تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     31-05-2016

کھوکھلے معاشرے کا ناسور

1997ء کی بات ہے اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں ایک برانڈنیو ہنڈا اکارڈ کھڑی تھی۔ یہ کار ایک نہایت اہم شخصیت کی ملکیت تھی ۔بیگم صاحبہ آس پاس دکانوں میں شاپنگ کر رہی تھیں۔ سادہ لوح ڈرائیور کار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک سمارٹ سا نوجوان آیا اور ڈرائیور سے کار کے بارے میں پوچھنے لگا ۔اس سوٹڈ بوٹڈ نوجوان نے کار کی بہت تعریف کی اور پھر ڈرائیور سے کہا کہ کیا میں کار کو دو منٹ سٹارٹ کر کے دیکھ سکتا ہوں کہ انجن کی آواز کیسی ہے۔ کون کون سی الیکٹرانک اشیا لگی ہوئی ہیں‘ مجھے اچھی کاروں کا بہت شوق ہے۔ ڈرائیور باہر آ گیا اور کار کی چابی سمارٹ نوجوان کے ہاتھ میں تھما دی۔ نوجوان نے گاڑی سٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔ ڈرائیور نے شور مچا دیا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ بیگم صاحبہ واپس آ گئیں۔ فوراً پولیس کو اطلاع کی گئی۔ کار لیکر بھاگنے والا فارن آفس کا سیکشن آفیسر شفقت علی چیمہ تھا۔
کیپٹن ریٹائرڈ شفقت علی چیمہ فوج سے چند سال پہلے فارن سروس میں انڈکٹ ہوا تھا۔ اُس کے زندگی میں جو ارادے تھے وہ فوج میں پورے نہیں ہو سکتے تھے کہ فوج میں احتساب کا کڑا نظام ہے۔ افسر کی اخلاقی اور مالی غلطی پر کورٹ مارشل ہو سکتا ہے ۔جب ہر طرف سائرن بجنے لگے تو شفقت چیمہ نے گاڑی سنسان جگہ پارک کی۔ اُن دنوں وہ سیکشن افسر چائنا تھا اور چین کا ویزہ اُس کے پاسپورٹ پر لگا ہوا تھا۔ شفقت نے ٹیکسی پکڑی ‘ایئرپورٹ پہنچا اور بیجنگ کی پرواز میں محوسفر ہو گیا اور دیدہ دلیری دیکھئے بیجنگ پہنچ کر ایجنسی کمپاؤنڈ میں ایک دوست کے پاس قیام کیا۔ ان دنوں چین میں ہمارے سفیر انعام الحق صاحب تھے۔ انعام صاحب دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اسلام آباد سے ایک حساس ادارے کے سربراہ کا فون آیا۔ سفیر صاحب نے فوراً افسروں کو بُلایا کہ بھگوڑے افسر کو تلاش کیا جائے اتنے میں ایک افسر بولا کہ سر وہ تو میرے گھر ٹھہرا ہوا ہے۔ مزید پتہ چلا کہ شفقت چیمہ ویزہ لینے کے لئے آسٹریلین ایجنسی گیا ہوا ہے۔ قارئین کو علم ہو گا کہ ایک زمانے میں انگلستان کے جرائم پیشہ لوگوں کو زبردستی آسٹریلیا ڈی پورٹ کیا جاتا تھا ‘خیر یہ بات تو از راہ تفنن تھی۔
شفقت چیمہ کو واپس اسلام آباد لایا گیا اور فارن سروس سے فارغ کر دیا گیا۔ شفقت نے سروسز ٹریبونل میں حکومتی فیصلے کے خلاف اپیل کر دی اور کچھ عرصے بعد اُسے فارن آفس میں بحال کر دیا گیا۔ شفقت چیمہ کا ایمان ہے کہ اس ملک میں ہر شخص کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے اور اگر کوئی ایمانداری کا دعویدار ہو تو اُسے سیاسی دباؤ سے قابو کیا جا سکتا ہے ۔وہ بڑی فراخدلی سے رشوت دیتا تھا ۔ پیسوں کی کوئی کمی نہ تھی اور دل بڑا تھا۔ 
میں 2003ء میں یونان سے واپس آیا تو مجھے ایڈیشنل سیکرٹری ایڈمنسٹریشن لگایا گیا۔ ایتھنز کی ایمبیسی میں میں نے ایک بڑا کرپشن سکینڈل پکڑا تھا جس کا تفصیلی ذکر آئندہ کبھی سہی ۔اب تک احتیاط اس لئے برتی ہے کہ کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں ۔بہرحال مجھے پتہ تھا کہ ایتھنز اور میڈرڈ ویزہ اور پاسپورٹ کرپشن کی وجہ سے بدنام ہیں۔ واپسی پر سرکاری گھر نہ ملا تو میں نے دو تین مہینے ہوسٹل میں قیام کیا ۔شفقت چیمہ بھی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ اسی ہوسٹل میں مقیم تھا۔ مجھے ہمیشہ بہت مؤدب ہو کر ملا کرتا لیکن ہمارے تعلقات علیک سلیک سے آگے نہ بڑھے ۔مجھے اُس کی شہرت کا پتہ تھا اور اُسے بھی پتہ تھا کہ میں ڈسپلن اور کرپشن کے بارے میں سخت گیر ہوں۔ ہوسٹل میں فارن آفس کی کئی فیملیز رہتی تھیں۔ مختلف عمروں کے بچے بھی تھے۔ شفقت چیمہ بچوں میں بہت پاپولر تھا ۔وہ انہیں شام کو کار میں بٹھا کر آئس کریم کھلانے لے جاتا تھا۔
2004ء کی بات ہے ۔افسروں کی پوسٹنگ ہو رہی تھی۔ شفقت چیمہ کی نظریں میڈرڈ پر تھیں ۔میں اُسے سپین بھیجنے کے خلاف تھا ۔فارن سیکرٹری میری رائے سے متفق تھے۔ فارن آفس پر سیاسی دباؤ بڑھنا شروع ہوا لیکن مجھے کسی سیاست دان نے فون نہیں کیا۔ جنرل مشرف کا زمانہ تھا ۔مسلم لیگ (ق) زوروں میں تھی۔ مجھے جس روز پتہ چلا کہ بالا بالا شفقت چیمہ کو میڈرڈ بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا ہے تو مجھے سخت دکھ ہوا ۔میرا ذاتی خیال تھا کہ دودھ کی حفاظت کے لئے بلے کو بھیجا جا رہا ہے اور دودھ بھی چوکھا ہے۔
اور پھر میرے اندیشے پورے ہونے شروع ہو گئے۔ میڈرڈ سے خوفناک خبریں آنا شروع ہوئیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں ‘ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ میڈرڈ میں گھپلے ہو رہے ہیں ۔اتنے میں میں بطور سفیر مسقط چلا گیا۔ میڈرڈ میں سفیر صاحب نے کچھ عرصہ شفقت چیمہ کا راستہ روکے رکھا۔ جب سفیر صاحب کی ٹرانسفر ہو گئی تو شفقت وہاں ناظم الامور یعنی قائم مقام سفیر بن گیا۔ اور اب'' گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے ‘‘ والا معاملہ تھا۔ سُنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹوں کا جمعہ بازار لگ گیا ۔ افواہیں گرم تھیں کہ انڈین سکھ آسانی سے پاکستانی پاسپورٹ لے لیتے ہیں ۔سپین میں کچھ ایسے پاکستانی بھی مقیم تھے جن کے خلاف پاکستان میں کیس تھے ۔ان بھگوڑوں کو حکومت پاکستان نے بلیک لسٹ کیا ہوا تھا۔سنا ہے کہ شفقت چیمہ کی بادشاہی میں ان بھگوڑوں کو بھی پاکستانی پاسپورٹ ملے ۔اب آپ پوچھیں گے کسی انڈین کو کیا ضرورت ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ خریدے۔ دو طرح کے انڈین پا کستانی پاسپورٹ کی شدید خواہش رکھتے ہیں ۔ایک وہ جو انڈیا میں بلیک لسٹ ہو چکے ہوں یعنی انڈین حکومت انہیں پاسپورٹ دینے سے انکاری ہو اور دوسرے وہ جو پاکستان آکر تخریبی کارروائیاں کرنا چاہتے ہوں۔ حال ہی میں میڈرڈ سے آنے والے ایک صاحب بتا رہے تھے کہ سپین میں آباد مشکوک کردار والے انڈین آج بھی شفقت چیمہ کو یاد کرتے ہیں۔ ع
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
جب میڈرڈ میں مقیم محب وطن پاکستانیوں نے چیخ و پکار کی تو فارن آفس نے ایڈیشنل سیکرٹری جلیل عباس جیلانی کو انکوائری کے لیے
میڈرڈ بھیجا۔ جلیل عباس کا شمار فارن آفس کے اچھے افسروں میں ہوتا تھا۔ بعد میں فارن سیکرٹری بنے اور آج کل واشنگٹن میں سفیر ہیں۔ شفقت چیمہ کے بارے میں ان کی رپورٹ آج بھی فارن آفس میں موجود ہے اور سنا ہے اس میں سے اب بھی دھواں نکل رہا ہے۔ جلیل عباس نے سفارش کی کہ اس افسر کو ڈسمس کر دیا جائے۔ سیاسی دباؤ پھر زوروں پر تھا۔ مسلم لیگ (ق) کی حکومت تھی ۔شفقت چیمہ بچاؤ مہم پھر شروع ہو گئی، فارن سیکرٹری نے فیصلہ کیا کہ یہ افسر فارن آفس میں رکھے جانے کے قابل نہیں ؛ چنانچہ اُس کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دے دی گئیں۔ خس کم جہاں پاک ۔شفقت چیمہ دوبارہ سروسز ٹریبونل کے پاس گیا اور فارن آفس واپس آکر سینہ تان کر چلنے لگا‘ کر لو جو کرنا ہے تمہارے کھوکھلے نظام کو میں خوب سمجھتا ہوں۔ جلیل عباس جیلانی بھی اپنا سامنہ لے کر رہ گئے ۔اخباری اطلاعات کے مطابق نیب نے شفقت چیمہ کے گھر اور دفتر پر متعدد چھاپے مارے ہیں ۔جب نیب والوں نے فارن آفس میں چھاپہ مارنے کے لئے فارن سیکرٹری اعزاز چوہدری سے اجازت چاہی تو انہوں نے یہ اجازت بخوشی دے دی ۔لگتا ہے کہ فارن آفس بھی تنگ آیا ہوا تھا۔ یہ دفتر باقی محکموں کے مقابلے میں ڈسپلنڈ اور ایماندار ہے۔ شفقت چیمہ کے گھر سے جو مال اور دستاویز ملی ہیں ان کا ذکر اخباروں میں آ چکا ہے۔
میرا فارن آفس سے سوال ہے کہ اس قماش کے افسر کو پولیٹیکل ڈیسک کیوں دیا گیا۔ اسی ڈیسک کی وجہ سے شفقت چیمہ کو انسانی سمگلنگ میں مدد ملی۔ کالم لکھنے سے پہلے میں نے کئی با خبر دوستوں سے بات کی ۔ہر ایک نے کہا کہ معلومات ایک شرط پر دیں گے کہ ہمارا نام کالم میں نہ آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی خطرناک مجرم سرکاری افسر اور سیاست دان شفقت چیمہ کی جیب میں ہیں۔ سنا ہے کہ فارن آفس میں بھی کئی شرفاء خائف بیٹھے ہیں کہ کل کو شفقت چیمہ بری ہو کر واپس آ سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved