تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-05-2016

ہم ایک عجیب دنیا میں رہتے ہیں

رہے شور مچانے والے تو وہ حمزہ شہباز کو بھی ایٹمی پروگرام کا ہیرو قرار دے سکتے ہیں۔ 1974ء میں جو پیدا بھی نہ ہوئے تھے اور 1998ء میں سکول کے طالب علم تھے۔ ہم ایک عجیب دنیا میں رہتے ہیں۔
کیا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تکمیل میں جو معجزانہ طورپر انجام پایا‘ میاں محمد شہبازشریف کے فرزندِ ارجمند حمزہ شہباز کا واقعی کوئی کردار ہے؟ کم ازکم لاہور میں لگے سینکڑوں بینر یہی کہتے ہیں۔ گلبرگ سے نہر کا رخ کرنے والی سڑک پر‘ پل سے پہلے تین پولیس والے اپنی شاندار موٹرسائیکلوں اور اس سے زیادہ شاندار مسکراہٹوں کے ساتھ براجمان تھے۔ بلا استثنیٰ دو پہیوں والی ہر گاڑی کو وہ روک لیتے ۔ پھر چالان کاٹنے والا اپنی کاپی لہراتا‘ جیسے کنواہ کی جنگ کے بعد ظہیرالدین بابر کے ترک شہسواروں نے اپنی تلواریں لہرائی ہوں گی۔ 
اخبار نویس ایٹمی پروگرام کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ نوازشریف کا کردار اس میں کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ہاں مگر 28 مئی 1998ء کے دھماکوں میں۔ امریکی صدر نے بار بار انہیں فون کیے‘ شاید پانچ عدد اور اتنی بڑی امداد کی پیشکش کی کہ ان کے منہ میں پانی بھر آیا ہوگا‘ ڈالر کے انبار۔ اس کے باوجود انہوں نے وہ فیصلہ کیا‘ ان کے بہت سے حامی بھی‘ جس کے حق میں نہیں تھے۔ خاص طور پر وہ اخبار نویس جن پر وہ انحصار کرتے ہیں۔ جو ان کے قصیدے لکھتے اور ان کے ایما پر سفارت کاری کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ بہرحال وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ مگر کتنا خراج؟ حمزہ شہباز تک کی تصاویر سج گئیں اور وہ بوڑھا آدمی غلام اسحق خان؟ ... جنرل محمد ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو بدترین حالات میں‘ جنہوں نے اس پروگرام کی نیو اٹھائی تھی۔ ایسے حالات میں‘ جنہوں نے اس پروگرام کے لیے لگ بھگ دس ارب ڈالر کا بندوبست کیا‘ جب پاکستان ایک ارب ڈالر کا اہتمام کرنے کے قابل بھی نہیں تھا۔ ہم ایک عجیب دنیا میں رہتے ہیں جس میں الفاظ اعمال سے زیادہ اہم ہیں۔ ریاکاروں اور شعبدہ بازوں کی دنیا۔
خیال تھا کہ ایٹمی پروگرام کا ذکر چھڑے گا تو غلام اسحٰق خان فصاحت کے دریا بہا دیں گے۔ اوّل دن سے اس کے ساتھ وہ وابستہ رہے۔ اولاد کی طرح انہوں نے اس کی پرورش اور حفاظت کی۔ جی نہیں اولاد سے بڑھ کر۔ ان کا اکلوتا فرزند مشرق وسطیٰ کے ریگ زاروں میں ایک اذیت ناک نوکری کرتا‘ زندگی کے دن گزارتا رہا اور باپ نے گوارا کیا۔ ایٹمی پروگرام میں اس کا روّیہ مختلف تھا۔ جب کبھی روپے کی ضرورت ہوتی اور کبھی کبھار تو اچانک ہی تو چیک وہ پہلے بھجواتے اور تفصیل بعد میں پوچھا کرتے۔ کسی بھی دوسرے مالی معاملے میں وہ بہت مین میخ نکالا کرتے۔ ریزگاری تک گنا کرتے۔
یہ ان کا پشاور والا گھر تھا‘ وہ قطعہ زمین جو 2000 روپے کے عوض 1946ء میں خریدا گیا۔ ''یہ ایک پریڈ گرائونڈ تھی‘ جہاں فوجی جوان مشق کیا کرتے‘‘۔ انہوں نے کہا اور تفصیل بتاتے رہے کہ کس طرح اقساط میں انہوں نے ادائیگی کی۔ پھر 1980ء کے عشرے میں جب یہ گھر اقوام متحدہ کو کرائے پر دیا گیا تو اس آمدن سے حاشیے پر انہوں نے دکانیں تعمیر کیں۔ وہ ملک کی تاریخ کے اہم ترین بیوروکریٹ تھے۔ واپڈا کی بنیاد انہوں نے رکھی‘ خزانہ کے سیکرٹری رہے اور متعدد دوسری وزارتوں کے بھی‘ سینیٹ کے چیئرمین اور صدر پاکستان۔1960ء سے 1990ء کے عشرے تک شاید ہی کوئی سرکاری افسر ہو‘ جس نے اسلام آباد میں پلاٹ نہ پایا ہو مگر وہ بے نیاز رہے۔ یہ وہ تھے‘ 1988ء میں صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد جنہوں نے پریس اینڈ پبلی کیشنر آرڈی ننس منسوخ کیا۔ ایوب خان کے عہد میں جو اخبار نویسوں کا منہ بند رکھنے کے لیے جاری کیا گیا۔ اس کے باوجود صحافت ان کے باب میں اس قدر بے رحم کیوں رہی؟ کیا دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی اکثریت بھی ہوا کے رخ پہ نہیں بہتی؟
عرض کیا: کن مشکلات سے گزر کر ملک کا ایٹمی پروگرام تکمیل کو پہنچا؟ مراد یہ تھی کہ بھٹو کا کردار کیا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور خود ان کا حصّہ کتنا؟ سوال کرنے والے کی طرف جہاندیدہ آدمی نے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ کچھ دیر یادوں میں کھوئے رہے۔ حیرت سے میں نے سوچا خود نوشت لکھنے پر تو وہ آمادہ نہیں‘ جس کے لیے مدد کی پیشکش ناچیز نے کی تھی۔ اگر وہ ایٹمی پروگرام کی رودادہی رقم کردیں؟ آن کی آن میں تاثرات کا ایک کارواں چہرے پر سے گزر گیا‘ جس طرح نیلے آسمان پر بادلوں کے قافلے نمودار ہوں اور کھلنڈرے بچوں کی طرح بھاگتے ہوئے نکل جائیں۔ فخر کا کوئی احساس ان کی آنکھوں میں نہ جاگا‘ ہاں مگر امتنان کا ایک بہت ہی مختصر سا لمحہ۔ پھر زبان کھولی اور یہ کہا: ''کبھی ہم اس کے امین تھے۔ اب دوسرے لوگ اس کے امین ہیں‘‘۔ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کا ایک جملہ امیر خسروؒ نے افضل الفوائد میں نقل کیا ہے: ''کمینہ پارسا ہو جائے تو متکبر ہو جاتا ہے۔ صاحب ظرف اگر زہد کا راستہ اختیار کر لے تو اور بھی زیادہ منکسر‘‘۔
غلام اسحٰق خان سے امریکی ناراض تھے اور اس قدر ناراض کہ امریکی صدر کے مشیر بارتھو لومیو انہیں مسٹر ایٹم بم (Mr Nuke) کہا کرتے۔ ایوان صدر کی ایک ملاقات میں جنرل مرزا اسلم بیگ‘ جنرل حمید گل‘ شہریار خان اور بینظیر بھٹو موجود تھے۔ غالباً سیدہ عابدہ حسین بھی۔ بارتھو لومیو نے ان سے کہا جناب صدر‘ آپ کے عقبی تالاب میں ایک بطخ ہے‘ بطخ کی طرح تیرتی ہے‘ بطخ کی سی آواز نکالتی ہے مگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہرگز وہ بطخ نہیں۔ بوڑھے پٹھان کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اس نے کہا: جی ہاں وہ بطخ کی طرح تیرتی اور بطخ کی آواز نکالتی ہے مگر جب میں کہتا ہوں کہ وہ بطخ نہیں تو ہرگز وہ بطخ نہیں‘‘۔ مطلب واضح تھا: جی ہاں‘ایٹم بم بنانے پر ہم تلے ہیں اور پیہم تلے ہیں مگر اس کا اعتراف کرکے خود کو طوفان کے حوالے کیوں کریں۔ چوتھی منزل کے کشادہ کمرے سے لفٹ کی طرف جاتے ہوئے بارتھو لومیو بہت برہم تھا ''Mr Nuke has gone mad‘‘ مسٹر ایٹم بم پاگل ہو چکا ‘ وہ بڑبڑایا۔ اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں‘ سینیٹر طارق چوہدری سے بعدازاں صدر پاکستان نے یہ کہا: ملک کے پاس دو راستے ہیں۔ اوّل یہ کہ ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہو کر سکّم یا بھوٹان بن جائے۔ دوسرا یہ کہ ڈٹا رہے اور اس کا مستقبل محفوظ و مامون ہو۔
آج پاکستان محفوظ ہے۔ اس عظیم کامیابی میں سبھی کا حصّہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جس نے بنیاد اٹھائی‘ حالانکہ تب یہ ناممکن نظر آتا تھا۔ پوری قوم کا جس نے قربانیاں دیں۔ افواج پاکستان کا‘ خاص طور پر آئی ایس آئی‘ جس کے افسروں نے کمال رازداری کے ساتھ ایک بے پناہ مشکل مشن کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا‘ جن کے دور میں یہ تکمیل کو پہنچا۔ بھٹو عہد میں ابتدائی کام ہی ممکن ہوا تھا۔ سائنس دانوں کی اس ٹیم کا‘ جو اپنی مثال آپ ہے۔ بے نظیر بھٹو کا اگلے مرحلے میں جنہوں نے میزائل پروگرام کے آغاز کا خطرہ مول لیا۔
سولہ برس ہوتے ہیں‘ سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اس ناچیز سے اصرار کے ساتھ فرمائش کی کہ وہ یہ کہانی لکھ دے۔ معلومات وہ فراہم کردیں گے۔ غوروفکر کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ خاموشی ہی افضل ہے۔ تفصیلات اگر بیان کر دی گئیں تو دنیا بھر میں پروپیگنڈے کی ایک آندھی اٹھے گی۔ فائدہ اس کا انڈیا‘ اسرائیل اور امریکہ کو ہوگا‘ پاکستان کو نہیں۔ تاریخ اپنے سینے میں کوئی راز چھپا کر نہیں رکھتی۔ ہرچیز آخرکار اجاگر ہو جاتی ہے اور پوری صحت کے ساتھ۔کچھ بھی ہو‘ جہاں تک سائنس دانوں کا تعلق ہے‘ وہ غلام اسحٰق خان مرحوم کے کردار کو سب سے زیادہ قابل رشک قرار دیتے ہیں۔
رہے شور مچانے والے تو وہ حمزہ شہباز کو بھی ایٹمی پروگرام کا ہیرو قرار دے سکتے ہیں۔ 1974ء میں جو پیدا بھی نہ ہوئے تھے اور 1998ء میں سکول کے طالب علم تھے۔ ہم ایک عجیب دنیا میں رہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved