نادرا کو شاباش ہے! جو پاکستان کا کھاتے ہیں، پاکستان میں رہتے ہیں، پاکستان سے شناخت مانگتے ہیں اوربڑے بڑے عہدوں پر پہنچ کر پاکستان کی شناختی علامات کو فروخت کرتے ہیں۔ نادرا نے ان کے چہرے کا نقاب نوچ ڈالا۔ پھر شاباش!!
اس وقت نادرا کے ڈائریکٹر جنرل میرم جان خان درانی کے دستخطوں سے جاری ہونے والا انتہائی اہم خط میرے سامنے ہے جو 23 مئی 2016 ء کو نادرا کے ریجنل ہیڈ آفس نیو زرغون روڈ کوئٹہ سے لکھا گیا۔ میرم جان خان درانی نے وفاق میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے بذریعہ چیئرمین نادرا سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان برائے فروخت کی مہم رکوانے کے لئے وزارتِ داخلہ سے فوری رابطہ کرے تاکہ بلوچستان میں جعلی شناختی کارڈوں کا اجراء روکا جا سکے۔ اس خط کا پیرا نمبر 2 یوں ہے:
"This illegal and forceful interference has literally seized NADRA`s independent processing of CNICs as per SOPs.There were reports from zones that PKMAP was pressurizing NADRA staff to register their nominated suspected aliens which is supplemented by Newspaper clipping of Daily Dawn".
نادرا بلوچستان کا خط مغلیہ طرزکی روشن حکمرانی کا ایک نوحہ ہے۔ اس اہم انکشاف کے تینوں پیراگراف علیحدہ علیحدہ داستان بھی ہیں اور فوجداری جرائم بھی۔ پہلے حصے میں بلوچستان کابینہ، آئینی عہدے، صوبے اور مرکز میں نون لیگی حکومت کے شراکت دار، ریاست کے خلاف جبری جرائم میں ملوث بتائے گئے۔
پہلا جرم۔۔۔ یہ کہ وہ کارِ سرکار میں جسمانی طور پر مداخلت کر رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کو خلافِ قانون اور خلافِ ضابطہ ذاتی احکام کے تابع لا رہے ہیں۔
دوسرا جرم۔۔۔ خط میں نامزد کیے گئے پبلک آفس ہولڈر اپنے سرکاری سٹاف اور ذاتی گماشتوں کے ذریعے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں نادرا کو عملی طور پر''اوور ٹیک‘‘ کر چکے ہیں۔ ان حالات میں نادرا کے لئے آزادانہ ریاستی فرائض سر انجام دینا ممکن نہیں رہا۔
تیسرا جرم۔۔۔ یہ کہ وہ ایسے غیر ملکی اور مشتبہ افغانیوں کو زبردستی پاکستانی شہری بنانا چاہتے ہیں جو ان کے اپنے نامزد کردہ لوگ ہیں۔
اسی تناظر میں بلوچستان کے وزیر داخلہ پھٹ پڑے۔کہا بس بھائی بس! ضیاء الحق کے مہمانوں کی میزبانی کافی ہو گئی، اب یہ عزت سے واپس چلے جائیں ورنہ بلوچستان کے عوام انہیں دھکے سے واپس کرنے پر مجبور ہوںگے۔ چوہدری نثار نے بھی یہی باتیں ذرا سیاسی انداز میں کیں، مگر نجانے کیوں ہمارے حکمران اور وہ بیوروکریٹ جن کی بیگمات مہاجروں کی این جی اوز بنا کر ڈومیسٹیک ویمن سے ڈالر ویمن بن چکی ہیں،افغان مہاجروں کی واپسی نہیں چاہتے۔ اس کے لئے گِھسا پِٹا بہانہ ہے کہ بین الاقوامی برادری ہمیں کیا کہے گی؟ اور یہ بھی کہ مسلم امہ کو ہم کیا منہ دکھائیں گے؟ جہاں تک بین الاقوامی برادری کی ناراضگی کا خوف ہے، اس کی حقیقت لیبیا، عراق اور شام کے مسلم مہاجرین کے ساتھ سلوک نے کھول کر رکھ دی۔ یہ مہاجر مغربی ملکوں کی بمباری سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔کچھ بمباری تو امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اس کے مقامی اتحادی ممالک نے کی تھی۔ باقی کسر نکالنے کے لئے نیٹو کی افواج ان ملکوںپر بوٹوں سمیت چڑھ دوڑی۔
ابھی24 گھنٹے پہلے مغربی ملکوں میں اختلاف کی آواز بلند کرنے والے''آر۔ٹی‘‘ ٹی وی نے وہ تصویریں ٹیلی کاسٹ کر دیں جن میں امریکی فوجی شام کی سرزمین پر فوجی آپریشن میں حصہ لیتے دکھائے گئے۔ ان میں سے ایک فوجی نے غلطی سے اپنے بازو پر خواتین یونٹ کا بیچ لگا رکھا ہے۔ مسلمان ملکوں کے جمہوریت کے ''دلدادہ‘‘ بادشاہوں نے مسلمان مہاجرین کے لئے اپنے دروازے اونچے کر لیے۔ پھر ترکی آگے بڑھا اور یورپ کے ساتھ ڈالر کے بدلے مہاجر واپسی کا معاہدہ ہو گیا۔ کیا یہ واقعات اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) والے دونوں اعتراضات کا شافی اورکافی جواب نہیں ہے۔
اب آئیے وفاقی حکومت کے پالیسی میکنزم کی طرف۔ وزارتِ داخلہ کے ایک ادارے کا خط ایک طرف، اس خط کی تائید نما وفاقی وزیرداخلہ کی تقریر دوسری جانب، صوبائی وزیرداخلہ کا جائز غم و غصہ، مگر (UNHCR) سے بات کرنے کے لئے وزیر خارجہ کون ہے؟ چونکہ پچھلے تین سال سے پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں، اس لئے ہم نے وزیر خارجہ کو کیا کرنا ہے۔ جو حکمران ملک کے دفاع کے لئے پل اور سریا ضروری سمجھتے ہوں ان کے دور میں وزیر دفاع کا نہ ہونا خبر نہیں، روٹین ہے! لیبر پالیسی نہ ہو تو مزدوروں کی وزارت کا کیا کام! جس نظام کی ترجیح میں خواتین شامل ہی نہیں اس میں خواتین کی وزارت کس لئے!
خواتین سے یاد آیا، اس حکومت نے ابھی تک خواتین کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کے لئے ایک خاتون مکمل وفاقی وزیر ہی بنا دی جائے۔ حکومت کے اتحادی سرکاری مولوی حضرات 'ڈ‘ سے ڈنڈا ، 'ع‘ سے عورت کے سبق میں امت کی نجات سمجھتے ہیں۔ 'م‘ سے مزدور اور'ک‘ سے کسان کی گردان کرنے سے غریبوں کو فائدہ ہوتا ہے، لہٰذا امت کے غریبوں کے فائدے میں اجماع اور سیاسی فتوے بازی میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا بھائی پھیرو اور انٹارٹیکا میں۔ سرکاری مولوی حضرات پورا زور لگا رہے ہیں، میڈیا پر پاناما لیکس کی بجائے ''فدویانہ لیکس‘‘ چھا جائیں۔ ذاتی سوچ اور علاقائی طرزِ زندگی کو مذہبی کہہ کر خواتین کے استحصال کا ہر راستہ جائز اور ویمن امپاورمنٹ کا ہرقانونی یا آئینی منصوبہ حرام۔
شام ایک معروف اینکر میرے دفتر تشریف لائے۔کہنے لگے آپ کو پتا ہی ہو گا برونائی میں ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو سرکار شادی کے اخراجا ت کے بعد رہائشی گھر مفت دیتی ہے۔ مہلک بیماری کے ہر مریض کا بیرونِ ملک علاج بھی سرکاری خرچ پرہی ہوتا ہے۔ اچھی خاصی مزید تفصیل دے کر کہنے لگے، پِمزکے برآمدے میں پہیوں والے سٹریچر پرکینسر کے مریضوں کی کیمو تھراپی ہو رہی ہے۔ پھر مجھ سے سوال پوچھا، آپ بتائیں غریبوں کے لئے برونائی والی بادشاہت اچھی ہے یا مے فیئر کے فلیٹ والی جمہوریت؟ آپ کی طرح میرے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ہے یا شاید میں جواب دینا نہیں چاہتا۔ یہ جواب''صرف بالغوں کے لئے‘‘ نہیں ہے کہ میںا سے چھپاتا پھروں۔ حقیقت یہ ہے کہ جواب ہم سارے جانتے ہیں۔
مجھے یاد آیا، ایک شاباش محکمہ امیگریشن والوں کے لئے بھی بنتی ہے جنہوں نے ڈرون پروف پاکستانی پاسپورٹ ایجاد کیا۔ ڈرون حملے میں لمبی گاڑی کی سیٹیں، سٹیٔرنگ اور مسافر تک جھلس کر راکھ ہو گئے مگر ڈرون پروف پاسپورٹ ترو تازہ رہا۔ اس کا پہلا صفحہ کالا تک نہ ہو سکا۔ ریاست بچانے کے لئے منافقت اور پاکٹ مار سیاست سے نجات ضروری ہے۔ اگر نجات کے اس تاریخی لمحے پر پارلیمنٹ ناکام ہوگئی تو پھر عوام متبادل انتظام تلاش کرنے میںحق بجانب ہوںگے۔کوئی ڈرون پروف انتظام۔۔۔۔!