دنیا کے سات دوسرے حکمرانوں کے ساتھ جیسے ہی پاکستان کے حکمران خاندان اور220 دوسرے افراد کے بارے میں اخبارات کی شہ سرخیوں کے ذریعے پاناما لیکس کا طوفان اٹھا تو اگلے ہی دن جہاں ہمارے حکمرانوں کے بارے میں ہلکی پھلکی سی خبر شائع کی گئی وہیں پریس ٹرسٹ کے ایک اخبار نے اپنے پہلے صفحے پر How Mr clean Musharraf became a billionaire'' کے عنوان سے ان کے دبئی اور لندن کے اکائونٹس کی بڑی خبر چھاپتے ہوئے کوشش کی کہ پاناما لیکس کا رخ سیاستدانوں اور کاروباری افراد کے بجائے جنرل مشرف کے نام کی آڑ میں فوج اور اس کے جرنیلوں کی طرف موڑ دیا جائے اور اس طرح خود اپنے آپ پر اور اپنے لیڈرکے کارناموں پر دبیز پردے تان دیئے جائیں اور سب لوگ لٹھ لئے ہوئے کسی دوسرے پر پل پڑیں۔ لیکن کوشش کے باوجود ان کی بات نہ بنی اور لوگ پاناما لیکس کی جانب سے اپنا دھیان نہ ہٹا سکے۔ اس میں پاکستان کے آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے ۔ پاناما لیکس ہوں یا سوئس اکائونٹس‘ ملک کو جس نے بھی لوٹا ہے وہ کسی بھی رعایت کا مستحق نہیں ہو سکتا‘ چاہے وہ جنرل مشرف ہو یا آصف علی زرداری ‘ عمران خان ہو یا نواز شریف‘ جہانگیر ترین ہو یا شہباز شریف‘ علیم خان ہو یا خواجہ آصف اور سعد رفیق ‘ خاقان عباسی ہو یا یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف یا اسحاق ڈار‘ میرے وطن عزیز کے وسائل لوٹنے والا کسی طور بھی 'را‘ کے کمانڈر کلبھوشن یادیو سے کم سزا کا مستحق نہیں ہونا چاہئے۔
جنرل مشرف نے اثاثے اور اکائونٹس کس طرح بنائے؟ ان کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ دوسرے لوگوںکے ساتھ ساتھ ان کی بھی بھر پور تحقیقات ہونی چاہئے۔ وہ لوگ جنہوں نے ان کی دولت کے ذخائر کی تفصیلات اخبار کے صفحہ اول پر شائع کی ہیں‘ وہ اگر غیر جانبداری سے دیکھیں تو ان کی خدمت میں جنرل مشرف کی آمدنی کو چانچنے کا ایک فارمولہ پیش خدمت ہے تاکہ وہ سچ بولنا اور لکھنا شروع کر دیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی جنرل مشرف کے ساتھ میاں نواز شریف ، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہئے تاکہ جو مجرم ثابت ہو وہ کیفر کردار تک پہنچے۔ لیکن عدالت ایسی ہو جو واقعتاً انصاف کرے۔ کوئی ایسی عدالت جس کوخوف خدا بھی ہو اور روز محشر خدا کے سامنے جوابدہی کا احساس بھی۔
آئیں سب سے پہلے جنرل مشرف کا احتساب کریں۔ اس کے لیے انٹرنیشنل پبلک ریلیشنز فرم EMBARK LLC کے صدر ڈیوڈ وہیلر کی جاری کردہ تحقیقی رپورٹ کا مطالعہ کر یں جس کے مطابق دنیا کی مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے لیکچرز کے لئے مدعو کئے جانے والی شخصیات میں جنرل مشرف سب سے زیادہ معاوضہ حاصل کرنے والے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ بات کئی لوگوں کے لئے نا قابل یقین اور حیران کن ہو کہ جنرل مشرف 2 لاکھ ڈالر فی لیکچر وصول کرتے رہے ہیں۔ کیا مذکورہ اخباراپنا قیمتی وقت نکال کر سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور خاتون اوّل ہیلری کلنٹن کے وائٹ ہائوس چھوڑنے کے بعد کے اکائونٹس کے بارے میں تحقیق کرنے کی
کوشش کریں گے کہ ان کے پاس اس قدر دولت کہاں سے آ گئی؟ میں سابق فوجی صدر جنرل مشرف کی دولت کا سراغ لگانے کے لئے ان کے تمام ناقدین کو ایک فارمولہ دینے اور راستہ دکھا نے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ معلوم ہو جائے کہ جنرل مشرف کے وہ اکائونٹس جو بڑے اہتمام سے شائع کئے گئے ان میں یہ ڈالر کہاں سے آئے اور کیسے بڑھے؟ جنرل مشرف نے صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں کتنے لیکچر دیے اور انہیں فی لیکچر کتنی ادائیگی ہوئی۔ ان تمام لیکچرز کی مجموعی آمدنی اور ان کی دبئی اور لندن میں جائیداد اور بینک اکائونٹس میں کتنا فرق ہے؟
ایک مشہور بین الاقوامی تجزیہ نگار ریاض حق نے جو چارٹ تیار کیا ہے وہ انتہائی دلچسپ ہے۔ نیوز ویک کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطا بق 44 سالہ فوجی زندگی گزارنے والے جنرل مشرف کے ایک لیکچرکا معاوضہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن سے بھی زیا دہ ہے۔ Oregon اخبار کی رپورٹ جنرل مشرف کے 2010 ء میں پورٹ لینڈ آمد پر فی لیکچر معاوضوں کے بارے میں حیران کن حقائق پیش کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ '' ورلڈ افیئرز کونسل آف اوریگنز نے 2010ء میں دنیا کے اہم ترین مقررین کو دعوت دی جن میں سابق چیئر مین ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی ہاورڈ ڈین‘ نوبل انعام یافتہ اکانومسٹ جوزف سٹلز اور چیف ایڈ منسٹریٹر National Oceanographic and atmospheric جیسے لوگ شامل تھے‘ لیکن ان سب میں جنرل مشرف کے دیئے گئے لیکچرز کا معاوضہ سب سے زیادہ رہا۔ سان فرانسسکو بے ایریا کے سپیکرز میں جنرل مشرف، سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس، لورا ٹائیسن ، ٹیڈ کوپل، سٹیو کرافٹ اور پال کرگمین جیسے شامل تھے۔ ان لیکچرز میں شرکت کرنے والوں کے لئے فی کس400 ڈالر فیس رکھی گئی اور یہاں بھی جنرل مشرف کو کی جانے والی ادائیگیاں ان سب سے زیا دہ تھیں۔ ریاض حق کی اس بات کو دہراتے ہوئے جنرل مشرف کے اکائونٹس کی تفصیلات سامنے لانے والوں کے لئے چیلنج ہے کہ وہ جنرل مشرف کو لیکچرز کے معاوضے کے طور پر ہونے والی دائیگیوں اور ان کے اکائونٹس کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اکائونٹس کا پوسٹ مارٹم کریں۔ اگر ان کی جائیداد ان ادائیگیوں سے کم قیمت کی نکلے تو اپنی رپورٹ کی تردید کریں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے پیشے سے بد دیانتی کے مرتکب ہورہے ہیں اور جنرل مشرف نے کوئی ناجائز دولت نہیں بنائی۔