تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     28-05-2016

28 مئی 1998ء کی روداد

1980ء کی دہائی میں ایک مرتبہ نیویارک کی ایک مصروف سڑک پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے میری نظر ایک بڑے سے بمپر سٹیکر پر پڑی جس پر یہ الفاظ درج تھے۔۔۔ ''ایک ایٹم بم آپ کا پورا دن تباہ کر سکتا ہے‘‘۔ اگر اس پیغام کے لفظی معنی کو دیکھیں تو بظاہر یہ ایک بچگانہ سوچ دکھائی دیتی تھی، لیکن اگر اس کی گہرائی کو سمجھیں تو یہ الفاظ ایک ہولناک سچائی کو بیان کر رہے تھے۔ کہا گیا تھا کہ ایک، صرف ایک جوہری ہتھیار آپ کا ایک دن تباہ کر سکتا ہے، لیکن کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس کے بعد آپ کے لیے کوئی اور دن طلوع نہیں ہو گا۔ یہ تھی وہ سچائی جو وہ سٹیکر بیان کر رہا تھا کہ جوہری ہتھیار انسان کو ناقابل تصور تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں۔ ان سے درپیش خطرہ انسانی بقا کے سر پر ایک لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح ہے۔
یقینا اس حقیقت سے اتفاق کے لیے کسی فلسفیانہ بیان کی ضرورت نہیں کہ جوہری ہتھیار کسی بھی صورت استعمال کے لیے نہیں ہیں۔ اُنہیں سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں ایک ڈیٹرنس کے طور پر دیکھا گیا تھا؛ تاہم اس معروضے سے بھی مفر ممکن نہیں کہ جب تک عالمی سطح پر ''گلوبل زیرو‘‘ منزل حاصل نہیں کر لی جاتی، گویا تمام دنیا کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک نہیں کر لیا جاتا، ایٹمی تباہی کا خطرہ انسان کے سر پر منڈلاتا رہے گا۔ اب سرد جنگ کا دور تمام ہوئے مدت ہو گئی‘ لیکن اس دور میں بنائے گئے ڈیٹرنس کے ہزاروں ذرائع آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ ان جوہری ہتھیاروں کا پچانوے فیصد دو ممالک، امریکہ اور روس کے اسلحہ خانوں میں موجود ہے۔ یہ صورت حال دنیا کے دیگر خطوں میں کم خطرناک نہیں۔ ہمارا اپنا خطہ بہت بہتر حالت میں ہوتا اگر رابرٹ اوپن ہائمر کے الفاظ، جو اُنھوں نے نیو میکسیکو میں جولائی 1945ء میں امریکہ کے پہلے ایٹمی تجربے ''Trinity Test‘‘ کی طاقت دیکھنے کے بعد کہے تھے، پر اعتبار کیا جاتا۔ وہ تجربے کے منظر سے اتنے متاثر ہوئے کہ بے اختیار بھگوت گیتا کے یہ اشعار اُس کی زبان پر آ گئے۔۔۔ ''اگر آسمان پر بیک وقت ایک ہزار سورج پھٹ پریں توکہیں جا کر اس کی ایک جھلک بنتی ہے۔ اب میں دنیا کے لیے موت، ایک تباہ کن فعال طاقت ہوں‘‘۔ 
اپریل 1998ء میں بی جے پی کی نئی منتخب شدہ حکومت نے ''ایٹی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ایٹمی تجربہ‘‘ کرنے کا اعلان کیا۔ مجھے اپریل کا پہلا ہفتہ یاد ہے۔ ہم نے اپنے وزیر اعظم کی طرف سے جی ایٹ ریاستوں کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر اُن کی توجہ بھارت کے خطرناک جوہری عزائم کی طرف مبذول کراتے ہوئے اُنہیں باور کرانے کی کوشش کی کہ بی جے پی کی نئی حکومت ایٹمی دھماکہ کرنے جا رہی ہے۔ انڈیا نے گیارہ اور تیرہ مئی کو پانچ ایٹمی دھماکے کرکے ہمارے انتباہ کو درست ثابت کر دیا۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد سترہ دن تک ہم انتظار کرتے رہے کہ دنیا ہمارے سکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری اقدامات کرے‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بجائے ہمیں ہدایت کی گئی کہ ہم خود پر قابو رکھیں اور ''بلند اخلاقی پوزیشن‘‘ اختیار کرتے ہوئے دھماکوں کا جواب دھماکوں سے دینے سے گریز کریں۔ ہم جان چکے تھے کہ اب جنوبی ایشیا میں نازک ڈوری سے لٹکا امن کا پیمانہ برہم ہونے کو ہے؛ چنانچہ سکیورٹی کی یقین دہانی کی غیر موجودگی میں ہمارے پاس اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے راست اقدام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا؛ چنانچہ پاکستان نے اٹھائیس مئی کو پانچ ایٹمی دھماکے کیے اور اس کے بعد ایک دھماکہ تیس مئی کو کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مشکل لیکن ناگزیر فیصلہ تھا۔ ہمارے دھماکے اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے تھے تاکہ ہم کم از کم ڈیٹرنس کے ذریعے جنوبی ایشیا میں تزویراتی توازن کو برقرار رکھیں۔ 
اس بات سے قطع نظر کہ ایٹمی ہتھیار ہمارے خطے میں کس نے متعارف کرائے، آج جنوبی ایشیا میں ان کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ یہ ہتھیار انڈیا اور پاکستان، دونوں کے لیے ایک قابل اعتماد کم از کم سکیورٹی ڈیٹرنس ہیں۔ پاکستان کا البتہ یہ دعویٰ ہے کہ اس کے دھماکوں نے خطے کے تزویراتی توازن کو برہم ہونے بچا لیا۔ ہم نے این پی ٹی (ایٹمی عدم پھیلائو کا معاہدہ) کو کبھی بھی چیلنج نہیں کیا۔ جب اسے 1968ء میں حتمی شکل دی جا رہی تھی‘ تو ہم نے اس کے مقاصد کی بھرپور حمایت کی تھی۔ ہم نے اس پر دستخط صرف اس لیے نہیں کیے کہ انڈیا نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ اور وہ اپنے جوہری عزائم کو آگے بڑھا رہا تھا۔ این پی ٹی کی 1968ء میں شروعات کے بعد سے ہمارے خطے سے اس کے لیے ہر تجویز پاکستان کی طرف سے آئی تھی۔ ہم نے جنوبی ایشیا میں غیر امتیازی طاقت کا توازن قائم کرنے اور اس خطے میں ایٹمی پھیلائو کو روکنے کے لیے کئی ایک تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز میں ایک ''جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروںسے پاک علاقہ‘‘ قرار دینے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول اور تیاری کو مشترکہ طور پر رد کرنے اور باہمی طور پر این پی ٹی پر دستخط کرنے کی تجویز بھی شامل تھی۔ جون 1991ء میں ہم نے پانچ اقوام کی ایک کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی، جسے بعد میں توسیع دے کر یو این سکیورٹی کونسل کے تمام مستقل ارکان کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا۔ اس کا مقصد روایتی ہتھیاروں کے کنٹرول اور اعتماد سازی کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ایٹمی پھیلائو کی حوصلہ شکنی پر بحث کرنا تھی۔ 
جنوبی ایشیا میں ہونے والے ایٹمی دھماکوں پر عالمی برادری کا عمومی اور عالمی طاقتوں کا خصوصی ردعمل دیکھنے میں آیا‘ اور چھ جون 1998ء کو یو این سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1172 منظور کی گئی‘ جو دیگر امور کے علاوہ کیے گئے دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے دونوں ممالک کو اپنے ایٹمی پروگراموں کو رول بیک کرنے، سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے، ایف ایم سی ٹی پر پیش رفت کرنے اور میزائل ڈلیوری سسٹم کو محدود کرنے کی ہدایت کرتی تھی۔ یقینا اُس وقت ہم شدید دبائو میں تھے، اپنی ایٹمی طاقت دکھانے کی جسارت پر ہمیں معاشی پابندیوں کا سامنا تھا، لیکن ہم نے اسے اپنی خارجہ پالیسی کے ایک چیلنج کے طور پر لیا اور ہم سکیورٹی مفادات کے حوالے سے اپنے معروضات دنیا تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ 
امریکہ کا پاکستان اور بھارت کے ساتھ بیک وقت لیکن الگ الگ ڈائیلاگ ہوا، جس کا مساوی بنیادوں پر ایک ہی ایجنڈا تھا‘ جو جون 1998ء سے لے کر فروری 1999ء تک آٹھ ادوار کی شکل میں ہوا‘ اور پاکستان کی جانب سے جس میں مجھے نمائندگی کا شرف حاصل ہوا‘ جبکہ بھارت کی نمائندگی اُس کے وزیر برائے خارجہ امور، جسونت سنگھ کر رہے تھے۔ فروری 1999ء میں ڈائیلاگ کے خاتمے پر دونوں ملکوں کے درمیان ایک واضح مساوات تسلیم کی گئی‘ جس کے مطابق ایک قسم کا سٹریٹجک لنکیج قائم ہو گیا تاکہ مستقبل میں ٹیکنالوجی تک رسائی کے لئے یک طور پر کسی قسم کی رعایت یا استثنیٰ نہ برتا جائے۔ یہ لنکیج بدقسمتی سے آج برقرار نہیں ہے۔ آج یہ منصفانہ سلوک کہیں موجود نہیں، اور انڈیا اور پاکستان کے ساتھ الگ الگ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
برصغیر میں ایٹمی اسلحہ سازی کا دور شروع ہونے کے بعد سے جنوبی ایشیا کے مسائل صرف خطے کے لیے ہی باعث تشویش نہیں‘ بلکہ ان کی وجہ سے تمام خطے کا امن اور سکیورٹی خطرے کی زد میں ہیں۔ یقینا ایٹمی تصادم میں کوئی بھی فاتح نہ ہو گا۔ عالمی برادری کو چاہیے تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے مابین امتیازی سلوک کی پالیسیوں پر نظرثانی کرکے ایٹمی مساوات (جو دنیا کی تاریخ میں سرد جنگ کے علاوہ صرف اسی خطے میں بھی دکھائی دیتی ہے) کو برقرار رکھنے اور سکیورٹی، انصاف اور تحفظ کے احساس کی ترویج میں اپنا کردار ادا کرتی؛ تاہم ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایسے تمام اقدامات، جو ایٹمی طاقت کی حامل دونوں ہمسایہ ریاستوں کے تزویراتی توازن کو برہم کرتے ہوئے ان کے درمیان خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ شروع کر سکتے ہیں، خطے کے عوام سے دشمنی کے مترادف ہیں۔ ہمارے خطے میں امن ''بیک چینل معاہدوں‘‘ سے قائم نہیں ہو گا، اس کے لیے مسائل کا حل اور بقائے باہمی کے معروضات کو فروغ دینے کے لیے بامعانی مذاکرات اور تعمیری روابط کو کھلے ماحول میں پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ 
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ گزشتہ ستر سال سے جنگیں لڑنے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے۔ اب ہمیں اگلے ستر برسوں تک امن کو موقع دینا چاہیے۔ اس کے لیے دونوں ممالک کو تعلقات بہتر بنانے والی تبدیلیوں کی راہ اختیار کرنا ہو گی۔ پائیدار قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں ایسے اصول و ضوابط وضع کرنا ہوں گے جن پر عمل پیر ا ہو کر مل جل کر جینے، طاقت کے استعمال سے گریز کرنے اور تمام مسائل کا پُرامن طریقے سے حل کرنا ممکن ہو سکے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved