سرجری کے ماہرین کہتے ہیں کہ دل کا بائی پاس آپریشن‘ تین سے چار ساڑھے چار گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے‘ لیکن یہ قدرت کا معجزہ ہے کہ ہمارے محبوب وزیر اعظم‘ جناب نواز شریف کا آپریشن تین گھنٹوں سے پہلے ہی مکمل ہو گیا۔ اس کی اطلاع تین گھنٹے پورے ہونے سے قبل ہی‘ ایک وفاقی وزیر نے اہل وطن کو پہنچا دی‘ لیکن جناب وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز‘ ساڑھے تین گھنٹے بعد بھی‘ عوام کو بتا رہی تھیں کہ ان کے والد محترم کا آپریشن کامیابی سے جاری ہے‘ اور دعا کی فرمائش کرتے ہوئے کہا ''خدا کے حضور دعائیں کریں کہ آپریشن کامیاب ہو جائے‘‘۔ والد کے لئے بیٹی کے دل میں جتنی محبت ہوتی ہے‘ کوئی دوسرا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ لیکن کوئی بیٹی سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے‘ تو وہ شعبہ اطلاعات کا سربراہ ہی ہو سکتا ہے۔ یہ شعبہ اطلاعات کی پیشہ ورانہ مہارت اور برق رفتاری کی مثال ہے کہ ڈاکٹروں کے ہاتھ حرکت میں آنے سے پہلے ہی‘ آپریشن کی کامیابی کی اطلاع دے دی گئی۔ سندھ کے مشیر اطلاعات‘ جن کا تعلق حزب اختلاف کی جماعت‘ پیپلز پارٹی سے ہے‘ بھی ابھی دعا کر رہے تھے کہ جناب وزیر اعظم جلد از جلد صحت یاب ہو کر وطن واپس آئیں۔ ایسے امتحان کے موقع پر مخالفین بھی سچے ہوں تو اسی طرح کی دعا کرتے ہیں کیونکہ دلوں کے حال‘ خدا جانتا ہے۔ یہ پاکستان کے سرکاری نظام اطلاعات کا سربراہ ہی کہہ سکتا ہے کہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی کامیاب ہو گیا تھا۔ اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے۔ انٹرپول کی طرف سے ایک عالمی مجرم کی تین مختلف تصویریں جاری کی گئیں کہ اگر یہ دستیاب ہو تو اس کی اطلاع‘ انٹرپول کو دی جائے۔ تصویر جاری ہونے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی‘ پاکستان کے مختلف تھانوں سے جوابات موصول ہو گئے کہ ہم نے تینوں مجرم پکڑ لئے ہیں اور تینوں اپنے جرم کا اقرار کرتے ہیں۔ میں اللہ کے کسی ایسے نیک بندے کے انتظار میں ہوں جو میاں صاحب کے فدائین کو وثوق سے بتائے کہ اسے‘ آپریشن شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے‘ اطلاع مل گئی تھی کہ آپریشن کامیاب رہا۔ اقتدار کے ایوانوں میں ایسے نیک دل انسان کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
دل کا بائی پاس آپریشن‘ اب بہت آسان ہو گیا ہے۔ پاکستان کے ہر اچھے ہسپتال میں ایسے آپریشن ہوتے اور کامیاب رہتے ہیں۔ میرے مرحوم بزرگ اور صاحب طرز صحافی‘ جناب مجید نظامی مرحوم کو‘ دل کا مرض لگا تو وہ سیدھے ایک پاکستانی ہسپتال میں پہنچے اور اپنے دل کے آپریشن کے لئے کہا۔ پاکستانی ڈاکٹروں کو بلا کر فوراً ہی یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔ آپریشن کامیاب رہا اور نظامی صاحب‘ بخیر و عافیت گھر واپس آ گئے۔ یہ کوئی پندرہ بیس برس پہلے کی بات ہے۔ تب دل کا آپریشن اتنی جدید مہارتوں اور روانی سے نہیں ہوا کرتا تھا‘ جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد نظامی صاحب کو پھر دل کا مرض لاحق ہوا تو انہوں نے پاکستان میں ہی آپریشن کروایا۔ ان کا دل بھی بڑا ضدی تھا۔ تیسری بار یہ مرض لگا تو انہوں نے پھر پاکستان کو ہی ترجیح دی۔ چوتھی مرتبہ دورہ پڑا تو موصوف نے چوتھا آپریشن بھی پاکستان میں کرا لیا اور وہ بھی کامیاب رہا۔ اس آپریشن کے بعد‘ نظامی صاحب کئی ماہ تک زندہ و سلامت رہے۔ آخر میں دل ہی بار بار کے آپریشن سے اکتا کر بند ہو گیا۔ اب تو میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ پہلے کے بعد‘ دوسرے آپریشن کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ سرکاری نظام اطلاعات کے سربراہ نے‘ کامیاب سرجری کا اعلان‘ سہ پہر تین بجے سے پہلے ہی کر دیا تھا‘ جبکہ 3 بجکر 52 منٹ پر مریم نواز کا ٹویٹ آیا کہ ''مکمل سرجری میں 60 سے 90 منٹ لگ سکتے ہیں‘‘۔ میاں صاحب 30 منٹ میں دل کے ٹکڑے جمع کر کے‘ گھر پہنچ جائیں تو مجھے اس خبر پر یقین کرنے میں ذرا تامل نہیں ہو گا۔ ہمارے عظیم لیڈر لمحوں میں جو کارنامے انجام دیتے ہیں‘ دنیا کے دوسرے لیڈر وہی کام برسوں میں کرتے ہیں۔ ہمارے لیڈر شیر کا دل رکھتے ہیں‘ جو کبھی ان کی حکم عدولی نہیں کرتا۔ تھوڑا عرصہ پہلے‘ انہیں دل میں کچھ کمزوری محسوس ہوئی تو فوراً ری کنڈیشنڈ کرانے دنیا کی جدید ترین ''ورکشاپ‘‘ میں جا پہنچے۔ کائنات کے ممتاز ماہر نجوم‘ حضرت نجم سیٹھی نے تو ابھی سے کہہ دیا ہے کہ میاں صاحب‘ چند روز میں صحت مند ہو کر‘ وطن واپس آ جائیں گے اور انہیں مزید ترقیاں دیں گے۔ نجم سیٹھی کی پیش گوئی کے ایک گھنٹہ سترہ منٹ بعد‘ مریم نواز نے ٹویٹ کیا ''الحمدللہ‘ آپریشن کامیاب رہا۔ وزیر اعظم کو جلد ہی آئی سی یو میں شفٹ کر دیا جائے گا‘‘۔ جو خوش خبری نجم سیٹھی نے وزیر اعظم کی صاحبزادی سے بھی ایک گھنٹہ پہلے دے دی‘ اس کے بعد تو نجم سیٹھی کا یہ حق بنتا ہے کہ انہیں کرکٹ بورڈ کی سربراہی سے بڑا کوئی عہدہ عطا فرمایا جائے‘ لیکن عطاالحق قاسمی کا عہدہ محفوظ رہنا چاہئے۔ ویسے بھی انتخابات میں دو سال رہ گئے ہیں۔ وہ نگران وزیر اعلیٰ بن کر ماضی کی شاندار کارکردگی دہرائیں گے‘ اور اس مرتبہ ہاتھ صاف ہو جانے کی وجہ سے‘ زیادہ اچھے ''نتائج‘‘ حاصل کر کے دکھائیں گے۔
پاکستان کا ہر لیڈر جب تک زندہ اور برسر اقتدار ہو‘ وہ ''عظیم اور ایثار پیشہ‘‘ ہوتا ہے۔ اس کے اہل و عیال بھی کسی سے کم نہیں ہوتے۔ ہمارے سابق وزیر اعظم‘ یوسف رضا گیلانی اور ان کا پورا خاندان‘ برسر اقتدار تھا تو سارا کنبہ حاجت مندوں کا کام چٹکی بجاتے ہی کر دیا کرتا۔ ہمارے سابق صدر‘ جناب آصف زرداری بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ آج بھی ان کی قابل احترام ہمشیرہ‘ چشم زدن میں ہر ضرورت مند کا کام‘ نوٹوں کی گنتی پوری ہونے سے پہلے نمٹا دیتی ہیں۔ ان کے بھائی جان یہ زحمت ہی نہیں کرتے۔ نوٹ تولنے والا کمپیوٹر‘ کمرے میں رکھا ہو تو کون بے وقوف ہے‘ جو گنتی کی مشقت کرے؟
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے چوتھے دور اقتدار کے لئے‘ دل کو ری کنڈیشنڈ کرا لیا ہے۔ اب وہ ایک تازہ دم دل کے ساتھ‘ ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ اگر میاں صاحب ذرا سا حوصلہ کر کے‘ امریکہ چلے جاتے‘ تو دل کی ری کنڈیشننگ ہوش و حواس میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ امریکہ میں میڈیکل سائنس اتنی ترقی یافتہ ہو گئی ہے کہ مریض بستر میں لیٹ کر سکرین پر آپریشن ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر صرف گوشت پوست کی انجینئرنگ کرتے ہیں۔ میاں صاحب تو لوہے کے انجینئر ہیں۔ وہ اپنے آہنی دل کو جس طرح سے چاہتے‘ براہ راست ہدایات دے کر‘ ری کنڈیشنڈ کرا لیتے۔ پتہ نہیں کتنے لوگ ہیں جو آج بھی دلوں کو ری کنڈیشنڈ کرا کے‘ مشکل ترین کام کر لیتے ہیں؟ خیر کوئی بات نہیں‘ لندن کے ڈاکٹروں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ دلوں کی ری کنڈیشننگ کا ہنر‘ انہیں خوب آتا ہے۔ ویسے بھی انگریز پر ہمارا زیادہ بھروسہ ہے۔ جو چیز وہ ٹھیک کر کے دیں گے‘ نئی سے بھی بہتر ہو گی۔ ہم ملکہء معظمہ کی پرانی رعایا ہیں۔ اب ہم اتنے بے وفا بھی نہیں ہو سکتے کہ دل کی ری کنڈیشننگ کے لئے‘ ملکہء معظمہ کے ڈاکٹروں کو چھوڑ کر‘ بدتمیز امریکیوں کی اطاعت قبول کر لیں۔ ویسے اب حکومت پاکستان کے نخرے دیکھیں تو آپ کو بھی یقین آجائے گا کہ ہم امریکی غلامی سے کتنا تنگ آئے ہوئے ہیں؟ ہم نے اپنے وزیر اعظم کا دل‘ انگریزوں سے ری کنڈیشنڈ کرا لیا ہے۔ اب ہماری ڈپلومیسی کا کمال دیکھئے گا۔ پاناما لیکس کو اوباما لیکس بنا کر‘ کان پکڑا کر نہ بٹھا دیا تو سرکار انگلیشیہ کی مہارت کیا ہوئی؟