ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع439 ایکڑ (3512 کنال)کمرشل اور رہائشی ز مین کے قطعات جو 2006ء میںاکرم خان درانی وزیر اعلیٰ سرحد کے حکم سے مبینہ طور پرمولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائی لطف الرحمن کے سٹاف کے لوگوں کو غیر قانونی طور پر الاٹ کئے گئے تھے کس طرح ان سے خالی کرائے گئے یہ ایک دلچسپ کہانی ہے:جب یہ زمین خالی کرائی جا رہی تھی تو مولانا کے ساتھیوں نے اس کو مذہبی رنگ دینے کی بھر پور کوشش کی لیکن عدالتوں نے انہیں ناکام بناتے ہوئے صوبہ سرحد کی پولیس، محکمہ مال اور محکمہ زراعت کو اجازت دے دی کہ وہ مشترکہ آپریشن سے ڈیرہ اسماعیل خان کی سونے کے برابر 2740 کنال زمین واقع رکھ زندانی،616 کنال واقع رتہ کولاچی اور رکھ ماہرا کو ان نا جائز قابضین سے خالی کرائیں یہ زمین دس سال کی لیز پر200 روپے فی ایکڑ کے حساب سے الاٹ کی گئی تھی ‘ الاٹیوں میں رحمت اﷲ پی اے ٹو مولانا لطف الرحمن انہیں ملٹری لینڈ ڈی آئی خان سے بھی 200کنال زمین الاٹ ہوئی، حاجی عبید اﷲ ، محمد الطاف ، محمد اشرف، اکرم خان درانی کے کزن عدنان خان انہیں بھی اس زرعی اور کمرشل زمین کے علا وہ ملٹری لینڈ ڈیرہ اسماعیل خان سے مزید200 کنال زمین الاٹ کی گئی ، ان کے علاوہ جمعیت العلمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے بعض اور لوگ بھی تھے۔ مفت کے مال کے ان الاٹیوں نے حکم امتناعی لینے کی پوری کوشش کی جسے28 اکتوبر2009 ء میں خارج کر دیا گیا۔ جس کے بعد ان سب سے یہ رقبہ واگزار کرا لیا گیا ۔
یہ کالم وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف
کے نام ایک کھلے خط کی مانند ہے کیونکہ جنرل راحیل اگر لاہور فورٹریس سٹیڈیم سے ملحقہ سڑک پر واقع بیش قیمت زمین کی دو اہم ترین شخصیات کو کی جانے والی الاٹمنٹ ملکی مفاد کی خاطر منسوخ کر سکتے ہیں تو ڈیرہ اسماعیل خان کی اس سینکڑوں ایکڑ قیمتی ملٹری زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کیوں نہیں کی جا سکتی جو مولانا فضل الرحمن اور اکرم خان درانی نے سیاسی اثرورسوخ کے تحت 2006ء میں حاصل کی تھی ۔۔۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو شکوک و شبہات جنم لیں گے۔ اپنی اس تحریر کے ذریعے عمران خان اور پرویزخٹک کو یاد دلانا چاہوں گا کہ اسفندیار ولی خان کی صوبائی حکومت نے2010 ء میں ایبٹ آباد میں صوبہ بنانے کی تحریک کو کچلنے کیلئے پشاور سے بلائی گئی اپنی سپیشل فورس کے ذریعے ریلی کے شرکاء پر براہ راست سیدھی گولیاں چلاتے ہوئے12 افراد کو شہید کر دیا تھا( اس افسوسناک واقعہ کی ایک ایک تصویر ویڈیو کی صورت میں ہر ٹی وی چینل کے پاس محفوظ ہے)۔۔۔۔ابھی تک عمران خان کی صوبائی حکومت نے خود کو جمہوریت کی علمبردار کہلانے والی ولی خان اینڈ کمپنی کے ایبٹ آباد میں کئے جانے والے اس قتل عام کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے لاہور ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کوفائرنگ سے ہلاک کیا گیا تھا۔ اگر پرویز خٹک اور عمران خان اسفند یار ولی خان اینڈ گروپ کو اس قتل عام میں گرفتار نہیں کر سکتے
تو ما ڈل ٹائون لاہور پر شور کیوں؟۔ مولانا فضل الرحمن اور اکرم خان درانی کے خلاف ناجائز الاٹمنٹ کا یہ معاملہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو قانونی اور سیا سی طور پر اٹھانا ہی ہو گا اگر اسلام سے عقیدت رکھنے والے غیور پٹھانوں سمیت جلد بھول جانے والے پاکستانیوں کو یاد نہیں رہ گیا تو انہیں2008ء میں لئے چلتے ہیں جب مولانا کے آدمیوں کو الاٹ کی جانے والی اس زمین کی داستانیں ملک بھر کے اخباروں میں شائع ہوئی تھیں جنہیں سرکاری ریکارڈ اور اخبارات کی فائلوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
اب ایک دوسری داستان پیش خدمت ہے 2004-5 ء میں جنرل پرویز مشرف ملک کے حکمران تھے تو آرمی ہائوس راولپنڈی میں تعینات ان کے گھریلو اور سکیورٹی سٹاف کو ‘جن میں نان کمیشنڈ، جونیئر کمیشنڈ اور کمیشنڈ افسران شامل تھے‘زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ کیلئے آرمی ہائوس سے ڈائریکٹر ملٹری لینڈ کو خط لکھا گیا کہ ان سب کے رینکس کے حساب سے انہیں زرعی زمینیں الاٹ کی جائیں ان میں سے کچھ لوگوں کو تو فوری طور پر بہاولنگر اوربہاولپور میں زرعی رقبے الاٹ کر دیئے گئے اور باقی لوگوں کیلئے ڈیرہ اسماعیل خان میں زرعی زمین الاٹ کرنے کے احکامات جا ری ہوئے لیکن اس وقت کے صوبہ سرحد میں چونکہ ایم ایم اے کی جانب سے جمعیت العلمائے اسلام کے اکرم خان درانی وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے یہ خط مولانا فضل الرحمن کے حوالے کر دیاجس پر انہوں نے فوج سے اپنا حصہ بقدر جثہ مانگ لیا جس سے یہ معاملہ لٹکتا چلا گیا کیونکہ مولانا اپنے حصے کے بغیر اکرم درانی کو اس الاٹمنٹ لیٹر کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دے رہے تھے۔ اس طرح آرمی ہائوس کے ملازمین کی یہ فائل درانی صاحب کی خصوصی دراز کے اندر رکھ دی گئی تو دوسری جانب جنرل مشرف کے ساتھ ہر وقت جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے روزانہ سخت ترین ڈیوٹی دینے والوں کی جنرل صاحب سے درخواستیں بھی بڑھتی جا رہی تھیں لیکن مولانا تھے کہ اپنا حصہ لینے پر تلے ہوئے تھے جس پرکئی ماہ کی کوششوں اور میٹنگوں کے بعد با لآخر فیصلہ ہو گیا کہ اس قیمتی زمین میں سے آدھا حصہ مولانا فضل الرحمن کے آدمیوں کو بھی الاٹ کیا جائے گا۔ لاہور کے ایک اردو اور انگریزی اخبار میں کوئی آٹھ سال قبل ایک سلسلے وار مضمون میں ا س الاٹمنٹ کے مکمل ثبوت بھی دیئے گئے تھے لیکن ابھی تک کسی کے کان پر جوں تک بھی نہیں رینگی کہ ملٹری کی یہ بارہ سو کنال زمین ان لوگوں نے کس قانون کے تحت الاٹ کرائی ہے۔ 2006ء میں چھ ہزار کنال زمین ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا فضل الرحمن کے انتہائی قریبی ساتھیوں کو الاٹ کی گئی تھی۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میںگورنر کے پی کے اور مولانا فضل الرحمن اور نوازلیگ کی مشترکہ کاوش سے ترتیب دیئے جانے والے جلسہ عام میںوزیر اعظم میاں نواز شریف نے عمران خان کو للکارتے ہوئے خبردار کیا کہ اب میری اور مولانا فضل الرحمن کی جوڑی بن گئی ہے۔ہم بھائیوں کی یہ جوڑی تم سے2018ء میں کے پی کے کی حکومت بھی چھین لے گی۔ جبکہ اسی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اکرم خان درانی نے عمران خان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ کے پی کے میں تمہاری لنگڑی لولی حکومت گرانے کیلئے جیسے ہی نواز شریف نے اسحاق ڈار کو اشارا کیا ایک ماہ میں تمہیں صوبے سے بھگا دیں گے۔۔۔۔چلو اتنا تومان لیا کہ عمران خان کی کے پی کے کی حکومت سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی طرح مضبوط نہیں بلکہ کچھ جماعتوں کو ساتھ ملا کر لولی لنگڑی حکومت ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ تین سال میں لنگڑی لولی حکومت کی کارکردگی باقی صوبوں کی نسبت پنجاب جیسی یک جماعتی مطلق العنان حکومت سے کہیں بہتر ہے۔ سوچئے! اگر کے پی کے میں تحریک انصاف کی تین جماعتوں کے سہارے سے قائم ہونے والی لولی لنگڑی حکومت کی بجائے پنجاب کی طرح بھر پور دو تہائی اکثریت والی حکومت ہوتی تو اس کی کارکردگی ان سب سے کس قدربہتر ہو تی۔ !!