تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-06-2016

ٹوٹے اور علی اکبر عباس کی طرف سے ہجو

قطع رحمی
اُدھر لندن میں وزیراعظم میاں نوازشریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہونے جا رہی ہے اور قوم ان کے جلد صحت یاب ہونے کی دعائیں مانگ رہی ہے اور اِدھر جناب آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر ان کی ٹینشن اور ڈپریشن میں مزید اضافہ کردیا ہے کہ نوازشریف سے سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ پاناما معاملے کو انجام تک پہنچائیں گے۔ فضل الرحمن سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور یہ کہ احتساب سب سے پہلے وزیراعظم کے خاندان سے شروع کیا جائے۔ اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہو سکتی ہے جبکہ مولانا نے زرداری صاحب کے مثبت ردِعمل کی بشارت دے کر جو کارروائی ڈالی تھی‘ اس پر بھی پانی پھیر دیا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُن کا حق الخدمت بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہو۔ بہرحال‘ یہ امر بہت خوش آئند ہے کہ روزبروز مولانا کی عزت و توقیر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جلنے والوں کا منہ کالا...!
پیاسا پاکستان
پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2015ء تک پاکستان قحطِ آب کا سامنا کر رہا ہوگا جبکہ ملک نے پانی کے دبائو کی پہلی سرحد 1990ء میں عبور کی تھی جبکہ پانی کی نایابی کی سرحد 2005ء میں عبور کر چکا ہے۔ اور اگر یہی صورت حال جاری رہی تو اس کے واضح امکانات ہیں کہ ملک مستقبل قریب میں پانی کی کمی بلکہ قحطِ آب سے دوچار ہو جائے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ریسرچ کی ضرورت ہے جو مختلف سطحوں پر ہو سکتی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس سلسلے میں مربوط ریسرچ کے لیے اس ادارے کے پاس فنڈز ہی نہیں ہیں جو کہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ حکومت سے اس ضمن میں فنڈز مہیا کرنے کی استدعا کئی بار کی گئی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ قربان جائیے اس حکومت کے جو بسوں اور ٹرینوں پر تو دھڑادھڑ اربوں روپے لگاتی چلی جا رہی ہے لیکن اسے اس کی کوئی فکر نہیں کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب قوم کا ہر فرد قطرہ قطرہ پانی کو ترس رہا ہوگا۔ اب تک کوئی چھوٹا بڑا ڈیم بھی نہیں بنایا گیا تاکہ پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوئی سبیل ہو سکے جبکہ زیرِزمین پانی کی سطح بھی خوفناک تیزرفتاری سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
گیم چینجر...؟
اقتصادی راہداری کے جس منصوبے کو گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے اس کے راستے میں رکاوٹوں کی سازش کے حوالے سے تو آئے روز خبریں آتی رہتی ہیں لیکن یہ شاید کسی کو معلوم نہیں کہ خود حکومت اور اس کی مشینری بھی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ بے شک اس منصوبے کی تکمیل خود جمہوریہ چین کے بھی مفاد میں ہے اور وہ اس ضمن میں پورا تعاون بھی کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ایک بے دلی کا شکار بھی ہو رہا ہے کیونکہ اس سلسلے کا جو کام حکومت کے ذمے تھا‘ کرپشن اور سست رفتاری کی وجہ سے یہ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے‘ حتیٰ کہ پاکستان حکومت معاہدے کے برعکس بعض منصوبوں کے لیے فنڈز بھی مہیا نہیں کر رہی۔ بعض حلقے تو اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اس منصوبے کا انجام بھی کالاباغ ڈیم جیسا ہونے جا رہا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اس میں بھی پیسہ چل گیا تھا جبکہ پیسہ لینے والے قابلِ فروخت عناصر اب بھی کلیدی عہدوں پر براجمان ہیں۔
اصل دھماکہ
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا ہے کہ ایٹم بم کا ٹاسک انہیں ضیاء الحق نے دیا‘ چند سال میں بم بن گیا۔ انہوں نے کہا دھماکہ کریں جس پر جنرل صاحب حیران رہ گئے۔ حق تو یہ ہے کہ اس کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا جس نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے کیونکہ بھارت اس وقت دھماکہ کر چکا تھا اور ہنری کسنجر نے بھٹو کی اس بات اور ارادے پر دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں عبرتناک مثال بنا دیں گے اور جو انہوں نے کرکے دکھا بھی دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ تیاری کے وقت سے ہی یہ منصوبہ فوج اور صرف فوج کی کڑی نگرانی میں رہا ہے اور کسی سویلین سربراہ کو اس علاقے میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے ظاہر ہے کہ دھماکہ بھی فوج ہی نے کیا کرایا تھا ورنہ امریکی دھمکیوں پر وزیراعظم نے تو پسینے بہانے شروع کر دیے تھے...!
عزیز اور شاعر دوست علی اکبر عباس نے ہماری ہجو لکھ کر بھیجی ہے۔ آپ بھی لُطف اُٹھائیے۔
نذرِ ظفراقبال...برنگِ ظفراقبال‘ محبت کے ساتھ
گئے نہیں سڑک تلک
خیال ہے فلک تلک
یہ سینک عارضی سا ہے
کہ آگ ہے بھڑک تلک
کھِلا ہے رنگِ آسماں
کھُلی ہوئی دھنک تلک
ہوا کا رابطہ رہے
گلاب سے مہک تلک
ہے رازِ ترکِ دوستی
پڑی نہیں بھنک تلک
بھگت ہیں نام کے فقط
جبین پر تِلک تلک
بڑھے نا توتکار کا
معاملہ ہتک تلک
وہ ٹس سے مس نہیں ہوا
لگائی بھی بڑھک تلک
دکھانا بھائو بھید کا
وہ ناچنا کتھک تلک
کھلے گا بندِ گفتگو
یہ چپ سی ہے جھجک تلک
بجھا بجھا رہے گا دل
دبی دبی کسک تلک
حضور منصفی عجب
دلیل ہے چمک تلک
تعلقاتِ دہر میں
در آئی ہے لپک تلک
وہ آہ و گریہ اک طرف
گئے بلک بلک تلک
بہائو آنسوئوں کا بھی
رُکا رہا پلک تلک
بیانِ حُسن کیا کریں
دکھا ہے اک جھلک تلک
ہو ذکر نان و آب کا
چکھا نہیں نمک تلک
ریاض ومشق نام ہیں
رہے ہمیشہ جھک تلک
یہ تک بری ظفر سی ہے
یہ شاعری ضحک تلک
آج کا مقطع
آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے گزر جائیے ظفر
ہوتا ہے اس نواح میں کیا کیا نہ دیکھئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved