تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-05-2016

یتیم کی کفالت اور رحمۃ للعالمینﷺ کی بشارت

کالم میں تاخیر کی وہی پرانی وجہ یعنی سفر ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں کوئی ایسی رات نہیں گزری جو اگلے شہر میں نہ بسر ہوئی ہو۔ ملتان سے اسلام آباد‘ اسلام آباد سے کوٹلی‘ کوٹلی سے پھر اسلام آباد‘ اسلام آباد سے لاہور‘ لاہور سے پھر ایک بار اسلام آباد‘ اسلام آباد سے دھیر کوٹ‘ وہاں سے باغ اور آج راولاکوٹ۔ کہیں فون سروس ہے اور کہیں غائب۔ کہیں گرمی ہے اور کہیں بارش۔ تھری جی ندارد۔ منظر ایسے کہ دل خوش ہو جائے مگر سڑکیں خستہ حال بلکہ بے حال۔ اسلام آباد سے کوٹلی کا سفر محض ایک سو تیس کلومیٹر کے لگ بھگ، مگر جاتے ہوئے ساڑھے چار گھنٹے لگے۔ چیچک زدہ سڑک۔ راستے میں کئی جگہ ان کھڈوں اور گڑھوں کو تارکول اور بجری کے آمیزے سے مرمت ہوتے دیکھا مگر کام کا معیار‘ آمیزے کی شکل اور بھرائی کا انداز بتا رہا تھا کہ چار دن بھی چلنے کا نہیں۔ ہاں مرمت کی مد میں کافی لوگوں کی معاشی حالت ضرور بہتر ہو جائے گی۔ رہ گئی سڑک کی حالت تو اس کی خیر ہے۔ لوگ اب ایسی سڑکوں کے عادی ہو چکے ہیں۔
آزاد کشمیر کافی عرصے کے بعد جانا ہوا ہے۔ درمیان میں ایک آدھ بار میرپور اور مظفرآباد جانے کا اتفاق ہوا مگر میرپور کو کشمیر سمجھنا مشکل ہے کہ کشمیر سے وابستہ جس قدرتی خوبصورتی اور موسم کا تصور ہے وہ میرپور پر کسی طور پورا نہیں اترتا‘ لہٰذا اسے پنجاب کی ایکسٹینشن تو سمجھا جا سکتا ہے‘ کشمیر ہرگز نہیں۔ کوٹلی کا موسم گرم تھا لیکن منظرنامہ بہتر تھا‘ البتہ دھیرکوٹ جا کر مزہ آیا اور لگا کہ میں کشمیر میں ہوں۔
دھیرکوٹ کا راستہ خاصا خراب تھا۔ سڑک سنگل اور حالت خراب و خستہ تھی۔ خرم سے پوچھا کہ یہ سردار قیوم مرحوم کا آبائی علاقہ تھا‘ قریب ہی ان کا گائوں غازی آباد ہے‘ لیکن انہوں نے بھی سڑک پر توجہ نہ دی! خرم کہنے لگا دوسرا راستہ بہتر ہے مگر لمبا ہے اس لئے اس راستے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ سڑک خراب ضرور ہے مگر ایک تو شارٹ ہے اور دوسرے یہ راستہ مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ میں نے کہا‘ لیکن اس خوبصورتی کا فائدہ؟ رات ہو چکی ہے اور نظر کچھ آ نہیں رہا۔ بھلا ایسے میں خوبصورتی کا کیا تعلق باقی رہ جاتا ہے؟ خرم جواباً ہنس پڑا۔ راستے میں بارش شروع ہو گئی۔
خرم کہنے لگا‘ رات ہم دھیرکوٹ کے بجائے چمپاٹی میں گزاریں گے۔ چمپاٹی میرا گائوں ہے۔ دھیرکوٹ سے تین چار میل کے فاصلے پر ہے‘ آپ کو مزہ آئے گا۔ دھیرکوٹ سے ایک ڈیڑھ میل پہلے ایک مزید تنگ اور خستہ حال سڑک پر گاڑی مڑی تو اندازہ ہواکہ حقیقی خراب سڑک کیسی ہوتی ہے۔ قارئین! یہ جو میں اوپر دو بار فاصلہ میلوں میں لکھ چکا ہوں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ خرم نے مجھے یہ فاصلہ میلوں میں بتایا تھا اور میں نے اسے کلومیٹروں میں تبدیل نہیں کیا۔ چمپاٹی والی سڑک مصطفیٰ زیدی کے شہرہ آفاق شعر کی حقیقی تصویر تھی جس میں انہوں نے راستے کی مشکلات کی منظرکشی کرتے ہوئے لکھا ہے ؎
انہی پتھروں یہ چل کر‘ اگر آ سکو تو آئو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
تنگ سی سڑک باقاعدہ پتھروں کی بنی ہوئی تھی اور ہر چھ انچ چلنے پر گاڑی چھ انچ ہی اچھلتی تھی، لیکن گاڑی میں ہم اس تکلیف دہ سفر کو بھی خوب انجوائے کر رہے تھے۔ ایک جگہ گاڑی روک کر بتایا کہ تھوڑا سا پیدل چلنا پڑے گا‘ بس ایک آدھ فرلانگ کا فاصلہ ہے۔ باہر بارش ہو رہی تھی‘ ہم رک گئے اور گاڑی میں ہی بیٹھے رہے۔ تھوڑی دیر میں دو نوجوان چھتریاں لے کر آگئے۔ ہم خرم کے مہمان خانے میں آئے تو ایک دم سردی کا احساس ہوا۔ میں نے آدھے بازوئوں والی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ خرم اندر سے اونی چادر لے آیا۔ میں نے چادر لپیٹی اور ملتان فون کیا۔ اسد نے فون اٹھایا‘ پوچھنے لگا آپ اس وقت کہاں ہیں؟ میں نے کہا چمپاٹی ہوں‘ دھیرکوٹ کے پاس۔ پوچھنے لگا موسم کیسا ہے؟ میں نے کہا یہی بتانے کے لیے تو فون کیا ہے کہ موسم کیسا ہے۔ میں اس وقت گرم چار لے کر بیٹھا ہوا ہوں۔ باہر بارش ہو رہی ہے اور ساتھ والے کمرے میں میرے بستر پر ایک عدد موٹی رضائی رکھی ہوئی ہے۔ اسد ہنسنے لگ گیا۔ کہنے لگا آپ ہم ملتان والوں کو ''سڑا‘‘ رہے ہیں۔ لیکن آج یہاں بھی آندھی آئی تھی۔ موسم اچھا اور گھر گندا ہو چکا ہے۔ میں نے اس کے جملے کو دیر تک انجوائے کیا۔
سعودی عرب سے آنے کے بعد میں نے اعلان کردیا کہ اب ماہ رمضان تک ملتان سے باہر نہیں جانا۔ میں نے جونہی جملہ ختم کیا انعم ہنسنے لگی۔ میں نے تھوڑا سا شرمندہ ہو کر پوچھا کہ اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے؟ انعم کہنے لگی میں اس بات پر ہنسی ہوں کہ آپ جب بھی کہتے ہیں کہ اب آپ نے کہیں نہیں جانا‘ اس سے اگلے ہی دن کہیں روانہ ہو جاتے ہیں۔ آپ میری بات لکھ لیں‘ آپ رمضان سے پہلے کئی بار ملتان سے باہر جائیں گے۔ ابھی میں اس کی بات کا جواب دینے ہی لگا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ایک مرحوم دوست کی بیٹی تھی۔ اس سے بات ہوئی تو میں نے انعم کو کہا کہ آپ واقعی ٹھیک کہتی تھیں‘ مجھے آج رات یا کل صبح منہ اندھیرے لاہور جانا ہے۔ انعم نے برا منائے بغیر کہا‘ مجھے پتا تھا کہ آپ دل سے بات کہہ رہے ہیں مگر مجھے یہ بھی پتا تھا کہ آپ کا یہ ارادہ پورا نہیں ہوگا۔
اسی دوران غزالی ایجوکیشن فائونڈیشن کے عامر جعفری کا فون آیا کہ یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیم کے فروغ اور تعلیمی اخراجات کے لیے فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں آپ سے تین چار پروگرامز کے لیے وقت چاہیے۔ میں نے ہاں کردی اور انعم سے چھٹی کی درخواست‘ جو اس نے منظور کرلی مگر ساتھ ہی پابندی لگائی کہ ان کے علاوہ مشاعروں کے لیے آپ کہیں نہیں جائیں گے۔ میں نے فوراً ہاں کردی۔
کچھ دن پہلے برادرم صغیر قمر کا فون آیا کہ آپ نے کوٹلی‘ باغ اور راولاکوٹ آنا ہے۔ میں نے انتہائی منت کرنے والے لہجے میں کہاکہ برادرم! کیا آپ سے بچت کی کوئی صورت ہے؟ جواباً صغیر قمر نے کہا کہ بھائی یہ کوئی مشاعرہ نہیں‘ یتیم بچوں کے حوالے سے فنڈ ریزنگ کا پروگرام ہے بلکہ ایک پروگرام نہیں فی الحال صرف تین ہیں۔ ہم رمضان سے پہلے لاوارث اور یتیم بچوں کی تعلیم اور پرورش کے حوالے سے فنڈ ریزنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ باغ اور راولاکوٹ میں ''الخدمت‘‘ کے زیرانتظام ''آغوش‘‘ کے اخراجات چلانے کے لیے مخیر حضرات کا تعاون درکار ہے۔ اس ادارے کو نہ صرف یہ کہ چلانا ہے بلکہ اب ہمارے پاس ان اداروں میں آنے کے منتظر بچوں کی ایک بڑی تعداد کو اکاموڈیٹ کرنے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ صرف باغ والے ''آغوش‘‘ میں موجود بچوں کا خرچہ چلانے کے لیے سالانہ پچاس لاکھ سے زائد رقم کی ضرورت ہے۔ یہ رقم صرف موجودہ باون بچوں کے لیے درکار ہے۔ ابھی کم ازکم سو مزید ایسے بچے آغوش میں داخلے کے منتظر ہیں۔ ان بچوں کے لیے رہائش کا انتظام کرنا ہے۔ ڈائننگ روم کو بڑا کرنا ہے۔ ان کے لیے سکول کے اخراجات‘ کھانے پینے کے اخراجات‘ کپڑے‘ بستہ‘ سٹیشنری اور دیگر ضروریات زندگی کا بندوبست کرنا ہے۔ لوگ ایثار کر رہے ہیں‘ تعاون کر رہے ہیں‘ مالی مدد کر رہے ہیں۔ کیا آپ اس موقع پر اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے؟ میرے پاس ہاں کے علاوہ اور کوئی دوسرا جواب نہیں تھا۔
اب معاملہ پھر انعم سے اجازت کا آن پڑا۔ انعم کو ہم نے ''ہائوس ماسٹر‘‘ قرار دے رکھا ہے اور آنے جانے کا معاملہ اس کی اجازت سے مشروط کر رکھا ہے۔ گھر میں کیا پکنا ہے‘ آج باہر جانا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ وہی کرتی ہے، حتیٰ کہ کہیں آنے جانے کے لیے میں نے
کیا پہننا ہے ‘یہ بھی انعم طے کرتی ہے۔ ویسے اس کا کہنا ہے کہ میں صرف دکھاوے کی ''ہائوس ماسٹر‘‘ ہوں مگر اسد اس بات سے مکمل انکاری ہے اور انعم کو حاصل اختیارات سے کافی تنگ ہے۔ انعم سے بات شروع ہی ویسے کی جیسی بات صغیر قمر نے کی تھی۔ بات سننے کے بعد انعم نے کہا اگر یہ معاملہ ہے تو آپ کو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مستحق اور یتیم بچوں کے لیے کیے جانے والے ان پروگرامز سے بھلا میں کیسے روک سکتی ہوں۔ پھر ہنس کر کہنے لگی، یہ تو ایک الگ معاملہ ہے‘ ویسے بھی میں نے آپ کو کب روکا ہے؟ آپ کوئی ایک واقعہ بتائیں جب میں نے آپ کو روکا ہو۔ میں نے کہا آپ کی بات تو ٹھیک ہے مگر میں بھی آپ سے پوچھے بغیر کب گیا ہوں؟ انعم کہنے لگی آپ کا پوچھنا اور میرا اجازت دینا ایک آٹومیٹک قسم کا معاملہ ہے۔ اگر آپ کو پتا ہو کہ میں انکار کر دوں گی‘ آپ مجھ سے پوچھنے کے بجائے مجھے صرف اطلاع دیتے کہ میں جا رہا ہوں۔
اگلے روز شعیب ہاشمی کا فون آگیا کہ آپ صغیر قمر کے کہنے پر کوٹلی‘ باغ اور راولاکوٹ جا رہے ہیں، میرے کہنے پر شیخوپورہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آپ تشریف لائیں اور الخدمت کے Orphan Care پروگرامزبھی الخدمت والوں کے ہیں اور یتیم بچوں کے حوالے سے عطیات اکٹھے کرنے کے لیے ہیں۔ انعم کہنے لگی صرف ایک شرط پر! میں نے کہا کونسی شرط پر؟ کہنے لگی اس سارے معاملے میں اللہ کی رضا اور اجر میں برابر کی حصہ داری کی شرط پر۔ میں نے کہا قبول ہے۔ اسد کہنے لگا میں بھی برابر کا حصہ دار ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اللہ کے ہاں اجر کی کونسی کمی ہے؟
جس کام کے لیے‘ یعنی یتیم کی کفالت کے عوض آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روز قیامت یتیم کے سرپر ہاتھ رکھنے والے اور کفالت کرنے والے کو خوشخبری دیتے ہوئے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی کو باہم ملا کر قرب کی مثال دیں وہاں اتنے سستے سودے سے کون انکار کر سکتا ہے؟ رمضان سے پہلے آپ بھی اس بشارت سے فائدہ اٹھائیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved