تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     31-05-2016

دولت اللہ کی نعمت، مگر نفس کا فتنہ!

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب قائم ہیں۔ پچھلی صدی میں عراقی عالم دین ولید الاعظمیؒ نے المعجزات المحمدیہ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جس میں احادیث اور مستند تواریخ سے ایک سو چار معجزات کا انتخاب کیا۔ ان تمام معجزات میں بہت ہی عبرت انگیز اور سبق آموز ہدایات ملتی ہیں۔ آج کے مادہ پرستانہ دور میں تو ہر شخص دیوانہ وار دولت کے پیچھے مارا مارا پھر رہا ہے۔ لیکن یہ بیماری شروع سے انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سرورعالم اور شہنشاہِ فقر تھے۔ آپؐ کے صحابہؓ بھی دنیا کو دل میں بسانے کی بجائے آخرت کے طلب گار تھے۔ جن کے پاس دولت تھی وہ بھی اسے اللہ کی امانت سمجھتے تھے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: مَاقَلَّ وَکَفٰی خَیْرُ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی۔ یعنی تھوڑا مال جو انسان کی ضروریات کو پورا کردے وہ اس مالِ کثیر سے بہتر ہے جو انسان کو غفلت میں ڈال دے۔(مسند احمد، روایت حضرت ابو الدرداءؓ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لیس الغنٰی عن کثرۃ العرض، ولکن الغنٰی عن النفس۔ یعنی مال داری اور تونگری کثرت مال سے نہیں ہوتی، بلکہ دل کے غنی ہونے سے ہوتی ہے۔(بخاری، حدیث 6081)۔ اسی طرح حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا اے ابوذر! کیا تم کثرت مال کو غنٰی سمجھتے ہو۔ میں نے کہا ہاں یارسول اللہ۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ غنٰی کا تعلق مال سے نہیں، دل سے ہے۔ 
مشہور صحابی حضرت ابوامامہ الباہلیؓ نے حدیث بیان کی ہے، جس میں انھوں نے فرمایا کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! دعافرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال ودولت سے مالامال کردے۔‘‘رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''ثعلبہ تم پر افسوس ہے (تم نے اللہ کے نبی سے مطالبہ بھی کیا تو حقیر چیز کا) وہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرسکے، اس کثیر سے اچھا ہے جس کی تو طاقت وسکت نہ رکھتا ہو۔‘‘اس وقت تو ثعلبہ چلا گیا مگر کچھ دنوں بعد پھر عرض کیا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے مال ودولت کی دعا فرمائیے۔‘‘ آپؐ نے اسے سمجھایا اور کہا: ''تو اس بات پر خوش نہیں ہے کہ اللہ کے نبی جیسی زندگی گزارے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر میں چاہتا تو یہ پہاڑ سونے چاندی کے بن جاتے اور میرے ساتھ ساتھ چلتے۔‘‘ 
ثعلبہ نے کہا: ''اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو رسولِ برحق بنا کر بھیجا ہے، اگر مجھے مال کی فراوانی عطا ہوئی تو میں ہر حقدار کا حق بطریق احسن ادا کروں گا۔‘‘ اس کے بار بار اصرار پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: ''اے اللہ ثعلبہ کو مال دے دے۔‘‘ثعلبہ نے بکریاں رکھی ہوئی تھیں۔ ان میں یوں اضافہ ہونے لگا جیسے موسم برسات میں کیڑوں مکوڑوں میں ہوتا ہے۔ مدینہ اس کے لیے تنگ ہوگیا۔ وہ مدینہ سے باہر ایک وادی میں چلا گیا۔ اب وہ نمازِ ظہر اور عصر تو مسجد نبوی میں آکر ادا کرلیا کرتا تھا مگر باقی نمازیں جماعت کے بجائے بکریوں کے پاس ہی تنہا ادا کرنے لگا۔بکریاں مسلسل بڑھتی جارہی تھیں۔ وہ وادی بھی تنگ ہوگئی تو ثعلبہ اس سے آگے ایک اور میدان میں چلا گیا۔ اب ساری نمازیں بلاجماعت پڑھنے لگا۔ صرف جمعہ کے روز نماز جمعہ ادا کرنے مسجد چلا آتا تھا۔ بکریاں اور زیادہ ہوگئیں تو اس میدان سے بھی آگے کھلے علاقے میں چلا گیا۔ اب نماز جمعہ بھی گئی۔ قافلوں سے مدینہ کے حال احوال پوچھ لیا کرتا تھا جو نماز جمعہ ادا کرکے اپنے اپنے دیہات کو جارہے ہوتے تھے۔
ایک دن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ کا حال احوال لوگوں سے پوچھا تو آپؐ کو بتایا گیا کہ اس کی بکریاں بہت زیادہ ہوگئی ہیں اور وہ مدینہ سے دور چلا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ''اے ثعلبہ تم پر افسوس، اے ثعلبہ تم پر افسوس، اے ثعلبہ تم پر افسوس۔جب زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم نازل ہوا کہ خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِم بِہَا۔ یعنی اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھاؤ۔(سورۃ التوبۃ9:103) تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عاملین زکوٰۃ کو مختلف علاقوں میں بھیجا اور زکوٰۃ کی وصولی، نصاب، شرح وغیرہ سے متعلق احکام لکھ کر انھیں دے دیے۔ اس علاقے میں آپؐ نے دو صحابہ کو بھیجا، ایک بنو جہینہ میں سے تھے اور دوسرے بنو سلیم میں سے۔ آپؐ نے فرمایا: ''ثعلبہ اور بنوسلیم کے فلاں آدمی سے زکوٰۃ وصول کرکے لاؤ۔یہ دونوں صحابی مدینہ سے نکلے اور ثعلبہ کے پاس پہنچے۔ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنایا اور خط دکھایا۔ حکم سن کر اس نے کہا: ''یہ تو جزیہ ہے، یہ تو جزیہ کی طرح کا ٹیکس ہے۔ بخدا میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ آپ لوگ جائیں اور دیگر افراد سے وصولیاں کرکے پھر میرے پاس آجائیں۔‘‘
جب یہ صحابہ بنو سلیم کے مسلمان کے پاس پہنچے تو اس نے ان کا استقبال کیا اور خط پر مسرت کا اظہار کیا۔ پھر اپنے اونٹوں میں سے بہترین اونٹ چھانٹ کر پیش کردیے۔ صحابہ نے دیکھا تو کہا: ''یہ تو درست نہیں ہے کہ ہم چن چن کر بہترین مال چھانٹیں، ہمیں حکم ہے کہ درمیانے درجے کا مال وصول کریں۔‘‘ اس نے کہا: ''خدا کے لیے یہ قبول کرلیں کیونکہ میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ راہ خدا میں بہترین مال پیش کروں۔‘‘ اس سے مال لے کر یہ صحابہ دیگر زمینداروں کے پاس بھی گئے اور ان سے بھی زکوٰۃ وصول کی۔اب واپسی پر پھر وہ ثعلبہ کے پاس آئے۔ اس نے کہا: ''ذرا مجھے خط تو دکھاؤ۔‘‘ خط لے کر پڑھا اور پھر وہی بات دہرائی کہ یہ تو جزیہ ہے۔ اس کے بعد کہنے لگا: ''تم لوگ جاؤ میں اس پر مسئلے پر غور کروں گا۔‘‘
یہ دونوں صحابی مدینہ پہنچے تو ان سے کہانی سننے سے قبل ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوسلیم کے صحابیؓ کے حق میں دعائے خیر کی اور ثعلبہ کے بارے میں فرمایا: ''اے ثعلبہ تم پر افسوس ہے۔‘‘ بعد میں ان صحابہ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو پوری کہانی سنائی۔ اس موقع پر سورۃ التوبہ کی یہ آیت نازل ہوئی: ''اور ان میں سے کچھ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد باندھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہمیں مال عطا کیا تو ہم ضرور صدقہ ادا کریں گے اور لازماً صالحین جیسے کام کریں گے مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انھیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بدعہدی کی وجہ سے، جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا، جو اس کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔‘‘ (التوبہ77-57:9)
ثعلبہ کے رشتہ داروں نے یہ آیات سنیں تو ثعلبہ کے پاس گئے اور اس کو سرزنش بھی کی اور یہ بھی بتایا کہ اس کے بارے میں سخت وعید پر مشتمل آیات نازل ہوئی ہیں۔ ثعلبہ اب بکریاں لے کر مدینہ آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس کا صدقہ اور زکوٰۃ قبول کرلیں مگر آپؐ نے فرمایا: ''اللہ نے مجھے تمھارا صدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے۔‘‘ اب ثعلبہ نے سر میں مٹی ڈال لی اور رونے دھونے لگا۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے تجھے بار بار سمجھایا تھا مگر تو نہ سمجھا۔ اب یہ تیرا اپنا عمل ہے جو تیرے سامنے آگیا۔‘‘ثعلبہ روتا دھوتا واپس گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد وہ خلیفۂ رسول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس مال لے کر آیا اور درخواست کی کہ اس کا صدقہ قبول فرمالیں مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا: ''رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارا مال قبول نہیں کیا تو میں کیسے قبول کرسکتا ہوں۔‘‘
حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں بھی ثعلبہ مال لے کر آیا مگر حضرت عمرؓ نے بھی یہی فرمایا: ''رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبرؓ نے تمھارا مال قبول نہ کیا، تو کیا میں تمھارا مال وصول کرلوں؟ آپؓ نے بھی اسے رد کردیا۔ حضرت عثمانؓ خلیفہ بنے تو ثعلبہ پھر حاضر ہوا اور درخواست کی کہ اس کا مال قبول فرمالیں۔ مگر حضرت عثمان غنی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین نے تمھارا مال مسترد کردیا تو عثمان تمھارا مال کیسے قبول کرسکتا ہے۔حضرت عثمان غنیؓکے دور خلافت میں ثعلبہ ذلت ورسوائی کے ساتھ ہلاک ہوگیا۔(تفسیر ابن کثیر: جلد دوم، 374،الاصابۃ: جلد اول، 199،اسدالغابۃ: جلد اول، 237، المعجزات المحمدیۃؐ، اردو ترجمہ معجزات سرور عالمؐ،199-196)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved