تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     29-05-2016

بڑھاپا نارمل ہے!

امریکی صدارتی انتخابات میں پانچ مہینے باقی ہیں، یعنی پانچ مہینے بعد امریکی کسی مرد یا پھر عورت کو اپنا صدر منتخب کر کے وائٹ ہائوس بھجوا دیں گے۔ صدارتی امیدواروں کے حوالے سے ایک پہلو پہ اس وقت کوئی بات نہیں کر رہا‘ اور وہ ہے ان امیدواروں کی عمر!تینوں امیدوار یعنی ہلیری کلنٹن، برنی سینڈرز اور ڈونالڈ ٹرمپ بوڑھوں میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن ٹھہرئیے، امریکہ میں کسی کو بوڑھا کہنا غیر دانشمندانہ بات ہوتی ہے۔ سو، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدارت کے تینوں امیدوار، جن میں ایک عورت اور دو مرد شامل ہیں، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں والے ہیں۔ تضاد اس وقت یہی ہے کہ ہمیں بتایا تو یہ جاتا ہے کہ امریکی شباب کی پوجا کرتے ہیں‘ لیکن اس وقت تینوں صدارتی امیدوار یعنی ہلیری کلنٹن، ڈونالڈ ٹرمپ اور برنی سینڈرز نہ صرف یہ کہ خاصے بوڑھے ہیں بلکہ اگر انہوں نے اپنے چہرے عمر چھپانے والی کریموں سے ڈھکے نہ ہوں تو وہ بوڑھے نظر بھی آتے ہیں۔ بڑھاپے کی سرحدوں کو چھوتے امریکی لوگ نہ صرف یہ کہ ایک لمبی عمر جینا چاہتے ہیں‘ بلکہ جوان اور صحت مند دکھائی دینا بھی ان کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی کے کرشمے اور معجزاتی کریمیں ان لوگوں کے کام آتی ہیں۔ چہرے کی جھریوں سے نجات پانے اور بدن کو چربی سے پاک اور سڈول بنانے کی خواہش ہر جگہ کے بوڑھوں میں مشترک ہوتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ ہی کو دیکھئے، اس کا پھولا ہوا چہرہ نارنجی نظر آتا ہے جبکہ اس کی آنکھوں کے ارد گرد جگہ سفید دکھائی دیتی ہے۔ 
دوسری طرف ہلیری کلنٹن ہیں جو جوان اور خوبصورت دکھائی دینے کے لئے آئے دن اپنا ہیئر سٹائل بدلتی رہتی ہیں اور بالوں میں ہائی لائٹس بھی لگاتی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ جیسے بوڑھے مگر مالدار تعلقات بھی جوان عورتوں سے اسی لالچ میں استوار کرتے ہیں کہ اس طرح ان کا اپنا شباب لوٹ آئے گا۔ ہلیری کلنٹن کی جانب سے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان ہونے سے قبل ہی ان کے مرد ناقدین نے امریکی عوام کو ان کی بڑھتی عمر کے بارے میں یاد دہانیاں شروع کر دی تھیں۔ فاکس نیوز پر ایک اینکر کا کہنا یہ تھا کہ ہلیری اپنے ہیئر سٹائلز تو بدلتی ہی رہتی ہیں‘ لیکن کسی بھی مرد صدارتی امیدوار کی نسبت انہیں اپنی جھریوں کے بارے میں زیادہ فکرمند ہونا چاہئے۔ متعصب مردوں کو ان صاحب نے البتہ یہ مشورہ دیا کہ عمر کے پہلو کو ہلیری کے خلاف استعمال کرنا انہیں مہنگا پڑ سکتا ہے؛ اس کے باوجود فاکس نیوز کے دیگر تمام مبصرین کی طرح کرٹز کے تبصرے بھی ہلیری کے حلیے کے گرد ہی گھومتے رہے۔ ایک اور کالم نگار کے کالم کی سرخی یہ تھی کہ "Is Hillary Clinton Too Old to Run?" یعنی کیا ہلیری کلنٹن کی صدارتی انتخاب لڑنے کی عمر گزر چکی ہے؟ اس کالم میں بھی کالم نگار نے ساری بحث ہلیری کلنٹن کی عمر پر ہی مرکوز کر رکھی تھی، ان کی ذہانت و لیاقت کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ ان کی اس دلیل کی حمایت کرنے والوں میں بھی زیادہ تر تعداد مردوں کی ہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہلیری کلنٹن کے ووٹروں میں مردوں کی تعداد بہت کم ہے اور یہ امر ان کے لئے پریشان کن ہے۔ عین ممکن ہے کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں وہ ڈونالڈ ٹرمپ سے ہار جائیں۔
مذکورہ کالم نگار کا کہنا تھا کہ اگر ہلیری کلنٹن صدر منتخب ہو گئیں تو اپنی دو صدارتی میعادوں (یعنی دوبارہ انتخاب کی صورت میں) کی تکمیل کے بعد وہ جب وائٹ ہائوس سے رخصت ہوں گی‘ تو ان کی عمر ستتر برس ہو چکی ہو گی۔ صدر ریگن بھی اسی عمر میں وائٹ ہائوس سے رخصت ہوئے تھے‘ لیکن ان کے لئے یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں تھی لیکن ہلیری کلنٹن کے حوالے سے یہ بڑی بات ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ صدارتی عہدہ مشقت طلب ہوتا ہے اور بڑھاپا مردوں کے لئے نہیں مگر عورتوں کے لئے ضرور مشقت طلب کاموں کی انجام دہی میں حائل ہو جاتا ہے۔ یہ کالم ان صاحب نے 2014ء میں لکھا تھا۔ تب صدارتی انتخابی منظرنامے پہ ڈونالڈ ٹرمپ کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ ہلیری کلنٹن نوجوان ووٹروں کو اپنی طرف کھینچنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ نوجوان نسل تیزی سے بے بی بومرز (یعنی چالیس کے عشرے کے اواخر اور ساٹھ کے عشرے کے اوائل میں پیدا ہونے والے امریکیوں) کی جگہ لے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ وہ لوگ جو 2000ء کے قریب قریب جوانی کی سرحدوں کو پہنچے ہیں، انہیں تو ہلیری کلنٹن کی عمر کی خواتین سیاستدان پسند ہی نہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ یا برنی سینڈرز سے البتہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں، ویسے بھی یہ دونوں جہاں جاتے ہیں‘ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ان کے گرد جمع ہو جاتی ہے۔ تاہم جہاں تک ہلیری کلنٹن کا تعلق ہے تو تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ ماضی کے برعکس مستقبل کے ساتھ خود کو مربوط ثابت کرنے میں وہ ناکام رہیں گی۔ ویسے بوڑھوں کے لئے ایک اچھی خبر بھی ہے اور وہ یہ کہ حال ہی میںکئے گئے ایک تجربے میں جوان چوہوں کا خون لے کر اسے بوڑھے چوہوں میں منتقل کیا گیا‘ اور بوڑھے چوہوں کا خون جوان چوہوں میں منتقل کیا گیا۔ اس تجربے کے نتائج کافی حوصلہ افزا رہے ہیں۔ جوان خون ملنے پہ بوڑھے چوہوں کا دماغ اور بدن متحرک ہو گیا اور وہ جوان دِکھنے لگے جبکہ بوڑھے خون نے جوان چوہوں کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا۔ یہ تجربہ اب انسانوں پر بھی کیا جائے گا اور ملٹی بلین بیوٹی اور فارما کارپوریشنز کی تو اس پروجیکٹ کے لئے رال ٹپکنا شرو ع ہو گئی ہے۔ ان کے انتظار کا وقت پہلے ہی سے ختم ہو چکا ہے کیونکہ حسن کی افزائش کے لئے تو نہیں مگر طبی مقاصد کے لئے اس تجربے کی شروعات ہو گئی ہیں۔ سٹینفورڈ سکول آف میڈیسن کی ایک ٹیم نے تیس سال سے کم عمر کے لوگوں کے خون کا پلازما ابتدائی درجے کے الزائمرز میں مبتلا افراد میں منتقل کیا۔ جس ٹیم نے چوہوں میں یہی تجربہ کیا تھا اس کے سربراہ کا خیال ہے کہ ''اس نوعیت کی تھراپی متعدد طبی حالتوں میں فائدہ مند ثابت ہو سکے گی۔ ہو سکتا ہے کہ شباب کا سرچشمہ ہمارا خون ہی ہو، اور یہ ہمارے اپنے بدن ہی میں ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی حیران کن بات ہے۔ ہمارا خون عمر کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت کھو دیتا ہے۔‘‘
کیلی فورنیا میں قائم SENS ریسرچ فائونڈیشن بھی بڑے متحرک انداز میں بڑھاپے سے مقابلے کے طریقے وضع کر رہا ہے۔ اس فائونڈیشن کا دعویٰ یہ ہے کہ دنیا کو بڑھاپے سے متعلقہ بیماریوں سے پاک کرنا ممکن ہے۔ ان کی تحقیق ایسی ری جنریٹو ادویات پہ مرکوز ہے جو بافتوں اور خلیوں کی مرمت کر کے بڑھاپے کو مات دے سکتی ہیں۔ ان کا مقصد ایک ایسی صنعت کو فروغ دینا ہے جو بڑھتی عمر سے متعلقہ بیماریوں کو ختم کر دے گی۔ بڑھتی عمر سے مقابلے کے لئے جب تک سائنسدان خون کی منتقلی کا کوئی کامیاب طریقہ ایجاد نہیں کر لیتے، اپنے ارد گرد حسن و شباب پانے کے لئے بے چین لوگوں کے آوازے یوں ہی سنائی دیتے رہیں گے۔ ایک عورت جس کا خیال ہے کہ مرد صنفی امتیاز برتتے ہیں، کہتی ہے کہ مرد سیاستدان اپنے بال بلو ڈرائی کرتے ہیں، اور اپنے لٹکتے گالوں میں کسائو لانے کے لئے بوٹاکس کا استعمال کرتے ہیں تاکہ پھر سے لڑکے دکھائی دیں۔ اس ساری صورتحال کی ذمہ دار مشاہیری ثقافت، سیاست اور پھر منجدھار کا میڈیا ہے جس کا نعرہ یہی ہے کہ شباب ہی مربوط رہنے کا واحد ذریعہ ہے۔ باقی عام لوگوں کے لئے بڑھاپا مستقل ایک زوال کا راستہ ہے جس کی منزل قبر ہوتی ہے۔ 
جو لوگ قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہوں ان کے ساتھ جب انسان ملے اور ان کے اہلِ خانہ کا سلوک ان کے ساتھ دیکھے تو ایک بڑی ہی دردناک تصویر ابھرتی ہے۔ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں آج کل ایک اپارٹمنٹ برائے فروخت موجود ہے۔ اس اپارٹمنٹ کے مالکان کہیں نظر نہیں آتے۔ ان کے کپڑے یوں قطار میں ٹنگے ہوئے ہیں جیسے پہنے جانے کے منتظر ہوں۔ ہم نے پوچھا کہ یہ لوگ گئے کہاں؟ تو جائیداد کی فروخت پہ مامور شخص نے آسمان کی طرف اشار کرتے ہوئے کہا ''اوپر‘‘ اس وفات یافتہ جوڑے کی ایک بیٹی بھی ہے لیکن اس کے پاس اتنا وقت نہیں کہ آکر اپنے والدین کی باقیات سمیٹ لے۔ اسے بس یہ گھر فی الفور بیچنے کی پڑی ہے۔ موت کی بو وہاں ہر سمت رچ بس گئی ہے، دیواروں پہ جامنی رنگ لہراتا نظر آتا ہے۔ پتھر کے بے ہیئت مجسمے‘ جو اس بوڑھی عورت نے بنائے تھے، بکھرے پڑے ہیں۔ ایک اور اپارٹمنٹ میں بھی یہی کہانی دکھائی دیتی ہے۔ داخلی دروازے میں ہی پڑے پرانے سوٹ کیس آنے والوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی وہاں سے کہیں جا رہا ہے۔ اندر دوائیاں، ربڑ کے دستانے، روئی، وھیل چیئرز، آکسیجن ٹینکس، ہسپتال کے بیڈ جس پہ پڑے بستر کی چادر اور کمبل شکنوں سے پُر ہیں۔ سماں یہاں بھی مرگ کا سا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ مریض کہاں ہے تو وہاں موجود نرس نے بڑی بے نیازی سے بتایا کہ ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ اس کے گھر والے بھی اس گھر کو فی الفور بیچنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سب پڑھ کر زیادہ دل گیر مت ہوئیے، اوپر تو ہم پہلے ہی بتا آئے ہیں کہ آج کل امریکہ میں بوڑھا ہونا نیا نارمل بن چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved