بھارت کے ایک طالب علم نے کمال کر دکھایا ہے۔ یہ کمال ہے ہی ایسا کہ آپ بھی پڑھیں گے تو دنگ رہ جائیں گے اور (اپنے) دانتوں تلے انگلی داب کر رہ جائیں گے۔ یہ تو آپ نے سُنا ہی ہوگا کہ فلاں طالب علم نے امتحان میں شاندار مارکس لیے اور بورڈ یا جامعہ میں ٹاپ کرلیا۔ یہ بھی ضرور سُنا ہوگا کہ بعض طلباء ایسے پڑھاکو ہوتے ہیں کہ اُنہیں کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ کتابوں سے وہ کیڑوں کی طرح چمٹے رہتے ہیں۔ مگر کبھی آپ نے سُنا ہے کہ کوئی طالب علم سات میں سے پانچ مضامین میں فیل ہوگیا ہو ... اور کسی ایک مضمون میں اُس نے پورے یعنی 100 مارکس لیے ہوں؟
''ڈانڈیا برادری‘‘ نے ہمارے سَر پر ڈنڈا رسید کردیا ہے۔ آپ کو بھی اپنے سَر پر ڈنڈا پڑتا محسوس ہوگا۔ بھارت کی ریاست گجرات میں بارہویں جماعت کے امتحانی نتائج طشت از بام ہوئے تو لوگ حیران رہ گئے۔ مگر لوگوں سے زیادہ تو ماہرین تعلیم حیران و پریشان ہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ معاشیات میں 100 فیصد مارکس لانا انتہائی دشوار، بلکہ ناممکن ہے۔ ریاضی اور اکاؤنٹنگ وغیرہ میں تو ایسا ممکن ہے کیونکہ یہ پرچے دو اور دو چار والے آئٹم ہیں۔ معاشیات کے پرچے میں بڑا یا نمایاں حصہ تو لکھنے کا ہوتا ہے۔ ایسے میں تھوڑے بہت مارکس کٹ کٹا ہی جاتے ہیں۔
بارہویں جماعت کے سالانہ امتحان میں فیل ہونے والے طالب علم کا نام صیغۂ راز میں رکھا گیا ہے۔ اُس نے سنسکرت میں 4، نفسیات میں 5، انگریزی میں 12، گجراتی میں 13 اور عمرانیات میں 20 مارکس لیے ہیں۔ واضح رہے کہ گجرات میں نویں کا امتحان اسکول میں لیا جاتا ہے اور دسویں کا امتحان بورڈ لیتا ہے۔ گیارہویں جماعت کا امتحان پھر سکول میں لیا جاتا ہے اور بارہویں کا امتحان بورڈ لیتا ہے۔ یعنی کالج گیارہویں کے بجائے تیرہویں جماعت سے شروع ہوتا ہے!
مذکورہ طالب علم نے معاشیات میں 100 کے علاوہ صرف جغرافیہ میں 35 یعنی پاسنگ مارکس لیے ہیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ گجراتیوں کے بارے میں سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اول درجے کا کاروباری ذہن رکھتے ہیں۔ ہر معاملے میں سُود و زیاں کا غیر معمولی حد تک خیال رکھنے والی، ایک پیسہ بھی غیر ضروری طور پر خرچ نہ ہو اس نکتے پر خاص دھیان دینے والی گجراتی برادری کے کسی طالب علم سے اور کیا توقع وابستہ کی جاسکتی تھی؟
بھارتی گجرات کے جس طالب علم کا حیران کن امتحانی نتیجہ طشت از بام ہوا ہے اس نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، اپنی ریاست اور اس کی مجموعی سوچ کی لاج تو رکھ ہی لی ہے۔ کسی فلمی منظر میں تیز یا دھماکے دار میوزیکل ٹچ موقع کی مناسبت سے دیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح گجرات کے اس طالب علم نے وہیں میوزک دیا ہے جہاں دینا چاہیے تھا۔
سنسکرت تین چار ہزار سال پرانی زبان ہے۔ بھارت میں اس زبان کے سمجھنے والے خال خال ہیں۔ یہ بول چال کی زبان ہے نہ علم و ادب کی۔ اور تجارتی سطح پر تو اس کے استعمال کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ایسے میں اس کا سیکھنا عجیب ہی لگتا ہے۔ گجرات کا طالب علم ایسی زبان میں مہارت کیوں حاصل کرتا جس کی علمی، عملی اور تجارتی قدر نہ ہونے کے برابر ہے؟ اس لحاظ سے سوچیے تو 4 مارکس حاصل کرنا انتہائی کافی ہے! نفسیات تو ان کا موضوع ہے جو سود و زیاں کی سوچ سے بلند ہوکر سوچتے ہیں۔ یہ ذہن اور سوچ کو سمجھنے کا علم ہے اور ہم سبھی جانتے ہیں کہ گجراتی برادری یہ سب کچھ پسند نہیں کرتی! پختہ کاروباری ذہنیت رکھنے والوں کا خالص جمالیاتی اندازِ فکر سے بالعموم کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے میں کیونکر سوچا جاسکتا تھا کہ نفسیات میں زیادہ مارکس لیے جاسکتے ہیں؟ 5 بھی بہت ہیں۔ انگریزی میں 12 مارکس لینا بہت سوں کو نااہلی کی دلیل لگتا ہو مگر سچ یہ ہے کہ جس کے ذہن میں
کاروبار سمایا ہوا ہو اس کے لیے انگریزی ونگریزی کچھ نہیں ہوتی۔ جسے دو کے چار اور چار کے آٹھ کرنے ہوں اسے انگریزی کا کیا اچار ڈالنا ہے! اب آئیے گجراتی (زبان) کی طرف۔ اس میں 13 مارکس ملے۔ اب جو رات دن گجراتی بولتا ہو وہ گجراتی میں زیادہ مارکس لاکر کیا کرے گا؟ یعنی گجراتی میں جو قابلیت ثابت کرنی تھی وہ تو پہلے ہی ثابت ہوچکی ہے کہ ذہنی ساخت کا حصہ ہے۔ عمرانیات میں 20 مارکس کا ملنا یہ ثابت کرتا ہے کہ لوگوں سے ملنا جلنا، بہتر تعلقاتِ کار کا حامل ہونا اس طالب علم کی نظر میں نفسیات، سنسکرت، انگریزی اور گجراتی سے زیادہ اہم ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ دھندے میں لوگوں سے میل جول کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ ان کے خیالات جاننے اور زبان کی باریکیوں پر غور کرنے کی! اب آئیے آخری پرچے کی طرف۔ معاشیات کے بعد صرف جغرافیہ میں جناب کامیاب ہوئے ہیں۔ کیوں نہ ہوتے؟ دھندے میں یہ تو معلوم ہونا ہی چاہیے کہ ''مقاماتِ آہ و فغاں‘‘ کہاں کہاں واقع ہیں! ''کمرشل جیوگرافی‘‘ باضابطہ مضمون ہے کیونکہ کاروبار اور جغرافیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
گجرات کے نامعلوم طالب علم نے دنیا کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسکول میں وہی چیز سیکھنی چاہیے جو کام کی ہو اور امتحان کی تیاری بھی اُسی مضمون میں کرنی چاہیے جو زندگی بھر کام آنے والا ہو۔ اگر اس طالب علم کا ''پیغام‘‘ عام کردیا جائے تو لاکھوں بلکہ کروڑوں طلباء کا بھلا ہوگا۔ جو طلباء رات دن رٹّا لگاکر تمام مضامین میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اس بات کی تحریک ملے گی کہ صرف کام کے چند مضامین میں کامیاب ہونے پر فوکس کریں۔ اور بہتر تو یہ ہے کہ جو مضمون زندگی بھر کام آنے والا ہو صرف اسی میں 100 فیصد مارکس لینے کی تیاری کو ترجیح دی جائے۔
ہمارے ہاں بھی طلباء تمام مضامین سیکھ تو سکتے نہیں اس لیے رٹّا لگانے پر توجہ دیتے ہیں۔ اگر بھارتی گجرات کے طالب علم کا امتحانی نتیجہ سامنے رکھا جائے تو رٹّا لگانے سے ہمارے طلباء کو بھی نجات مل سکتی ہے۔ ہمارے طلباء بھی فزکس، کیمسٹری، بایولوجی، ہائر میتھس اور انگریزی وغیرہ میں بھرپور کامیابی کے لیے رات دن کتابوں میں سَر کھپاتے رہتے ہیں اور اس سے ان کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اچھا ہے کہ وہ ایک آدھ مضمون کو دل کی گہرائی سے اپنا بنالیں، لگے لگالیں اور باقی تمام ''فضول‘‘ مضامین پر توجہ دینا ترک کردیں۔
معاشیات میں 100 فیصد مارکس لینے والے طالب علم نے عملاً یہ پیغام دیا ہے کہ اسکول میں بھلے ہی سو طرح کے علوم و فنون سکھائے جاتے ہوں، ہماری توجہ کا مرکز صرف وہ مضمون ہونا چاہیے جس کا تعلق مال بنانے سے ہو! اب آپ اسے بنیا نیتی کہیے یا چانکیہ نیتی، حقیقت کی دنیا میں کام آنے والا مضمون تو معاشیات ہی ہے۔ گجرات کے ''ایجوکیشنل ہیرو‘‘ نے بھی تو یہی سوچا ہوگا کہ جو کام کی چیز ہے وہی پڑھیے اور نفسیات وفسیات کو اگلے جنم پر اٹھا رکھیے!