تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     03-06-2016

پسندیدہ بجٹ تقریر

150 کلومیٹر کی رفتار سے آندھی آئی۔ اسلام آباد کے سینکڑوں درخت، شیشے، سائن بورڈ اور 15 سے زیادہ جانیں لے کر گزر گئی۔ آواز سے بھی تیز رفتار والا یہ طوفانِ باد و باراں محض ایک گھنٹے کا تھا۔ پوٹھوہار کے لاکھوں لوگ ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتے رہے۔ اسی اثنا میں ٹھنڈی ہوا سے یار لوگوں کی آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ملک کے وزیر خزانہ صاحب لائیو تقریر کر رہے ہیں۔ دانش مند وزیر نے فرمایا: پاناما لیکس والوں کے چہرے پر نخوست برستی ہے‘ اس لئے آج اعلان کرتا ہوں‘ پاناما والی ڈکیتی کی ساری رقم 45 دن میں پاکستان واپس لاؤں گا۔ میں پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ آج سے غریبوں پر ٹیکس کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ ڈیزل، پٹرول اور گیس پر 50 فیصد سے زیادہ سیلز اور دوسرے سارے ٹیکس ختم کر دیئے گئے ہیں۔ صدر ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس، بیوروکریسی اور پارلیمنٹ کی عیاشی ختم۔ حکومت کے اخراجات اور غیر ترقیاتی سرکاری اخراجات پر 90 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ جو تنخواہ کے پاجامے میں گزارا نہیں کر سکتا وہ عہدہ چھوڑ دے۔3 دن بعد رمضان کا آغاز ہونے والا ہے‘ رمضان پیکیج کا اعلان کرتا ہوں۔ یورپ، امریکہ کی طرح ہر سپر سٹور، سپر مارکیٹ اور بڑے شاپنگ سینٹر کا مالک پابند ہو گا کہ وہ پکوڑے، چاٹ، شربت، کھجور کی قیمت آدھی کر دے۔ دال، روٹی، دودھ حکومت مفت مہیا کرے گی۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں مصنوعی اضافہ ختم۔ عوام دوست سرکار نہ پیچھے ہٹے گی‘ نہ کسی سے ڈریں گے۔ کرائے 75 فیصد مصنوعی ہیں‘ مصنوعی اضافہ ختم۔ میںکشکول توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔ ''بھیک سے ملک بھی چلے ہیں کبھی؟ زندہ قوموں کا یہ شعار نہیں‘‘ اس لئے بیرونی قرضے لینے کا ڈرامہ ختم۔ نوٹ چھاپنے والی سرکاری مشینیں کاغذی کرنسی چھاپ چھاپ کر بوڑھی ہو چکی ہیں۔ آج کے بعد افراطِ زر اور مہنگائی بند۔ مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہو گی۔ کسان کے لئے بجلی، زرعی آلات، کھاد اور بیج مفت ہو گا۔ پینشنر خواتین و حضرات کو مبارک ہو‘ ان کی پینشن آدھی تنخواہ کے برابر ہو گی۔ آئندہ کوئی سرکاری ملازم یا حکمران علاج کے لئے باہر نہیں جائے گا۔ سارے دیہی ہسپتالوں میں کل سے ڈاکٹر اور دوائیاں موجود ہوں گی۔ شہری ہسپتال ''عالمی درجے‘‘ کی سہولیات دیں گے۔ تعلیم بی اے تک مفت۔ ڈگری یافتہ بے روزگار ریاست کے خزانے سے وظیفہ لیں گے‘ یا انہیں ریاست ایک سال میں روزگار دینے کی پابند ہو گی۔ احتجاجی نرسیں اور ٹیچرز ہمارا فخر ہیں، ان کے سارے مطالبا ت منظور۔ ایپکا اور ینگ ڈاکٹرز اپنا کام ڈبل کر دیں‘ سب کو ڈبل ایڈوانس تنخواہ ملے گی۔ 
پھر دانش مند وزیر نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور کہا: تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے مالک آج میں نے اقبال کے خواب کی تعبیر دے دی۔ پھر بولے: میں قائد اعظم کے سامنے سرخرو ہو گیا۔ یاد رکھو میری دنیا کے غریبو! اس بجٹ سے ہم نیا سفر شروع کر رہے ہیں۔ جس کھیت سے دہکاں کو روٹی میسر نہیں آئے گی‘ ہم اس کھیت کا ہر خوشہء گندم جلا کر راکھ کر دیں گے۔ اتنی دیر میں آنکھ کھل گئی۔ بجٹ تقریر سکرین پر سامنے تھی۔ وہی بجٹ جو پاکستان کے لوگوں کے لئے پسندیدہ بجٹ ہے۔ آئیے بجٹ تقریر اکٹھے سنتے ہیں۔
میرے انتہائی لذیذ ہم وطنو! محترم جناب آئی ایم ایف صاحب معاف کیجئے گا۔ محترم جناب ایاز صادق صاحب! میں آج کا مشکل ترین بجٹ بہت کم وقت میں آپ کے سامنے لے کر آیا ہوں۔ آپ میں سے جو لوگ کمپیوٹر پر بجٹ بنا سکتے ہیں‘ وہ میری مشکل جانتے ہیں‘ لیکن آئی ایم ایف نے کمپیوٹر پر جو بجٹ بنا کر بھیجا تھا‘ میری وزارت اسے ''کٹ‘‘ اینڈ ''پیسٹ‘‘ کرتے کرتے تھک گئی۔ پھر اس ایوان میں بیٹھے 342 لوگوں کے لئے موٹی موٹی بجٹ کتابیں چھاپنا آسان کام نہیں‘ حالانکہ سب جانتے ہیں، اکثر ارکان یہ کتابیں کھولتے تک نہیں۔ ایک طرح سے یہ ان کی مہربانی ہے‘ کیونکہ قومی اسمبلی میں صفائی کے عملے کو چار پانچ ٹن ردی بیچ کر کم از کم ایک اعزازیہ جتنی رقم مل جاتی ہے۔ اس طرح صفائی کا عملہ اپنے آپ کو میری وزارتِ خزانہ کے برابر سمجھتا ہے۔ اپنی وزارت کو آئی ایم ایف کا ٹائپ کردہ بجٹ چھاپنے پر میں ہمیشہ ڈبل، ٹرپل اعزازیہ دیتا ہوں۔ اسی فراخ دلی کے ساتھ‘ جس فراخ دلی سے میرے بیٹے ریال اور ڈالر میں مجھے قرضِ حسنہ بھجواتے ہیں۔ میں بجٹ کی تیاری کے لئے بین الاقوامی ماہرین، ٹام، ڈک اور ہیری کا شکر گزار ہوں‘ جنہوں نے چند کروڑ ڈالر لے کر اربوں کھربوں کا بجٹ میری غریب قوم کے لئے بنایا۔ اسی لئے اس بجٹ میں سب سے پہلے وہ غریب صنعتکار توجہ کے مستحق ٹھہرے جو ملک کے بینکوں سے قرضے لے لے کر تھک گئے‘ اور بینک ان کے قرضے معاف کر کر کے تھک گئے‘ مگر ان کے بیمار صنعتی یونٹ کو نہ کوئی شرم آتی ہے‘ نہ کوئی حیا۔ حالانکہ ان بیچاروں نے بنگلہ دیش، برازیل، برطانیہ، ترکی، چین، پاناما اور دبئی میں جو سرمایہ کاری کی‘ اس کا نتیجہ قوم کے سامنے ہے۔ نہ ٹیکس، نہ کوئی ڈیوٹی اور ایک ایک آف شور کمپنی نے ان کی 50,40 نسلوں کا بھلا کر دیا۔
جناب سپیکر جہاں تک کسانوں کا تعلق ہے‘ میں نے پچھلے 3 بجٹوں میں بھی ان کے گونگلوں سے مٹی جھاڑ دی تھی۔ اس کے باوجود یہ گونگلو پیدا کرنے سے باز نہیں آتے۔ معاف کیجیے گا‘ میں کہنا چاہ رہا تھا‘ کسان حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے سے باز نہیں آتے‘ اور مظاہروں کے حوالے سے ہمارا جمہوری ریکارڈ قوم کے سامنے ہے۔ جس کو شک ہو وہ ماڈل ٹاؤن کا مظاہرہ، شاہراہِ دستور کا دھرنا، نابیناؤں، نرسوں اور ینگ ڈاکٹرز کے مظاہرے دیکھ لیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے‘ جمہوریت کا کام محض آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن کے مطالبات سننا ہے‘ یا سٹیل ملز کے ورکروں کی تنخواہیں ادا کرنے کا مطالبہ ماننا ہے‘ یا چوہوں اور گندگی سے بھرے ہوئے سرکاری ہسپتالوں میں قیمتی دوائیاں رکھ کر انہیں ضائع کرنا ہے۔ آپ یقین کریں ہم پاکستان کو سریے کا ٹائیگر بنا کر چھوڑیں گے۔ میرا مطلب ہے ایشیا کا ٹائیگر۔ شرپسندی جمہوریت کو بالکل پسند نہیں ہے۔ نہ ہی یہ شرپسندانہ خیالات کو برداشت کرتی ہے۔ اسی لئے جمہوری صدر نے تین روز پہلے اپنی تقریر میں پاکستان پر ڈرون حملے کا ذکر نہیں کیا‘ حالانکہ ڈرون اور وہ بھی امریکی‘ پاکستان میں در اندازی کرکے صرف 400 کلومیٹر ہماری سرحد کے اندر بلا اجازت اڑتا رہا‘ اور ہمیں خوش ہونا چاہیے کیونکہ ڈرون واپس بھی تو چلا گیا۔ شکر کریں‘ جو ڈرون آیا تھا اس کے آنے جانے کا خرچہ آئی ایم ایف نے ہمارے کھاتے میں نہیں ڈالا۔ پینشنر حضرات کے لئے خوشخبری ہے‘ حکومت بہت جلد ان کے لئے چین کی بنی ہوئی تسبیح اور ترکی ٹوپی منگوانے والی ہے‘ تاکہ سینئر سیٹیزن اور بزرگ پینشنر کبھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔
بجٹ عوام دوست تھا، ہے اور رہے گا۔ جس کو شک ہو وہ آئی ایم ایف سے پوچھ لے۔ رمضان پیکیج کے سلسلے میں بھی اہم اعلان سن لیں۔ رمضان کے دوران ہم مفتی پوپلزئی اور مفتی منیب صاحب‘ دونوں کو کہہ رہے ہیں غریب عوام کو ایک چاند دکھا دیں۔ اور اگر ہم نے اکلوتا چاند چڑھا دیا تو غریب اور امیر کا فرق مٹ جائے گا۔ مالک اور مزدور، آجر اور اجیر بلکہ محمود اور ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے۔ گنہگار سے گنہگار یاد آ گیا‘ وہی جو وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگتا ہے... انوکھا لاڈلا... کھیلن کو مانگے چاند۔
اب میں آخر میں ملک کی 51 فیصد آبادی‘ یعنی خواتین ممبران کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ انہیں بجٹ میں بھرپور نمائندگی دی جا سکے۔ تمام خواتین سے درخواست ہے کہ منہ طرف کیمرہ شریف کر کے میرے لئے زوردار ڈیسک بجائیں‘ کم از کم اتنی دیر جتنی دیر میں نے تقریر کی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved