تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     29-05-2016

ایٹمی پاکستان… جس کا جتنا کریڈٹ

سقوطِ ڈھاکہ پر اہلِ پاکستان خون کے آنسو روئے۔ وطن سے ہزاروں میل دور بیلجیئم میں ڈاکٹر قدیر بھی اس سانحہ پر آہیں بھرتے رہے۔ ہندوستان کے 18 مئی 1974ء کے ایٹمی دھماکوں نے ان کا اضطراب دوچند کر دیا تھا‘ اپنے کروڑوں ہم وطنوں کی طرح وہ بھی ہندوستان کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اپنے علم اور تجربے سے وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا سکتے ہیں۔ یہ ہندوستان میں اسی اندرا گاندھی کا دور تھا‘ جس نے سقوطِ ڈھاکہ پر کہا تھا، ہم نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ چکا دیا، دو قومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں غرق کر دیا۔ 17 ستمبر 1974ء کو ڈاکٹر قدیر نے وزیر اعظم بھٹو کے نام خط میں لکھا کہ وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔ مزید خط و خطابت اور براہِ راست ملاقاتوں میں معاملات طے پا گئے۔ ڈاکٹر قدیر پاکستان آ گئے اور 13 جولائی 1976ء کو کہوٹہ کے غیر معروف علاقے میں لیبارٹری کمپلیکس کی بنیاد رکھ دی گئی۔ ڈاکٹر قدیر اور ان کی لیبارٹری ابھی امریکیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ انہیں تشویش فرانس کی طرف سے پاکستان کو اٹامک ری پروسیسنگ پلانٹ کی فراہمی کے معاہدے پر تھی۔ بھٹو صاحب کی طرف سے پلانٹ کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے کنٹرول میں دینے کی پیشکش بھی ہمارے امریکی دوستوں کو مطمئن نہ کر سکی۔
اسی دوران 5 جولائی (1977) ہو گیا ۔ بھٹو رخصت ہوئے اور جنرل ضیاء الحق سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ ایک دعویٰ یہ ہے کہ بھٹو کے خلاف پی این اے کی موومنٹ، 5 جولائی کا مارشل لاء اور بالآخر بھٹو کی پھانسی، یہ سب کچھ امریکی حکمت عملی کا شاخسانہ تھا‘ لیکن دوسری طرف حقائق یہ ہیں کہ ضیاء الحق کے دور میں ایک دن کے لئے بھی ایٹمی پروگرام پر عملدرآمد نہ رکا۔ یہاں ایک حوالہ آغا شاہی (مرحوم) کے انٹر ویو کا، وہ نظامی صاحب سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تو ہمیں ان سے انٹر ویو کا موقع مل گیا۔ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ایک سوال پر وہ بتا رہے تھے کہ فرانس سے اٹامک ری پروسیسنگ پلانٹ کی بھی امریکیوں نے سخت مخالفت کی جس پر بھٹو نے (1976ء میں) نہایت اعلیٰ سطحی میٹنگ بلائی جس میں آرمی چیف جنرل ضیاء الحق، ایئر مارشل ذوالفقار اور غلام اسحاق خان شریک تھے۔ بھٹو نے انہیں ہنری کسنجر کی اس پیش کش کے متعلق بتایا کہ پاکستان ری پروسیسنگ پلانٹ کی خریداری ترک کر دے‘ تو امریکہ اسے 100 جنگی طیارے مہیا کرنے پر آمادہ ہے۔ جنرل ضیاء الحق سمیت سب نے امریکی پیش کش مسترد کرنے اور فرانس سے پلانٹ خریدنے کی پرُزور حمایت کی۔ پاکستان اس سودے پر قائم رہا اور امریکہ نے اقتصادی پابندیاں لگا دیں۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ساتھ ہی امریکہ پھر سرگرم ہو گیا۔ امریکی سفیر نے اٹامک پلانٹ کا سودا منسوخ کرنے پر اصرار کیا‘ تو جنرل ضیاء الحق کا جواب تھا: ہم تو 90 دن کے لئے آئے ہیں، انتخابات کے بعد نئی حکومت آئے گی تو آپ ان سے بات کیجئے۔ اس پر امریکیوں نے پابندیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے کچھ تفصیل جنرل کے ایم عارف کی کتاب Working With Zia میں بھی موجود ہے، فوجی اور اقتصادی امداد پر مکمل پابندی کے باوجود ضیاء الحق سرنگوں نہ ہوئے‘ تو امریکہ نے فرانس پر دبائو ڈال کر یہ معاہدہ منسوخ کروا دیا۔ ضیاء الحق نے فرانسیسی سفیر جیکومٹ سے کہا، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فرانس جیسی باوقار قوم یہ معاہدہ توڑ دے گی۔
1979ء میں امریکیوں کو کہوٹہ کی کچھ سُن گُن ہوئی، کچھ اور مغربی ممالک بھی تشویش کا شکار ہونے لگے۔ اس حوالے سے فرانسیسیوں کی سرگرمیاں کچھ زیادہ ہی تھیں۔ ڈاکٹر قدیر راوی ہیں، ہمیں معلوم ہوا کہ فرانسیسی بھیس بدل کر کہوٹہ کی جاسوسی کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا ، Give them kumble treatment پنجابی میں اسے ''گِدڑ کُٹ‘‘ کہہ لیں۔ ایک دن فرانسیسی سفیر نے اپنے فرسٹ سیکرٹری کے ساتھ پاکستانی نمبر پلیٹ والی کار میں کہوٹہ کا رخ کیا۔ یہاں قریب ہی ایک پرانا قلعہ بھی ہے۔ کہوٹہ کے محافظوں کو اطلاع ملی تو انہوں نے دونوں کو پکڑا اور خوب پٹائی کی (kumble treatment)۔ ہفتہ، دس دن بعد فرانسیسی سفیر اور فرسٹ سیکرٹری ضیاء الحق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شکایت کی کہ وہ تو قلعہ دیکھنے گئے تھے جہاں ان کی بری طرح پٹائی کی گئی۔ اس پر جنرل انجانا بن گیا‘ اور بڑے بھولپن سے کہا: آپ کو جانا تھا تو ہمارے فارن آفس کو بتا دیتے، وہ آپ کو گارڈ مہیا کر دیتے۔ پھر آپ پاکستانی نمبر پلیٹ کے ساتھ پرائیویٹ گاڑی میں گئے۔ وہاں بہت ڈاکو ہیں۔ انہوں نے آپ کو سیاح سمجھ کر لوٹنے کی کوشش کی ہو گی۔ انہیں روانہ کرکے جنرل ضیاء الحق نے جنرل نقوی اور ڈاکٹر قدیر کو بلایا، ہنس ہنس کر تمام کہانی سنائی اور کہا، کاش! ان کی جگہ امریکی ''باسٹرڈ‘‘ ہوتے۔ 
ضیاء الحق پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کوئی دبائو قبول کر نے کو تیار نہ تھے۔ بالآخر دسمبر 1979ء میں افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد سے کام آسان ہو گیا اور ''افغان جہاد کے مشترکہ کاز‘‘ کے باعث امریکی پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے چشم پوشی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی سے بہت پہلے (1984ء میں) پاکستان مطلوبہ ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا‘ تب اس نے ''کولڈ ٹیسٹ‘‘ کے ذریعے اس صلاحیت کی جانچ پرکھ بھی کر لی تھی۔
لیکن عشق کا ایک کڑا امتحان ابھی باقی تھا۔ ہندوستان 1974ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا‘ لیکن اسے دنیا کی مسلّمہ ایٹمی طاقتوں میں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ اب واجپائی کی بی جے پی حکومت نے 11 مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے ذریعے خطے میں نئی صورتحال پیدا کر دی تھی، طاقت کا توازن پھر درہم برہم ہو گیا تھا۔ تب وزیر اعظم نواز شریف ای سی او سربراہ کانفرنس کے سلسلے میں قازقستان میں تھے۔ ایک رائے یہ تھی کہ وہ اپنا پروگرام مختصر کر کے وطن واپس پہنچ جائیں‘ لیکن وزیر اعظم یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ پاکستان حواس باختہ ہو گیا ہے۔ وہ شیڈول کے مطابق 15 مئی کو وطن واپس پہنچے۔ ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر اشفاق کو بلایا‘ اور پوچھا کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کے لئے کتنا وقت درکار ہو گا؟ ''صرف دس، گیارہ دن‘‘۔ وزیر اعظم نے انہیں تیاریاں مکمل کرنے کی ہدایت کی، اگلے حکم کا انتظار کرنے کو کہا اور 17 مئی کو انہیں چاغی روانہ کر دیا گیا۔ ادھر صدر کلنٹن اور وزیر اعظم ٹونی بلیئر نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔ واشنگٹن اور لندن سے کال پر کال آ رہی تھیں۔ ایک دو بار پیرس بھی ان کالز میں شریک ہو گیا‘ لیکن یہ ساری کاوش، کیرٹ اینڈ سٹک کے تمام حربے بے سود رہے۔ 
امریکن سنٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل انتھونی زینی کی کتاب Battle Ready میں بھی ایک دلچسپ کہانی موجود ہے: صدر کلنٹن نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لئے وزیر دفاع ولیم کوہن کی زیرِ قیادت ایک اعلیٰ سطحی وفد اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا‘ لیکن وزیر اعظم پاکستان اس وفد کو پاکستان کی سرزمین پر اُترنے کی اجازت دینے پر تیار نہ تھے۔ سنٹرل کمانڈ کا بوئنگ 707 ٹمپا کے ہوئی اڈے پر تیار کھڑا تھا‘ اور امریکیوں کے بار بار رابطوں کے باوجود پاکستان کا انکار جاری تھا۔ بالآخر جنرل جہانگیر کرامت سے امریکی جرنیلوں کے تعلقات کام آئے اور اپنے آرمی چیف کی درخواست پر وزیر اعظم نے امریکی وفد کو آنے کی اجازت دے دی۔ جنرل زینی کے بقول امریکی وفد نے پاکستانی وزیر اعظم سے متعدد ملاقاتیں کیں‘ لیکن وہ وزیر اعظم پاکستان سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی بات نہ منوا سکے۔ پاکستان کا منتخب وزیر اعظم عوام کی خواہشات اور اپنے قومی مفادات پر پورا اُترا تھا۔ 
نائن الیون کے بعد ایک اور منظر تھا۔ اب یہاں ایک ڈکٹیٹر کی حکمرانی تھی جو واشنگٹن سے آنے والی ایک ہی ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گیا تھا‘ اور کچھ ہی عرصے بعد لاہور کے ریلوے سٹیشن پر چاغی کے ماڈل سے لے کر اسلام آباد میں غوری میزائل کے ماڈل تک قومی عزم و استقلال کی علامتیں مٹا دی گئی تھیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved