انگریزی ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ ڈاکٹر اے ایچ خیال کو جانتے اور ان سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس کالم کو پڑھنے والے بیشتر قاری اس نام سے واقف نہیں ہوں گے۔ اس میں اتنی حیرت بھی کیا کہ ہم اکثر اپنے اہل علم اورخالص دانشوروں سے ناواقف رہنے والے لوگ ہیں۔ جو میڈیا کی لائم لائٹ میں آ جائیںہم انہیں ہی ہیرو سمجھتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس میڈیا منڈی میں اہل علم کی کوئی جگہ نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علماء‘ دانشور اور استاد‘ میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ڈاکٹر خیال کو دنیا سے رخصت ہوئے کم و بیش ایک برس ہونے والا ہے۔ 25جون کو ان کی پہلی برسی ہے۔پچھلے برس جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی وفات کی خبر شاید کسی چینل پر نہیں آئی۔ انگریزی اخبارات نے البتہ وفات کی خبر لگائی اور ان پر مضامین بھی آتے رہے۔ ان کے چاہنے والوں نے تو فیس بک پر ان کا فین کلب بھی بنا رکھا ہے جہاں وہ ڈاکٹر خیال کے تحریر کردہ فیورٹ مضامین شیئر کرتے ہیں۔
آج میں بھی آپ کے ساتھ ان کے طنزو مزاح سے بھر پور مضامین کے چند اقتباسات شیئر کروں گی جو کہ اس وقت ہماری موجودہ ملکی صورت حال پر بہت خوب صورت تبصرہ ہیں۔ بہت ساری تحریریں جو ڈاکٹر صاحب نے نوّے کی دہائی کے آخر میں لکھیں آج پاناما لیکس کے تناظر میںاتنی ہی Relevantلگتی ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کا ایک قابل احترام استاد اور دانشور اہل اقتدار کی معاشی اور اخلاقی گراوٹ پر کس قدر رنجیدہ
تھا۔اس سے پہلے کہ چند دلچسپ اقتباسات شیئر کروں‘ اس خوب صورت سوچ رکھنے والی شخصیت کا تعارف ضروری ہے۔ڈاکٹر اے ایچ خیال انگریزی ادب کے پروفیسر تھے۔ تمام عمر گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹی)سے وابستہ رہے۔ وہ پاکستان کے ان چندپہلے انگریزی ادب کے استادوں میں سے تھے جنہوں نے انگریزی لسانیات یعنی Linguistcsمیں ڈاکٹریٹ کی اور یونیورسٹی کا 10سالہ ریکارڈ توڑا۔ برطانیہ کی اسی یونیورسٹی میں لیکچرر شپ کی آفر یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ اپنے وطن واپس جا کراپنے ہم وطنوں کو پڑھائیں گے۔2005ء میں ڈاکٹر صاحب کو Distinguished Professorکا لقب بھی دیا گیا۔ 2008ء تک وہ گورنمنٹ کالج کی وزیٹنگ فیکلٹی میں شامل رہے۔ آج نامور لوگ ان کی شاگردی پر ناز کرتے ہیں۔ انگریزی اخبار میں کالم بھی لکھے‘ بلکہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ان کے گہرے طنز میں لپٹے مختصر مضامین خاصے کی چیز ہیں۔
میرے پاس اتفاق سے ان کی انگریز ی کتاب ہے جس کا نام ہے Man in Search of hellاگرچہ انگریزی مضامین کو اردو زبان میں ترجمہ کر کے اس کا وہ لطف نہیں اٹھایا جا سکتا جو اسے انگریزی میں پڑھنے کا ہے‘قاری انگریزی میں ہی ڈاکٹر خیال کی Satireسے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ بہرحال اردو کالم میں تو ترجمے پر ہی اکتفا کرنا پڑے گی۔ اہل اقتدار ‘ اشرافیہ کی عیاشیاں اور عوام کی بدحالی ڈاکٹر صاحب کی تحریروں کا بنیادی نکتہ ہے جسے وہ مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ایک مضمون ہےCamels and Swiss Bank‘ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:''پرانے وقتوں میں جب کاغذ کے پیسوں کا رواج نہ تھا تو لوگ بارٹر سسٹم کے تحت رہتے۔ یہ زمانہ پیشہ ور ڈاکوئوں کے لیے مشکل دور تھا۔ پھر سکوں کا دور آیا۔ اس سے پیشہ ور ڈاکوئوں کے لیے کافی سہولت ہو گئی مگر پھر کاغذ کے پیسوں(Paper Money)کا دور آیا تو ڈاکو کا پیشہ ایک 'ایس تھیٹک آرٹ ‘بن گیا۔ اس دور نے آسان کر دیا کہ دولت مند طبقہ عوام کے حصے کا پیسہ بھی لوٹ کر بآسانی ان کی نظروں سے اوجھل کر دے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ پرانے وقتوں میں یہ کتنا مشکل تھا کہ اونٹوں ‘گائے ‘ بھینسوں کو چرا کر سوئس بینک میں جمع کرایا جاتا ۔خوش قسمتی سے آج کے چوروں کو یہ سہولت میسر ہے اوریہی وجہ ہے کہ چور اورڈاکو آج سے پہلے کبھی اتنے خوشحال نہیں تھے‘‘۔
اس پیرا گراف کو اشرافیہ کی آف شور کمپنیوں کے تناظر میں پڑھیں۔ طنز کی کاٹ سے آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ ایک اور مختصر مضمون جو پانچ لائنوں پر مشتمل ہے:Law Breaking‘اس میں ڈاکٹر خیال لکھتے ہیں:'' ایک غریب ملک میں کسی کے سماجی مرتبے کامعیار اس کی قانون توڑنے کی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔ قانون توڑنے کی یہ صلاحیت جتنی زیادہ ہو گی سماجی مرتبہ اتنا ہی اعلیٰ ہو گا‘‘۔ ایک اور مضمونThe two timesسے چند سطروں کا ترجمہ:ہمارے ماہرین معیشت نے بتایا ہے کہ ہمارے غریب ملک میں ‘ غریب لوگ خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر ماہرین نے یہ نہیں بتایا کہ ملک کے حکمران کہاں زندگی گزارتے ہیں۔ چلیں ہم اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ غریب ملک کے امیر حکمران لگژری لائن سے بھی میلوں اوپر آٹھویں جنت میں زندگیاں گزارتے ہیں۔ اگرچہ ان دونوں طبقوں کی قومیت تو ایک ہے مگر دراصل یہ دو مختلف دنیائوں کے باسی ہیں۔‘‘
Heart Strokeمیں لکھتے ہیں۔''لاعلمی ‘بے روزگاری‘بیماری اور بھوک غریب ملک کے عوام کے بنیادی حقوق ہیں۔ شکر خدا کا کہ غریب ملک کے امیر حکمرانوں نے عوام کو ان حقوق سے محروم نہیں رکھا۔‘‘
Wars and Babiesمیں سپر پاور کے جنگی جنون پر بہت گہرا طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''جنگ اور بچے جڑواں بہن بھائی کی طرح ہیں۔ انسانی تاریخ جنگوں سے بھری ہوئی ہے اور جنگوں میں ہمیشہ بے گناہ بچے مارے جاتے ہیں ۔صرف گلف وار میں ساٹھ ہزار بچے جنگ میں مار دیئے گئے۔انسان کا بچوں کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر جنت میں Unborn babiesننھے ہاتھ جوڑ کر خدا سے درخواست کر رہے ہیں کہ مہربانی کر کے جب تک انسان زمین پر موجود ہے‘ ہمیں یہی رہنے دیں‘ زمین پر نہ بھیجیں‘‘۔ایک اور مضمون میں لکھتے ہیں:''غریب ملک کے عوام بھوک اور غربت سے مر رہے ہیں‘ یہ ان کا ذاتی فعل ہے‘ حکمرانوں کا فرض یہی ہے کہ عوام کی ذاتی زندگیوں میں مداخلت سے گریز کریں۔ غریب ملک میں حکمرانوں کا کام صرف حکمرانی کرنا ہے ‘ عوام کی زندگیوں میں مداخلت کرنا نہیں۔‘‘
Politics and Ethicsتیرہ لائنوںکامضمون ہے۔ اس کی پہلی ہی لائن طنز سے ایسے بھری ہے کہ قاری چاہے تو دیر تک اسی کا لطف اٹھاتا رہے ۔میں اسے انگریزی میں ہی لکھوں گی:
When politics was born Ethics committed suicide
سیاست دیسی ہو یا بدیسی ‘شاید اس سے بہتر تبصرہ کارِ سیاست پر ممکن نہیں!!
اور آخر میں ایک دلچسپ بات کہ ڈاکٹر خیال نے اپنی اس کتاب کا انتساب انگریزی لوک کہانیوں کے مشہور ڈاکوکردار رابن ہڈ کے نام کیا ہے جو امیروں سے دولت لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرتاتھا۔