تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-06-2016

غنیمت ہے کہ ہمارے پاس یادیں تو باقی ہیں

یہ غالباً1974ء یا1975ء کا سال تھا جب میں پہلی مرتبہ مظفر آباد گیا۔ تب کالجوں میں طلبہ یونینز ہوتی تھیں۔ کل پاکستان بین الکلیاتی تقریبات بھی ہوتی تھیں جن میں مباحثے‘ مذاکرے‘ حسن قرأت‘ سیرت کانفرنسیں اور مشاعرے ہوتے تھے۔ تقاریر میں عنوان اور مشاعرے میں نظم کا عنوان اور غزل کا طرح مصرع دیا گیا ہوتا تھا۔ طلبہ ان مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے دور دراز کے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے آتے تھے۔ ہر سال تقریباً ہر کالج میں ایک بار یہ مقابلے ہوتے تھے اور اول دوم آنے والے طلبہ کو سالانہ ہفتہ تقریبات میں اپنے کالج کی نمائندگی کا اعزاز بخشا جاتا تھا۔ ہفتہ تقریبات میں میزبان کالج کی نمائندگی وہ طلبہ کرتے جنہوں نے اپنے تعلیمی ادارے کی مقامی تقریبات میں انعامات لیے ہوتے تھے۔ مہمان طلبہ کے درمیان مقابلے ہوتے اور میزبان تعلیمی ادارے کی نمائندگی کرنے والوں میں سے کسی ایک کو خصوصی انعام دیا جاتا تھا۔ فروری سے اپریل تک پنجاب بھر میں تقریباً ہر نمایاں کالج ان تقریبات کا اہتمام کرتا تھا۔ بعض چھوٹے کالج بھی اس روایت میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے، مثلاً گورنمنٹ انٹر کالج میاں چنوں۔
بات مظفر آباد سے چلی اور میاں چنوں پر آن رکی۔ تاہم اگر میاں چنوں کو درمیان میں ہی چھوڑ دیا تو برادر خورد خالد منیر آف میاں چنوں پنسلوینیا میں اور احسان شاہد لندن میں برا منائیں گے کہ ان کے شہر کا ذکر آیا اور بات بدل دی گئی۔ ان بین الکلیاتی تقریبات کا ہر شہر اور ہر کالج میں مختلف رنگ ہوتا تھا۔ طلبہ سارا سال ان کا انتظار کرتے‘ تیاری کرتے اور زور وشور سے حصہ لیتے تھے۔ کئی مقررین کو باقاعدہ ''پیشہ ور مقررین‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔ بے شمار طلبہ و طالبات ان سینئر اور بدنام زمانہ مقررین سے بہت کچھ سیکھتے اور ان کو کوستے بھی تھے۔ سیکھنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے تاہم ان کو کوسنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے آتے ہی انعامات کی تقسیم کا عمل تقریب سے پہلے ہی عمل میں آ جاتا۔ ایسے کسی مقرر کی کالج میں آمد پر جونیئر مقررین کہتے کہ چلیں فرسٹ پرائز تو گیا، اب سکینڈ اور تھرڈ پر مقابلہ ہو گا۔ اسی قبیل کے کسی دوسرے مقرر کی آمد ہوتی تو پہلی عرض داشت میں تصحیح کی جاتی اور کہا جاتا کہ لیں جی! دوسرا انعام بھی گیا‘ اب دیکھیں تیسرا اور حوصلہ افزائی کا انعام کسے ملتا ہے۔ جوں جوں ایسے مقررین کی آمد ہوتی جاتی، توں توں جونیئر مقررین کے چہرے اترتے جاتے۔ اس زمانے میں نعمت اللہ چوہدری‘ نعیم رضا ناز‘ چاولہ برادران‘ قمر فاروق چوہدری‘ افضل جالندھری ‘ چوہدری عاشق کنگ‘ زاہد فخری‘ اسلم زار‘ باوا فاروق کاشمیری اور میرے بڑے بھائی مرحوم طارق محمود خان عرف کالے خان کا شمار ایسے ہی مقررین میں ہوتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ قدرت کے ازلی قانون کے جبر نے یہ جگہیں خالی کروا دیں۔ نعمت اللہ چوہدری امریکہ چلا گیا‘ قمر فاروق جرمنی‘ نعیم رضا ناز اب ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتا ہے۔ اسلم زار بھی لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتا ہے اور لاہور ہائی کورٹ بارکا جنرل سیکرٹری رہا ہے۔ عاشق کنگ فیصل آباد میں وکالت کر رہا ہے۔ باوا فاروق کاشمیری مظفر آباد میں نمایاں مقام کا حامل قانون دان ہے۔ برادر بزرگ طارق محمود خان اپنے رب کے ہاں جا چکا ہے۔ زاہد فخری پوری دنیا کو یہ پیغام دیتا پھر رہا ہے کہ بیگم کو کس طرح ''پیکے‘‘ (مائیکے) بھجوانا ہے۔ جیسے ہی سینئر مقررین ایک ایک کر کے غم روزگار کے سپرد ہوتے گئے ان کی جگہوں پر اور نئے لوگ آتے گئے۔ دنیا میں کوئی جگہ تادیر خالی نہیں رہتی۔ ہم لوگوں کی رخصتی پر گو یہ ضرور کہتے ہیں کہ مرحوم کا خلا کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ مرحوم کے گھر کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر زمانہ بڑا ظالم ہے۔ بے شمار لوگوں کو حرفِ غلط کی مانند مٹا دیتا ہے اور بعض خوش قسمت صرف برسی کی حد تک زندہ رہ جاتے ہیں۔ باقی رہے نام اللہ کا۔
ملتان سے جن نوجوانوں کی اگلی جنریشن نے اس فیلڈ میں نام کمایا ان میں منیر چوہدری‘ خلیل الرحمان شاہد‘ احمد بلال اور یہ عاجز شامل تھے۔ ہم جب کسی کالج جاتے تو چھوٹے تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے جونیئر مقررین کے چہرے دیکھ کر ہم سمجھ جاتے کہ ہمیں بددعائیں مل رہی ہیں۔ یہ مکافات عمل تھا‘ ہمیں لوگ دل میں ویسے ہی کوسنے دے رہے ہوتے جیسے ہم دو چار سال قبل اپنے سینئرز کو دے رہے ہوتے تھے۔ ویسے ہم دل ہی دل میں اپنے اس سٹیٹس کو انجوائے بھی کرتے تھے۔
کئی کالجوں میں تقریر کرنے کا مزہ آتا تھا۔ سارا سال ہونے والے علمی اور ادبی پروگرامز کے طفیل کئی کالجوں کے طلبہ کا مزاج بہت زیادہ پالش ہو چکا ہوتا تھا۔ سخن فہمی اور شعر شناسی کا لیول بڑا بلند ہوتا تھا۔ تقریری مقابلوں میں ان کی سوجھ بوجھ بڑی مثالی تھی۔ یہ سب کچھ میاںچنوں کے کالج میں موجود تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میاں چنوں میں ایسے پروگرام نہ صرف ہوتے رہتے تھے بلکہ شہر کے لوگ ان میں بڑے جوش و خروش سے شرکت کرتے تھے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ شہری دلچسپی کا باعث مرحوم غلام حیدر وائیں تھے۔ ان کی خاص دلچسپی اور ایسے پروگرامز کے انعقاد میں خاص تعاون کی بدولت شہریوں کا ایک بڑا حلقہ ان پروگرامز میں نہ صرف دلچسپی لینے لگا بلکہ دامے درمے سخنے مدد بھی کیا کرتا اور ان کو اس کا چسکا بھی پڑ گیا تھا۔ میاں چنوں کا کالج تب محض انٹر یعنی ایف اے/ایف ایس سی تک تھا مگر ذوق و شوق اور علمی معیار کے حوالے سے بے شمار ڈگری کالجوں سے بہتر تھا۔
کل پاکستان بین الکلیاتی تقریبات کے مقبول پروگرام یعنی پنجابی مباحثہ اور مشاعرہ عموماً شام کو ہوتے تھے۔ لوڈشیڈنگ کا تب کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا اور جنریٹر وغیرہ کے شور سے کان آشناہی نہیں تھے۔ میں پہلی بار جب میاں چنوں کالج میں پنجابی مباحثے میں حصہ لینے کے لیے پہنچا تو میرا شمار تب جونیئر ہی نہیں نہایت جونیئر مقررین میں ہوتا تھا۔ میں تب سکینڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ پندرہ سال کے لگ بھگ عمر، اوپر سے المیہ یہ کہ بڑے بھائی مرحوم نے چند موٹی موٹی باتیں بتانے‘ تقریر کے بنیادی نکات بتانے اور دو چار پوائٹ عطا کرنے کے بعد مزید ہر قسم کی مدد سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھو۔ میں نے نہایت مایوسی سے ان کی طرف دیکھا اورکہا کہ آپ فلاں فلاں دوست کو تو پوری پوری تقریر لکھواتے ہیں اور مجھے صرف دو چار پوائنٹس بتا کر ٹرخا رہے ہیں۔ ایک دم ان کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ مجھے پاس بلا کر اپنے ساتھ لپٹا لیا اور کہنے لگے‘ یہ لوگ گزشتہ کئی سال سے یہی کچھ کر رہے ہیں اور آئندہ بھی یہی کچھ کرتے رہیں گے۔ یہ کبھی اپنے پائوں پر نہیںکھڑے ہوںگے۔ یہ سدا دوسروں پر انحصار کرتے رہیں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم اس محتاجی کا شکار ہو۔ سینئرزکو سنو‘ ان سے سیکھو! اور ہاں! ایک بات اور‘ کسی کے طرز تقریر کی نقالی نہ کرنا۔ جو اپنا انداز ہے اسی کو قائم رکھنا، یہ چھاپ نہ لگے کہ تم فلاں مقرر کی کاپی کرتے ہو‘ فلاں کا انداز اپنایا ہے۔ برا یا بھلا‘ جو بھی اپنا نیچرل انداز ہے اس پر قائم رہنا اور اسی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنا۔
تب تقریری مقابلے ہمارے لیے جہاں کپ اکٹھا کرنے کے کام آتے تھے وہیں ہماری مالی مشکلات کا حل بھی ان میں پوشیدہ تھا۔ دو مہینے کا سیزن ہوتا تھا اور ہم ان دو اڑھائی مہینوں میں گھر صرف اس صورت میں آتے تھے کہ میلے کپڑے گھر پھینک جائیں‘ دھلے کپڑے بیگ میں ڈال کر لے جائیں‘ گزشتہ ایک ہفتے کی تقریبات میں شرکت کا بل کالج کے کیشیئر محمود کے پاس جمع کروایا جائے‘ پچھلے بل کی رقم وصول کی جائے اور سید اقبال عباس جعفری صاحب (مرحوم) سے اگلی تقریبات میں شرکت کا معلوم کیا جائے اور ان میں شریک ہونے کے لیے درکار''اتھارٹی لیٹر‘‘ بنوائے جائیں۔ اس کام میں ہم عموماً دو دن لگاتے اور پھر اپنا بیگ اٹھا کر اور سٹوڈنٹ کارڈ لے کر بس پر سوار ہو جاتے۔ دوبارہ واپسی ایک ڈیڑھ ہفتے کے بعد ہوتی۔ ہاں یادآیا‘ روانگی سے پہلے سب سے ضروری کام یہ ہوتا کہ مختلف کالجز کی تقریبات کی تاریخوں کو سامنے رکھ کر ایک مناسب سا روٹ بنایا جاتا تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تقریبات میں اسی طرح شرکت کی جائے کہ کم سے کم فاصلہ طے کر کے زیادہ سے زیادہ کالجز بھگتائے جا سکیں۔ پھر اس ٹائم ٹیبل اور روٹ کے مطابق سفر شروع ہوجاتا تاوقتیکہ اتھارٹی لیٹر ختم ہو جاتے‘ کپڑے میلے ہو جاتے اور جیب میں پیسے کم پڑ جاتے۔ پھر ہم واپس ملتان آ جاتے اور اگلے روز کالج جا کر وہی ایکسر سائز دوبارہ شروع کر دیتے۔
پروفیسر عبدالحمید تگہ مرحوم ہمارے کالج کے اکائونٹس کے معاملات کے انچارج تھے۔ یوں سمجھیں کہ وہ ہمارے انٹرنل آڈیٹر تھے۔ بڑے سخت اور قاعدے ضابطے کے آدمی۔ والد مرحوم کے کولیگ تھے مگر رتی برابر رعایت نہ کرتے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ملتان سے لاہور جانے کے لیے اگر ہم بس پر آدھے کرائے پر سفر کریں تو بل میں کیا لکھیں؟ کہنے لگے جہاں جہاں ریلوے ٹرین جاتی ہے آپ پابند ہیں کہ ریلوے کے کرائے کے حساب سے بل بنائیں۔چھپے ہوئے فارم پر ٹرین کا لکھنا ہو گا۔ ہمیں بسوں کے کرائے کی تفصیلات معلوم نہیں البتہ ریلوے کا ٹائم ٹیبل موجود ہے جس میں سارے کرائے درج ہیں‘ ان میں ہرگز فرق نہ ہو۔ تب گھر سے ریلوے سٹیشن جانے کے لیے کم از کم دس روپے فکس تھے۔ زیادہ فاصلے کی صورت میں دو روپے فی میل ملتے تھے ۔ قلی کریں نہ کریں دو روپے قلی کے ملتے تھے۔ بیس روپے ڈیلی الائونس تھا؛ حالانکہ ہماری رہائش اور کھانا میزبان کالج کے ذمے ہوتا تھا۔ گھر کے قریب چوک شہیداں سے کینٹ ریلوے سٹیشن کے لیے تانگے پر سوار ہو جاتے‘ فی سواری ایک روپیہ کرایہ تھا۔ نو روپے بچنے کی خوشی کا اب اندازہ کرنا ناممکن ہے۔ ہر سفر میں آٹھ روپے تو صرف قلی کی مد میں بچ جاتے تھے۔ پندرہ بیس روپے تانگے میں بچت ہو جاتی ۔ پانچ سات دن کا ڈیلی الائونس ایک سو بیس سے ایک سو چالیس روپے بن جاتا۔ یوں سمجھیںہر ہفتے ڈیڑھ دو سو روپے بچ جاتے۔ چار پانچ کپ ملتے۔ اسی نوے روپے کی کتابیں انعامات میں مل جاتیں۔ دو اڑھائی مہینے کے سیزن میں لگ بھگ دو ہزار روپے جیب میں آ جاتے۔ شیخ مجید کی کنٹین کا سارے سال کا ادھار اتار کر چار پانچ سو روپے بچ جاتے۔ اس میں سے دو تین سو روپے شیخ صاحب کوایڈوانس کی مد میں جمع کروا دیتے اور باقی دو تین سو روپے اگلے چار چھ دن کڑھائی گوشت کھانے میں کام آ جاتے۔ سعید ظفر‘ اسلم ادیب‘ عبداللہ نجیب اور احمد بلال وغیرہ کے ساتھ ہفتہ اچھا گزرتا ۔ پھر پڑھائی شروع ہو جاتی۔
میاں چنوں بس اڈے سے کالج کے لیے تانگے پر سوار ہوئے تو کوچوان نے پوچھا کالج میں کیا کام ہے؟ میں نے کہا رات پنجابی مباحثہ ہے۔ کوچوان کہنے لگا کل رات اردو مباحثہ تھا‘ میں گیا تھا۔ زیادہ مزہ نہیں آیا۔ پنجابی مباحثے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ آج رات پھر آئوں گا۔ مجھے کہنے لگا‘ تقریر اچھی کرنا‘ مجھے اچھا لگے گا کہ تم میرے ساتھ کالج آئے تھے اور اب تقریر بھی اچھی کر رہے ہو۔ کالج اتر کر پیسے دینے چاہے تو اس نے انکار کر دیا‘ کہنے لگا یاد رکھنا‘ تم نے تقریر اچھی کرنی ہے۔
پھر سب کچھ ختم ہو گیا۔میاں چنوں میں غلام حیدر وائیں نہ رہا۔ کالجوں میں یونینز ختم ہو گئیں۔ بین الکلیاتی تقریبات ناپید ہو گئیں۔ اچھے مقرر ختم ہو گئے۔ خوش ذوق سامعین عنقا ہو گئے۔ اسمبلی میں دیکھیں، باقی کیا بچا ہے؟ اس دور کی آخری نشانیاں چل رہی ہیں۔ جاوید ہاشمی‘ شیخ رشید اور اسی دور کے چند اور لوگ۔ باقی ساری پارلیمنٹ گم سم ہے یا پھکڑ پن پر چل رہی ہے۔ افسوس کہ ہمارے پاس تو یادیں ہیں‘ ہمارے بچوں کے پاس یہ بھی باقی نہیں رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved