تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     31-05-2016

مزید نوٹس

کل کے کالم میں، اپنی ڈائری میں سے کچھ دلچسپ چیزیں آپ کی نذر کی تھیں۔ آج انہی میں سے کچھ اور:
پہلا قدم اٹھانے سے لے کر ایٹم پر تحقیق تک، جو کچھ بھی ہم اس دنیا میں کرتے ہیں، وہ ہمارے دماغ میں دو خلیات کی کامیاب پیغام رسانی پر منحصر ہوتا ہے۔
سٹیون ہاکنگ کہتا ہے کہ ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ہم زیادہ جانتے ہیں۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ کائنات کہاں سے آئی اور کہاں جا رہی ہے۔ کیا اس کا کوئی نقطہء آغاز تھا اور اگر تھا تو اس سے پہلے کیا تھا؟ وقت کیا ہے؟ کیا کبھی وقت بھی ختم ہو جائے گا؟ کیا ہم ماضی کا سفر کر سکتے ہیں؟ فزکس میں کچھ ایسی پیش رفتیں ہوئی ہیں، جو کسی حد تک ان سوالات کا جواب دیتی نظر آتی ہیں۔ ہاکنگ کے مطابق یہ عین ممکن ہے کہ ایک دن یہ سوالات ہمارے لیے اتنے ہی واضح ہو جائیں‘ جیسے کہ زمین کا سورج کے گرد گردش کرنا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن یہ تصورات ہمیں اتنے مضحکہ خیز نظر آئیں، جیسا کہ یہ خیال کہ کرّہء ارض کو ایک بہت بڑا کچھوا اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے۔ ہاکنگ کہتا ہے: یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ان سوالات کا جواب کیا نکلتا ہے۔
سر درد کی وجوہ متنوع ہیں۔ جیسا کہ sinus، نظر کمزور ہونا، ہائی بلڈ پریشر، شوگر، ذہنی دبائو، مائیگرین۔ مائیگرین میں سر میں ٹیسیں اٹھتی ہیں اور اکثر متلی بھی ہوتی ہے۔ ایسے میں مریض روشنی اور شور سے دور خاموش اور تاریک کمرے میں آرام کرنا چاہتا ہے۔ گردن اور کندھے کے پٹھے کمزور ہوں تو اس سے بھی مستقل سر درد ہو سکتا ہے۔ ان سب چیزوں میں مناسب ادویات سے بہت افاقہ ممکن ہے۔ 
خلیوں میں تقسیم کے دوران اور بالائے بنفشی شعاعوں سے ڈی این اے کو بعض اوقات نقصان پہنچتا ہے تو جسم اس کی اصلاح کرتا رہتا ہے۔ ڈی این اے کٹائی کے عمل سے خراب حصوں کو کاٹ پھینکتا ہے۔ سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں سے پیدا ہونے والی خرابی دور کرنے کا ایک طریقِ کار موجود ہے اور تقسیم کے دوران پیدا ہونے والی خرابیوں کا بھی۔ یہ ثابت کرنے والے تین سائنسدانوںکو 2015ء میں کیمیا کا نوبل انعام ملا۔ 
ماں کے پیٹ میں ابتدائی مراحل میں جلد پیدا کرنے والے خلیات خودبخود دوسرے اعضا پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی پر سائنسدان کام کر رہے ہیں۔ انہیں سٹیم سیل کہا جاتا ہے۔ گردہ بنانے کی طرف پیش رفت ہوئی ہے۔ 
ایجادات: چھبیس لاکھ سال پہلے والے ایتھوپیا سے پتھر کے اوزار ملے ہیں۔ اٹھارہ لاکھ سال پہلے آگ اور کھانا پکانے کے آثار ہیں۔ ایک لاکھ سال پہلے فلسطین میں مردے دفنائے جا رہے تھے۔ 64 ہزار سال پہلے ہڈیوں کے اوزار اور 36 ہزار سال پہلے کا لباس ملا ہے۔ 28 ہزار سال پہلے رسی اور 16 ہزار سال پہلے کے چین میں برتن موجود تھے۔ 12 ہزار سال پہلے میسوپوٹامیا میں زراعت ہو رہی تھی۔
دور دراز کے ستاروں کو سمجھنے میں ہماری رہنمائی صرف روشنی کرتی ہے۔ یعنی یہ کہ ان سے کس قسم کی روشنی آرہی ہے۔ 
دماغ دل کو دھڑکنے کا جو حکم جاری کرتا ہے، اس کی کمانڈ کیسے اور کیونکر دماغ میں پیدا ہوتی ہے؟ 
انتہائی عظیم یعنی Super Massive بلیک ہولز کائنات کی موجودہ شکل میں تشکیل کے لیے ضروری تھے۔ یہ کہکشائوں کے مرکز میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے گرد ہی پوری کہکشاں آہستہ آہستہ گھوم رہی ہوتی ہے۔ یہ کہکشائوں کو ان کی موجودہ شکل حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ انہیں Stablizer کہا جا سکتا ہے جو کہ کہکشائوں کو ان کی Form اور Shape دیتے ہیں۔ Super 
Massive بلیک ہول چالیس لاکھ سورجوں کے برابر ہو سکتا ہے۔ سٹیون ہاکنگ کہتا ہے کہ 8 billions years after the big bang, after a long and remarkable run of good luck, we have stars and we have galaxies, slowly rotating aroung black holes۔ اب نظامِ شمسی کی پیدائش ہوتی ہے۔ ہمارا نظامِ شمسی ہماری کہکشاں کے مرکز سے 26 ہزار نوری سال دور ہے۔ گیسی سیارے نظامِ شمسی میں باہر کی طرف ہیں۔ ٹھوس سیارے سورج کے قریب ہیں۔ 
Story of everything سٹیون ہاکنگ کی اچھی دستاویزی فلم ہے لیکن یہاں سے ہم صرف ہم صرف facts لے سکتے ہیں، تجزیہ نہیں۔ یہاں ہر چیز قسمت پر چھوڑ دی گئی ہے۔ مثلاً بگ بینگ کیسے اور کیونکر ہوا؟ نامعلوم یا اسے بھی اچھی قسمت کہہ لیجیے۔ میٹر اور اینٹی میٹر کے ذرات جب ٹکرا کر فنا ہو رہے تھے تو میٹر کے ذرات نسبتاً زیادہ کیوں تھے، جن سے ہماری یہ کائنات بنی ہے؟ جواب، اچھی قسمت۔ اس کے بعد جب ہائیڈروجن ہر طرف پھیل گئی تو ''خوش قسمتی‘‘ سے یہ پھیلائو غیر متوازن تھا۔ اسی وجہ سے کششِ ثقل کو ہائیڈروجن کے بادل اکٹھا کرنے کا موقع ملا ورنہ اگر ہر طرف سے ہائیڈروجن کے ذرات ایک دوسرے پر ایک جیسی قوت لگاتے رہتے تو کبھی بادل گہرے ہوتے اور نہ سورج بنتے۔ ''خوش قسمتی سے زمین کا سورج سے مناسب فاصلہ، خوش قسمتی سے زمین پر زندگی جنم دینے والا مواد موجود تھا۔ خوش قسمتی سے آکسیجن پیدا ہوئی۔ خوش قسمتی سے زمین کا مدار مستحکم تھا اور خوش قسمتی سے خلیات کو آپس میں درست طور پر جڑنا آ گیا۔ اس سب کے بعد بھی ممکن تھا کہ زمین پر سادہ، چند خلیات پر مشتمل جاندار ہی ہوتے لیکن خوش قسمتی سے پیچیدہ جاندار بننے لگے۔ اس کے بعد وہ سب تو ایک ہی جگہ رک گئے۔ سب کی عقل رک گئی اور خوش قسمتی سے انسان اتنا عقلمند ہو گیا کہ اس نے مذہب ایجاد کر لیا۔ خوش قسمتی سے اس زمین پر مقناطیسی میدان پیدا ہوا، اوزون آ گئی۔ خوش قسمتی سے لوہا، کوئلہ، تیل، گیس اور دوسری مفید دھاتیں اتنی تھیں کہ انسان اور جانور اپنی ضروریات پوری کر سکتے۔ خوش قسمتی سے جانداروں کے دماغ میں اولاد کی محبت پیدا ہوئی ورنہ ماں باپ اپنی اولاد کو کھا جاتے۔ 
story of everything میں ہاکنگ کہتا ہے کہ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اگر سورج سے مناسب فاصلے پر مناسب conditions میں زندگی کرّہء ارض پر وجود میں آ گئی تو اس کے بعد یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ خود ہی کائنات کی تخلیق پر غور کرنے لگی۔ 
سورج کا سائز چھوٹا تھا۔ اگر زیادہ بڑا ہوتا تو اسے جلدی ختم ہونا تھا۔ سورج کا سائز اتنا تھا کہ ہمیں بہت وقت ملا زمین پر متشکل ہونے کے لیے۔ ان دس ارب سالوں کے درمیان میں اب چند لاکھ سال میں ہم اپنی زندگی گزار لیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved