جمشید مارکر اپنی آنکھوں دیکھی بات لکھتے ہیں کہ سیکرٹری نے لیاقت علی خان کے سامنے فائل رکھی کہ آپ مشرقی پنجاب میں بہت بڑی جاگیر چھوڑ کر آئے ہیں، بنگلے اور کوٹھیاں چھوڑ کر آئے ہیں، نئی دہلی میں ان کی محل نما خوبصورت کوٹھی حکومت پاکستان کو سفارتخانے کے طور پر دے دی گئی ہے تو ان کے بدلے میں آپ پاکستان میں جائیداد لے لیں۔ لیاقت علی خان غصے میں آ گئے۔ جمشید مارکر کہتے ہیں، اس قدر غصے میں آئے کہ ہم نے جناب وزیراعظم کو ایسا کبھی نہ دیکھا تھا۔ انہوں نے فائل سیکرٹری کے منہ پر ماری اور کہا ہر مہاجر کو گھر مل گیا ہے جو میں جائیداد لے لوں؟ جی ہاں! اک وہ وزیراعظم تھے اور اک آج ہمارے وزرائے اعظم ہیں کہ جن کے نام لیاقت علی خان کے خوشبودار نام کے سامنے خوشبوسے محروم ہیں اور جو میرے حضورﷺ کی پاک حکمرانی ہے وہ تو جناب جبریلؑ کے تقدس سے کہیں بڑھ کر مقدس و پوتر ہے۔ بقول پیر مہر علی شاہ! ؎
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں
مدینہ منورہ سے جب حضورﷺ کی فتوحات کا آغاز ہوا تو مال غنیمت کے ڈھیر تھے۔ اونٹوں اور بکریوں کے ریوڑوں کی تعداد بے شمار ہو گئی تھی۔ سونے چاندی کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے حضرت علیؓ یمن سے سونے کے تھیلے بھرے بھیج رہے ہیں۔ جعرانہ میں ایک ایک شخص کو سینکڑوں کے حساب سے اونٹ دیئے جا رہے ہیں۔ الغرض! مال فراواں ہو گیا تھا اور میرے حضورﷺ کا مال غنیمت میں پانچواں حصہ اللہ نے طے کر دیاتھا۔ لڑے بغیر دشمن ہتھیار پھینک دے تو فوجوں کا مال ''فئے‘‘ کہلواتا تھا۔ اللہ نے یہ سارے کا سارا اپنے رسول کا حق قرار دے دیا۔ اپنے اس حق سے حضورﷺ چاہتے تو محل بنوا لیتے۔ خاندان میں سے ہر ایک کا محل اور جاگیریں بنوا لیتے مگر شاہ عرب نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کو ایک خادم مانگنے کے باوجود نہ دیا۔ وظیفہ بتلا دیا کہ فاطمہ! سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر پڑھتی جانا اور چکی چلاتی جانا۔ علی! یہ پڑھتے جائو اور کنویں سے پانی کے ڈول کھینچتے جائو۔ ازواج مطہرات کے مطالبات پر کہا، میرے پاس رہنا ہے تو مسکینی میں، یہ قبول نہیں تو باپوںسے مشورہ کر لو، مال لے لو اور گھروں کی راہ لو۔ بھلا کون ہے جو حضورﷺ کے بدلے مال لے؟ سب نے واضح اور ثابت کر دیا۔ یا رسول اللہ! آپ پر سارا جہاں قربان۔ اور تو اور ننھے حسن اور ننھے حسین کے منہ سے صدقے کی کھجوریں نکال کر پھینک دیں اور فرمایا، پتہ نہیں تم کو کہ محمد کے خاندان پر صدقہ (غریبوں کا مال) حرام ہے اور فرمایا! ''ہم انبیاء اور رسولوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو مال چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔(بخاری)‘‘ اللہ اللہ! یعنی حضورﷺ کا چھوڑا ہوا مال بھی امت کے غریبوں اور مسکینوں کا حق ہے۔ خاندان کا حق نہیں ہے پھر شاعر کیوں نہ کہے! ع
سلام اس پر کہ جس نے شاہی میں فقیری کی
قارئین کرام! آج کے حسن اور حسین کا ابا جان ہم اہل پاکستان کا حکمران ہے وہ دنیا میں پھیلے ہوئے دولت کے ڈھیروں کی طرف دیکھ کر پاکستان کی اسمبلی میں اعلان کرتا ہے ''میرا والد امیر تھا‘‘ اس روز میرا دل چاہا کہ کوئی لیاقت علی خان کا بیٹا یا پوتا ڈھونڈ نکالوں اور وہ کہے کہ میرا باپ لیاقت علی خان بڑا امیر تھا۔ نوابزادہ تھا مگر وہ جو کردار ادا کر گیا، اس کردار کے حامل انسان کو رہنما کہتے ہیں، سیاستدان اور لیڈر کہتے ہیں۔ میری دعا ہے اے مولا! میرے پاکستان کے ہر وزیراعظم کو ایسا ہی لیڈر بنا دے، رہنما بنا دے اور سیاستدان بنادے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved