وزیر اعظم نواز شریف کے لندن میں مقیم بیٹے حسن نواز نے میڈیا کو اطلاع دی ہے کہ منگل کو ان کے والد کی اوپن ہارٹ سرجری ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ سال پہلے لندن ہی کے ایک ہسپتال میں ان کے دِل کی دھڑکن کو ہموار رکھنے کے لئے ایک پروسیجر کیا گیا تھا۔ اس دوران پیچیدگی پیدا ہو گئی، اور اس کی وجہ سے ہنگامی طور پر ایک بڑا آپریشن کرنا پڑ گیا۔ دِل کے ایک انتہائی ممتاز معالج ڈاکٹر سرور چودھری کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا بیماری میں ادویات ہی سے کام لینے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پاکستان اور امریکہ میں بہت کم معالج اس کے لیے آپریشن تجویز کرتے ہیں۔ وزیر اعظم 2011ء میں لاہور میں ہوتے تو یہاں کے معالجین کبھی ان کے دِل سے وہ چھیڑ چھاڑ نہ کرتے، جو برطانیہ میں کر ڈالی گئی۔ ان کی شریان متاثر ہوئی تو معالجین کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ ہنگامی طور پر سرجن کو بلانا پڑا۔ ڈاکٹر سرور کے بقول اس طرح کی صورت حال میں دس میں سے نو مریض جانبر نہیں ہو پاتے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم تھا کہ نواز شریف صاحب کا معاملہ سنبھال لیا گیا، اور وہ از سر نو سرگرم کردار ادا کرنے کے قابل ہو گئے۔ اب دِل کی مملکت میں پھر کچھ کھد بد ہوئی، تو بائی پاس تجویز کر دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ دِل کی شریانیں کچھ اس طرح سے بند ہیں کہ انہیں انجیوپلاسٹی کے ذریعے کھولا نہیں جا سکتا۔ بڑا آپریشن کرنا پڑے گا، اور مریم بی بی کے اس یقین میں شریک ہونا ہو گا کہ لوگوں کی دُعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ دعا، دوا کے ساتھ مل کر بھی اثر کرتی ہے، اور دوا کے بغیر بھی اثر دکھا سکتی ہے۔ ہمارے بابا جی اشفاق احمد خان مرحوم اپنے بابا جی مرحوم کے بقول کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ پر کون سا کوئی آڈٹ آبجیکشن ہونا ہوتا ہے۔ وہ قادر مطلق ہے۔ اُس سے جو چاہے مانگ لیا جائے، اور وہ جو چاہے عطا کر دے۔ سب کی دعا ہے کہ نواز شریف مکمل صحت یاب ہو کر واپس تشریف لائیں‘ اور وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کریں، جہاں سے چھوڑ کر لندن روانہ ہوئے تھے۔
نواز شریف کے حامی اور مداح ہی ان کے لیے دست بدعا نہیں ہیں، ان کے مخالفین نے بھی ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری‘ جو ٹی او آرز کمیٹی میں شامل اپنی پارٹی کے ارکان پر یہ دبائو جاری رکھے ہوئے ہیں کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان پر دبائو میں کمی نہ آنے دیں، انہوں نے فوراً ان کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا، اور اُن کی جلد صحت یابی کے لیے دُعا کی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان‘ جو اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرتے، اور ان کے خلاف سڑکوں پر نکل آنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، انہوں نے بھی دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے، اور اپنے حریف اول کی بحالی ٔ صحت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور درخواست گزار ہوئے۔ یہی ہمارے معاشرے کا حسن ہے۔ جب عمران خان انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں سٹیج سے گر کر زخمی ہوئے، اور ہسپتال پہنچے تھے، تو نواز شریف صاحب نے سب کچھ بھلا کر اُن کی مزاج پُرسی کی تھی۔ بنفس نفیس پھول پیش کیے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری اُس وقت ایوانِ صدر میں مقیم تھے۔ صدرِ پاکستان کے طور پر وہ عمران خان کی بذریعہ ٹیلی فون مزاج پُرسی کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ یقین نہیں ہو پا رہا تھا کہ زخمی سیاست دان صدرِ مملکت کی کال وصول کر لیں گے۔ ان کے ایک خصوصی معتمد نے عمران خان کے قریبی احباب سے لابی کرکے اِس بات کو یقینی بنایا تھا کہ صدرِ مملکت کی کال اٹینڈ کرنے سے انکار نہ ہونے پائے۔ صدر زرداری نے ٹھوس یقین دہانی کے بعد اپنے ٹیلی فون کو جنبش دی اور عمران خان سے براہِ راست مخاطب ہوئے۔ اِسی گفتگو میں انہوں نے اپنے حریف کے کان میں ریٹرننگ افسروں کی غماضی کی، اور انہیں یقین دِلا دیا کہ جسٹس افتخار چودھری کا جھرلو ان کو لے بیٹھا ہے۔
بہرحال بات نواز شریف صاحب کے دِل کی ہو رہی تھی۔ قریباً پینتالیس سال سے مَیں اس کے معاملات سے کچھ نہ کچھ آگاہ ہوں۔ مَیں نے اس کی وسعتوں اور تنگیوں کا براہِ راست مشاہدہ کیا ہے۔ غریبوں، بے نوائوں، بے سہاروں، بیماروں کے لیے اس کے اندر ایسی تڑپ دیکھی ہے جو بہت کم دِلوں کے حصے میں آتی ہے۔ نواز شریف 1985ء کے انتخابات کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے، تو ضرورت مند دانشوروں، شاعروں اور اخبار نویسوں کی امدادی رقم (جو چند ہزار میں ہوتی تھی) کو لاکھوں تک بڑھا دیا۔ وہ کسی کو مشکل میں مبتلا دیکھ کر تڑپ اُٹھتے اور دونوں ہاتھوں سے اس کی مدد کر گزرتے ہیں۔ اکثر یہ ہدایت بھی ہوتی ہے کہ ایک ہاتھ سے کچھ دیا جائے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہونے پائے۔ یہ خوبی انہیں اپنے مرحوم والد میاں محمد شریف سے ورثے میں ملی ہے، اور انہوں نے اسے آگے بڑھایا ہے، اس میں کمی نہیں آنے دی۔ دوستوں، مداحوں اور وفاداروں کے لیے بھی نواز شریف کے دل کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، ان کے لیے وہ آسمان سے تارے بھی توڑ لاتے ہیں، لیکن حریفوں اور بے وفائوں کے لیے ان کے دِل کے دروازے (بعض کیا اکثر اوقات) اس طرح بند ہو جاتے ہیں کہ انہیں توڑ دیا جائے تو بھی کھلتے نہیں ہیں۔ دِل ان کی طاقت کا سامان بھی رہا ہے، اور بعض اوقات کمزوری بھی بن گیا ہے۔
نواز شریف کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو نشیب و فراز اور عروج و زوال کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جو کسی اور پاکستانی سیاست دان کے حصے میں نہیں آئے۔ وہ اُس وقت وزیر اعظم بن گئے، جب بہت کم لوگ اس کا تصور کر پاتے تھے، اور اُس وقت منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے جب یہ کسی کے سان گمان میں بھی نہیں تھا۔ ایک بار انہیں صدر غلام اسحاق خان کی صدارتی صوابدید نے ڈس لیا‘ تو دوسری بار جنرل پرویز مشرف آستین کا سانپ بن گئے۔ نواز شریف وزیر اعظم ہائوس سے نکل کر جیل پہنچے، وہاں سے بیرون مُلک پہنچا دیے گئے۔ بہت سوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اب ان کے ہاں کبھی بہار نہیں آئے گی۔ ان کی سیاست کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو چکا، لیکن 2008ء کے انتخابات سے پہلے جنرل پرویز مشرف ان کا راستہ روکنے پر قادر نہ ہو سکے۔ وہ واپس آئے، تو رائے دہندگان نے ان پر ووٹ نچھاور کر دیے۔ پانچ سال انہوں نے حزب اختلاف کی قیادت سنبھالے ر کھی اور 2013ء کے انتخابات نے وزارتِ عظمیٰ ان کی جھولی میں ڈال دی۔ تیسری بار یہ منصب سنبھالنے والے وہ پاکستان کے واحد سیاست دان بن گئے۔
نواز شریف کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن بے رحمانہ تنقید کرنے والے بھی یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ فولادی اعصاب کے مالک ہیں۔ وہ ٹوٹ تو سکتے ہیں انہیں جھکایا نہیں جا سکتا۔ وہ بہت کثیرالمطالعہ نہ ہوں، بین الاقوامی امور پر انہوں نے ڈاکٹریٹ نہ کر رکھی ہو، لیکن پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا واضح ایجنڈا رکھتے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمسایوں سے اچھے تعلقات اور اندرون مُلک پُرامن ماحول کے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ ان کے ہاں ایک قائدانہ قطعیت پائی جاتی ہے۔ اگر وہ اپنے مزاج پر قابو پا لیں، اور ہر وقت دِل کی کرنے کے بجائے، پاسبان احتیاط کو بھی دخل اندازی کی اجازت دے دیا کریں، تو اب بھی انتخابی اکھاڑے میں اپنے حریفوں کو پٹخنی دے سکتے ہیں، تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں، مگر یہ باتیں بعد کی ہیں اس وقت تو ہم ان کی صحت یابی کے لیے دست بدعا ہیں ع
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو، ہٹ جائو، دے دو راہ جانے کے لیے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)