1998ء میں میاں نوازشریف کے وزیر خارجہ گوہر ایوب خان کا موقف وہی ہے جو شیخ رشید احمد کا ہے کہ میاں نوازشریف بھارتی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی تجربات کے حق میں نہ تھے مگر سید مشاہد حسین کی گواہی یہ ہے کہ وزیراعظم نے دوشنبے سے ہی سائنس دانوں کو تیاری کا حکم دے دیا تھا۔ 11؍مئی سے 28 ؍ مئی تک کا عرصہ ضروری تکنیکی تیاریوں اور سفارتی سطح پررابطوں کے لئے درکار تھا۔
بھارت نے مئی 1998ء میں باردگر ایٹمی دھماکے کئے تو پوری قوم نے یک زبان ہو کر جوابی ایٹمی تجربات کا مطالبہ کیا‘ اختلاف صرف غیر ملکی چندے پر چلنے والی این جی اوز کو تھا یا امریکی پابندیوں سے ہراساں مفاد پرست بیورو کریٹس تاجروں اور کم ہمت دانشوروں کو۔ ایک وفاقی وزیر کے بقول کابینہ کے ایک اجلاس میں جب میاں صاحب نے رائے طلب کی تو چہیتے سیکرٹری نے پوچھا ‘کیا ہم اس معاملے کو دو سال تک ٹال نہیں سکتے؟ وجہ پوچھی گئی تو جواب ملا کہ ''امریکہ میں زیر تعلیم ہمارے بچوں کی گریجوایشن مکمل ہو جائے‘‘ ۔اعجاز الحق اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے ایک خط کا حوالہ دیا کرتے تھے جس میں اس معاملے پر مزید غور و خوض اور اقتصادی و معاشی مفادات کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا تھا‘ واللہ اعلم بالصواب۔
میاں نوازشریف کے موجودہ اتحادی مولانا فضل الرحمن اس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز صاحب کے حوالے سے بتایا کرتے تھے کہ میاں صاحب دھماکوں کے حق میں نہیں اور پانچ ارب کا معاشی پیکج قبول کرنے کی طرف راغب ہیں مگر اُن دنوں‘ مَیں جس اخبار سے وابستہ تھا اس کے مدیر محترم کو یقین تھا کہ میاں صاحب اس مرحلہ پر کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھائیں گے۔ انہی مدیر محترم نے اخبار نویسوں کی بریفنگ میں کہا تھا: ''میاں صاحب دھماکے کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی‘‘۔ سرتاج عزیز صاحب نے سینئر اخبار نویسوں کو اسلام آباد میں ایک بریفنگ دی تھی جس میں امریکہ کی طرف سے پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کا ذکر کیا گیا تھا مگر مجھے اس بریفنگ میں بھی یہ تاثر ہرگز نہ ملا کہ حکومت دھماکے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ لاہور میں سید مشاہد حسین نے دس بارہ اخبار نویسوں سے تبادلہ خیال کے بعد ازرہ تفنّن یہ ضرور کہا تھا کہ خوب ڈٹ کر کھائیں کیونکہ دھماکوں کے بعد پابندیاں لگیں تو پھر شاید ہم‘ آپ کو فائیو سٹار ہوٹل میں کھانا نصیب نہ ہو‘ اس بے تکلف گفتگو سے بھی دھماکوں کے حوالے سے حکومتی آمادگی کا تاثر ملتا تھا ‘اگرچہ مشاہد صاحب نے پابندیوں سے ڈرایا بہت تھا اور دھماکہ مخالف صحافیوں کو یہ کہنے کا موقع ضرور فراہم کیا تھا کہ'' یہی تو ہم کہتے ہیں‘‘۔
صدر کلنٹن کے پانچ فون بھی افسانہ نہیں‘ حقیقت ہے‘ جس کا ذکر بل کلنٹن نے اپنی خودنوشت سوانح حیات میں کیا ہے‘ لہٰذا یہ کریڈٹ تو میاں صاحب سے کوئی چھین نہیں سکتا مگر سوال یہ ہے کہ ان کی جگہ کوئی دوسرا حکمران ہوتا مثلاً ضیاء الحق‘ غلام اسحاق خان‘ بے نظیر بھٹو حتیٰ کہ پرویز مشرف تو کیا اس تاریخی موقع کو ضائع کرتا جو بھارت نے فراہم کیا تھا؟ میرا کیا ‘ہر ایک کا خیال ہے کہ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ ایسی حرکت کرنے والے حکمران کا لوگ تیاپانچا کر دیتے۔ پرویز مشرف نے کمزوری دکھائی ‘نائن الیون کے بعد امریکہ کے سامنے جھک گیا مگر جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حوالگی کا مطالبہ ہوا تو اسی پرویز مشرف نے امریکہ کو ''ناں‘‘ کی۔ عراق میں فوج بھیجنے کے معاملہ میں بھی جرأتِ انکار کا مظاہرہ اس فوجی آمر نے کیا کیونکہ عوامی جذبات و احساسات کا علم اُسے ہو گیا تھا۔ اس وقت مگر بحث کا موضوع یہ نہیں ہونا چاہیے کہ میاں نوازشریف دھماکے کرنا چاہتے تھے یا نہیں؟ نوازشریف ایٹمی پروگرام کے خالق ہیں نہ معمار اور محافظ۔ یہ کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کو مل چکا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس کی سزا اب تک بھگت رہے ہیں مگر تجربات کی سعادت میاں صاحب کو ملی اور یوم تکبیر پر انہیں قوم یاد رکھتی ہے؛ تاہم اس وقت ہمارے ایٹمی پروگرام کوجن خطرات کا سامنا ہے اس کا احساس قوم کو ہے‘ حکومت غافل نظر آتی ہے۔
امریکی کانگریس اور ذرائع ابلاغ نے طویل عرصہ کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر یہ بحث چھیڑ رکھی ہے کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے علاقہ بلکہ دنیا غیر محفوظ ہے۔ امریکہ افغانستان میں دس بارہ ہزار فوجیوں کے ذریعے اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کا جواز اگرچہ طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کی صورت میں پیش کرتا ہے اور بار بار مطالبات کے باوجود طالبان یا حکمت یار تو درکنار‘ اشرف غنی حکومت کو بھی انخلاء کی تاریخ دینے پر تیار نہیں‘ جس کی وجہ سے طالبان سے مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی ہے نہ حکمت یار اور اشرف غنی حکومت کے مابین معاہدہ پر دستخطوں کی نوبت آ رہی ہے مگر واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ کابل میں موجود امریکی دستوں کے پاس ایسا سازو سامان ہے جو کسی ممکنہ ایٹمی حملے سے بچائو کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ان دستوں میں ایسے گروپوں کی موجودگی کا انکشاف ہو چکا ہے جنہیں ایٹمی تنصیبات پر حملے کی تربیت دی گئی ہے۔ پرویز مشرف دور میں ایک سپیشل ٹیم کی امریکہ سے دبئی روانگی کی اطلاع منظر عام پر آئی تھی جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت سے لیس تھی‘ مگر امریکی وزیر دفاع نے آخری وقت پر اُسے واپسی کی ہدایت کی کیونکہ پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل کا خطرہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان ایٹمی ریاست ہے نہ طالبان یا القاعدہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس گروپ ہیں کہ امریکی فوجی دستوں کو کسی قسم کے خطرات لاحق ہوں۔ افغانستان کے پڑوس میں پاکستان ایٹمی قوت ہے اور اس کے ہتھیاروں کے بارے میں تین چار عشروں سے واویلا جاری ہے۔ یہ ساری تیاریاں پاکستان کی ایٹمی قوت کے خلاف ہو سکتی ہیں جو بھارت کی طرح اس کے سرپرست و اتحادی امریکہ کی آنکھوں میں بھی کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔
ایٹمی پروگرام ہمارے دفاع کا ضامن ہے اور اس کے بل بوتے پر ہم گزشتہ چار عشروں سے بھارتی شر سے محفوظ ہیں مگر قرضوں کی بھرمار‘ اقتصادی و سیاسی عدم استحکام اور حکومت و اپوزیشن کی سرپھٹول کے علاوہ ناہموار سول ملٹری تعلقات‘ دشمنوں کے لیے سازگار ہیں کہ ہماری کمزوری ہی دشمن کی وہ طاقت ہے جو اُسے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل پر اکساتی ہے۔ بھارت‘ چین‘ امریکہ اورکسی دوسرے ایٹمی ملک میں یہ بحث نہیں ہوتی کہ ہمیں نیوکلیئر پاور بننے کی ضرورت نہ تھی یا اس کا سہرا کس کے سر ہے۔ کسی ملک نے اپنے ایٹمی سائنس دانوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر سلطان بشیرالدین محمود کے ساتھ ہوا۔ سی پیک منصوبہ صرف ہماری اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی کا منصوبہ نہیں‘ یہ ہماری دفاعی صلاحیت کو بھی کمک فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اور چین دو ایٹمی قوتوں کا اتحاد اور روس سے بہتر تعلقات امریکہ کو بھاتے ہیں نہ بھارت کو‘ اور وہ اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔مگر اقتصادی ترقی کی خواہش مند ایک نیوکلیئر پاور کا ریاستی ڈھانچہ اس کے شایان شان ہے؟ میاں صاحب کی علالت نے اس حوالے سے سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔
قوم اسی باعث اندیشوں کا شکار ہے اور ایبٹ آباد یا نوشکی کے واقعات سے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں کہ کہیں یہ ہمیں کسی بڑے حادثے سے دوچار کرنے کی چال ہی نہ ہو‘ یہ قومی سلامتی و خودمختاری کے حوالے سے ہماری حساسیت چیک کرنے اور محافظ اداروں کے علاوہ حکمران اشرافیہ کے انتظامات کی جانچ پڑتال کا مفسدانہ منصوبہ ہی نہ ہو؟ طارق فاطمی نے یہ کہہ کر کہ '' ہم ڈرون حملوں کا مُنہ توڑ جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں‘‘ اپنی اور حکومت کی بے بسی ظاہر کر دی ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں ہم نے جو پیغام بھارت اور اسرائیل کو دیا تھا کیا ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ کے لیے بھی ہے یا قوم طارق فاطمی کے جواب پر اکتفا کرے؟ یوم تکبیر کا کریڈٹ لینے میں مصروف حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ یہ سوچنے کی توفیق دے مگر وہ تو ابھی تک یہ طے نہیں کر پائے کہ وزیراعظم نوازشریف آپریشن تھیٹر میں ہوں گے تو ایٹمی بٹن پر کس کا ہاتھ ہو گا ؟اور پاکستان میں بنیادی نوعیت کے فیصلوں کا اختیار کس کے پاس؟ بھارت نے قائداعظمؒ کی وفات کے دن جونا گڑھ پر قبضہ کیا تھا‘ یہ قصہ ماضی سہی مگر ایک نیوکلیئر مسلم ریاست کو اس قدر لاپروا اور سہل پسند بھی نہیں ہونا چاہیے کہ حکمرانی مذاق بن کر رہ جائے۔