غالب کا شعر ہے۔
گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
ہمار ی خارجہ پالیسی بھی یہی ہے۔جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو افغانستان واحد ملک ہے جس نے اقوام متحدہ میں ہماری رکنیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔لیکن اس کی وجہ‘ افغانستان کی یہ شکایت تھی کہ انگریزوں نے طورخم تک کا علاقہ‘ افغانستان سے چھین کر‘متحدہ ہندوستان میں شامل کیا تھا لہٰذا پاکستان کو یہ علاقہ اسے واپس کرنا چاہئے۔بھارتی حکومت بھی افغانستان کے اس دعوے کی حامی بن گئی اور پاکستان کے اندر خان عبدالغفار خان عرف سرحدی گاندھی بطور پختون‘ پختونستان کے اپنے مطالبے میں اس علاقے کے دعویدار بن گئے لیکن اس دور کی سیاسی قیادت کو داد دینا چاہئے کہ افغانستان کی طرف سے‘ ہمارے خلاف شدید معاندانہ اقدامات کے باوجود‘اس نے بہتر تعلقات قائم کئے اور حالات کو معمول پر رکھا۔بعد میںفوجی آمروں نے جو گل کھلائے‘ اس کی تفصیل یاد کر کے‘انتہائی دکھ ہوتا ہے۔میں تاریخ کے دوسرے واقعات یاد نہیں کروں گا۔جب افغانستان میں عوامی لیڈر‘ نور محمد ترکئی نے دائود خان کا تختہ الٹ کر اپنی حکومت قائم کی تو پاکستان کے فوجی حکمران سے لے کر‘ امریکہ تک ہر کسی کو فکر تھی کہ اگر افغانستان میں سوشلسٹ حکومت نے قدم جما لئے اور اس پس ماندہ ملک میں عوام کی حالت اچھی ہونے لگی تو کچھ بعید نہیں کہ گردونواح میں عوام کی سوچ میں بھی تبدیلی آنے لگے۔ اس طرح یہ خطہ‘ جہاں امریکہ اپنے اڈے قائم کرنے کے لئے‘ موقعے کی تلاش میں تھا۔ وہاں اپنی پٹھو حکومت بنانے کے لئے حسب روایت سازشو ں میں مصروف ہو گیا۔ اس مقصد کے لئے جنرل ضیا الحق کی خدمات حاصل کی گئیں‘ جو کہ امریکہ کا پرانا پٹھو تھا۔فوجی ملازمت کے دوران ہی اسے‘ اردن میں شاہ حسین کی مدد کے لئے بھیجا گیا جو اس وقت فلسطینیوں کی پھیلتی ہوئی جنگ آزادی کی زد پر تھا۔ اسرائیل کے ستائے ہوئے نہتے اور مظلوم فلسطینی‘ اردن میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔انہوں نے مغربی طاقتوں کے دو مسافر جہاز اغوا کر لئے۔ یہ دونوں جہاز تو مغربی طاقتوں نے بحفاظت زمین پر اتار لئے لیکن اس کے بعد‘ شاہ حسین نے فلسطینیوں کا اپنے ملک میں رہنا مشکل کر دیا۔ضیا الحق کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی کہ وہ فلسطینیوں کی جنگجو قوت کوتباہ کر کے رکھ دے۔جنرل ضیا نے یہودی افواج کی طرح فلسطینیوں کو کچلنا شروع کر دیا۔ ان پر بے رحمی سے حملہ کر دیا اور ان کے جنگجو دستوں کو یا تو شہید کر دیا گیا یا اردن کی سرحدوں سے باہر نکال دیا۔
جب کابل میں ایک عوام دوست حکومت قائم ہوئی تو امریکہ کے اس آزمودہ کارندے کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ ترکئی حکومت کو ناکام بنائے۔نور محمد ترکئی کی جگہ‘ حفیظ اللہ امین نے لی اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔پاکستان براہ راست افغانستان میں اقتدار کی رسہ کشی کا حصے دار بن گیا۔امریکہ نے ڈالروں کے منہ کھول دیے۔ پاکستانی حکومت نے افغان مولویوں کوخرید کر‘ مجاہدین کا نام دیا اور ملائوں کے مسلح گروہ کابل کی ہر حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں کر کے‘ اس بد نصیب ملک کی ہر حکومت کو غیر موثر بنانے لگے۔ کابل میں جو بھی حکومت بنتی‘ یہ اس کی جڑیں کاٹنے میں لگ جاتے۔ آخر میں ببرک کارمل نے حکومت پر قبضہ کیا تو اس نے سوویت یونین کو مدد کے لئے پکارا اور سوویت افواج ‘ افغانستان میں داخل ہو گئیں۔امریکہ ‘ویت نام کی شکست پر تلملایا ہوا تھا۔ ہرچند سوویت یونین نے وہاں اپنی افواج نہیں بھیجی تھیں۔ ویت نام کے مجاہدین آزادی ہی پٹھو امریکی حکومت کی افواج کا مقابلہ کر رہے تھے۔یہ عالمی تاریخ کی ایک ایسی جنگ تھی۔ جس کی مثالیں برسوں تک دی جائیں گی۔ دنیا کی بڑی سپر پاور امریکہ نے ویت نامی آمروں کواسلحے سے لا د دیا اورجب انہوں نے گوریلا کارروائیوں کے ذریعے پٹھو حکمرانوں کی افواج کو ناکوں چنے چبوا دیے تو خودا مریکہ کو اپنی افواج اتارنا پڑیں۔ ویت نامی نسلی طور پر چھوٹے قد اور چست بدن کے مالک ہوتے ہیںجبکہ چھ چھ فٹ کے امریکی جوان‘ انہیں دیکھ کر طنزاً مسکرایا کرتے تھے کہ یہ نہتے اور نیم برہنہ قسم کے لوگ‘ ہمارا کیا مقابلہ کریں گے؟ لیکن یہ ویت نامی مجاہدین آزادی کا کمال تھا کہ انہوں نے ظالم امریکی فوج کے حوصلے پست کر دیے اور اس طول پکڑتی ہوئی جنگ نے‘ امریکی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ ویت نام میں شکست قبول کر کے‘ وہاں سے نکل جائے۔ مجھے وہ منظر کبھی نہیں بھولتے۔ جب امریکی افواج اپنے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے لٹک لٹک کے ویت نام سے بھاگ رہی تھیں۔میں نے یہ مناظر ٹی وی پر دیکھے ہیں۔ ایسی شکست سے امریکہ پہلے کبھی دوچار نہیں ہوا۔ ویت نامیوں نے امریکی سپہ کو ایسا سبق سکھایا کہ ایک مدت تک کسی دوسرے ملک میں فوجیں نہیں اتاریں لیکن سامراجی مزاج کی اپنی خصوصیت ہے۔ تقریباًدوعشروں کے بعد‘ امریکہ نے ایک بار پھر عراق اور افغانستان میں‘ براہ راست اپنی فوجیں اتاردیں۔اسے پھر اسی تجربے سے دوچار ہونا پڑا۔ہر چند افغانستان اور عراق بھی تباہ و برباد ہو گئے۔ دونوں ملکوں میں مرکزی حکومتیں ختم ہو گئیںاور آج بھی وہاں خانہ جنگی کی سی صورت حال ہے۔
لیکن امریکہ کی پٹھو دو فوجی آمریتوں نے‘ افغانستان میں مداخلت کر کے‘ پاکستان کو جس تباہی سے دوچار کیا۔ اس کے اثرات سے شاید ہم کئی عشروں تک نہ نکل پائیں۔ لیکن جس چیز کا میں گہرا دکھ محسوس کرتا ہوں ۔ وہ پاکستان کی اپنی تباہی ہے۔ ہمارا سیاسی نظام جسے ایوب خان نے تہہ و بالا کیا تھا‘ وہ دوبارہ بحال نہ ہو سکا۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے لئے جو نیم جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں‘ ان میں بھی پاکستانی معاشرہ معمول پر نہ آسکا۔ آمرانہ رجحانات نے ایسی جڑیں پکڑیںکہ فوجی اور سیاسی آمریتوں میں زیادہ فرق نہیں رہ گیا۔دونوں اقسام کے آمروں کا بنیادی نظریہ‘ اقتدار کا حصول اور تحفظ رہا۔ان دنوں ہم سیاسی آمریت کے دور سے گزر رہے ہیں۔ملک کے دو بڑے صوبوں میں ‘دو جماعتوں نے اپنی حکومتیں بنا رکھی ہیں۔ دونوں صوبائی حکومتیں‘ایک ایک سیاسی آمر کے کنٹرول میں ہیں۔مشکل وقت میں دونوں صوبوں پر سیاسی کنٹرول رکھنے والے لیڈر‘ ایک دوسرے کی بھر پورمدد کرتے ہیں۔مثلاً جب اسلام آباد میں دو جماعتوں نے دھرنا دیا تو نوازحکومت‘ شدید مشکلات میں گھر گئی تھی مگر اس وقت باہمی مک مکا بروئے عمل آیا اور سندھ کے حکمران نے پنجاب کے حکمران کو پارلیمنٹ میں بھر پورحمایت مہیا کر کے‘ اس ڈوبتی کشتی کو سہارا دے کرسنبھال لیا۔
جنرل ضیا الحق کے زمانے سے لے کر آج تک‘ پاکستان میں کوئی ایسی حکومت نہیں بن سکی‘ جس کی خارجہ پالیسی عوامی مفادات کی بنیاد پر تشکیل پائی ہو۔ فوجی اور غیر فوجی آمریتوں کی پالیسیاں امریکی مفادات کے تابع رہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی ملک ہمارا دوست نہیں۔ہم خود کو سہارا دینے کے لئے‘ چین کے ساتھ دوستی کا دعوی کرتے رہتے ہیں جبکہ چین اپنی جغرافیائی ضروریات کے پیش نظر‘ پاکستان کے ساتھ تعلقات نبھاتا ہے۔ان دنوں چین نے پاکستان میں ہماری زندگی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اس منصوبے کا تحفظ کرنے والی خارجہ پالیسی بنانے کا ہوش نہیں۔ہمارے اصل حکمرانوں کی واحد توجہ‘ دولت جمع کرنے پر مرکوز ہے اور اس کا بھی بڑاحصہ بیرون ملک جمع کیا جا تا ہے۔ایک خاندان کی تھوڑی سی دولت کا سراغ لگا ہے جبکہ دوسرے کا کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔ اندازے یہی ہیں کہ دونوں خاندان ہی دولت جمع کرنے میں‘ ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں۔فی الحال یہ دونوں خاندان‘ دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ صرف پنجاب میں ایک احتجاجی تحریک کے آثار دکھائی دے رہے ہیں لیکن اپوزیشن میں‘ حکمرانوں سے مفادات حاصل کرنے کے خواہش مندوں کی کمی نہیں۔اگر احتجاجی تحریک شروع ہو بھی گئی تو ہلکے پھلے سندیسے ‘ان کے راستے بدل دیں گے۔ صرف عمران خان عوام کا ساتھ دینے کی کوشش کریں گے۔ ہمیں بہت دیر ہو چکی ہے۔کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ اس دیر کے گہراتے ہوئے اندھیرے‘ مزید کتنے گہرے ہونے جا رہے ہیں؟