خدا وزیراعظم کو مکمل صحت دے۔ وہ ایک معمولی شخصیت نہیں! عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت کے سربراہِ حکومت ہیں، بیس کروڑ افراد کے سرپرست، کفیل اور مربی ہیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت مملکت کے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ ان بیس کروڑ افراد کے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ ان بیس کروڑ افراد کو نان نفقہ‘ سر چھپانے کے لیے چھت اور تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا مہیا کرنا وزیراعظم ہی کا درِدِ سر ہے۔
خدا وزیراعظم کو مکمل صحت عطا کرے، وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کے فرماں روا ہیں۔ یہ اعزاز ملک کا نہیں، اس لیے کہ فرماں روا آتے جاتے رہیں گے، ملک قائم رہے گا۔ یہ اعزاز وزیراعظم کا ہے کہ مسلم دنیا کا نمایاں ترین منصب ان کے بخت کو نصیب ہوا ہے۔ ہمارے بیس کروڑ افراد میں سے انہی کے سر کو چنا ہے، وہ خوش قسمت ہیں! بسترِ علالت پر پڑے ہوئے مریض کا دل رقیق ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے آپریشن سے پہلے اور آپریشن کے بعد یہ ضرور سوچا ہو گا کہ اتنا بڑا اعزاز ملنے کے بعد انہوں نے کیا کیا ہے۔ عرصۂ اقتدار کی بیلنس شیٹ میں واجبات کیا ہیں اور اثاثے کون کون سے ہیں! انہیں یقینا یہ احساس ہوا ہو گا کہ اتنا بڑا اعزاز ملنے کے بعد جو کچھ انہیں کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کر سکے، آپریشن سے پہلے انہوں نے پروردگار کے حضور دعا کی ہو گی کہ انہیں مزید مہلت ملے تا کہ وہ سربراہی کا حق ادا کر سکیں تا کہ بیس کروڑ افراد کا تن ڈھانپنے، سر چھپانے اور پیٹ بھرنے کے لیے وہ موثر اقدامات کر سکیں تا کہ وہ زور آوروں کا ہاتھ پکڑ سکیں اور مظلوموں کی داد رسی کر سکیں۔ تا کہ قانون توڑنے والے بڑوں کو نشانِ عبرت بنا سکیں اور مجبوروں کی حمایت کر سکیں۔
خدا وزیراعظم کو مکمل صحت دے، وہ ایک ایسے خاندان کا چشم و چراغ ہیں جو مشرقی قدروں پر یقین رکھتا ہے اور مذہبی شعائر کا پابند ہے۔ وزیراعظم نے آپریشن سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کی جو ان کی نیکو کاری کا مظہر ہے۔ وہ خوش بخت ہیں کہ ان کی والدہ ماجدہ کا سایۂ عاطفت ان کے سر پر قائم ہے۔ ان کی والدہ محترمہ نے ان کی تندرستی کے لیے دعائیں کیں۔ ان کے متعلقین نے یقینا اوراد و وظائف کیے ہوں گے۔ اللہ کی راہ میں صدقات دیے ہوں گے، گڑ گڑا کر دعائیں مانگی ہوں گی۔ منتیں مانی ہوں گی۔
خدا وزیراعظم کو مکمل صحت عطا کرے، دیارِ غیر میں، وطن سے ہزاروں کوس دور، ہسپتال کے ایک کمرے میں، بستر پر پڑے، انہوں نے اُن لاکھوں افراد کے بارے میں ضرور سوچاہو گا جو ان کی ذمہ داری میں ہیں مگر انہیں برطانیہ تو کیا، پاکستان میں بھی علاج کی سہولیات میسر نہیں! ہزاروں نہیں، لاکھوں بستیاں ایسی ہیں جہاں ہسپتال تو کیا، ڈسپنسری تک موجود نہیں اور اگر کہیں کسی گذشتہ حکومت نے ڈسپنسری منظور کی تو موجودہ حکومت نے بیس لاکھ روپے کی حقیر رقم تک نہیں دی! وزیراعظم نے ضرور سوچا ہو گا کہ وہ کرۂ ارض کے بہترین ہسپتال میں، ماہر ترین جراحوں کے زیر علاج ہیں جب کہ لاکھوں افراد، جن کے لیے وہ مالکِ روزِ جزا کے سامنے جواب دہ ہیں، عطائیوں، نیم حکیموں، مزاروں، ملنگوں اور عاملوں کے رحم و کرم پر ہیں، کتنے ہی دل کے مریض اُس ٹریفک میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو حکمرانوں کے شاہی جلوس کے لیے رُکی ہوئی ہوتی ہے۔ کتنی ہی حاملہ عورتیں پہاڑی راستوں اور صحرائی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے دور افتادہ شفا خانوں تک پہنچنے کی حسرت میں ختم ہو جاتی ہوں گی۔
خدا وزیراعظم کو مکمل صحت عطا کرے‘ کیا عجب انہوں نے اِس امر پر اپنے دل کے کسی گوشے میں تاسف کیا ہو کہ انہیں علاج اپنے ملک ہی میں کرانا چاہیے تھا۔ کیا عجب انہیں وہ لطیفہ یاد آیا ہو کہ ایک ریستوران میں گاہک نے کھانا کھاتے ہوئے ریستوران کے منیجرکوطلب کیا کیونکہ کھانا غیر معیاری تھا۔ اسے بتایا گیا کہ منیجر ایک اور ریستوران میں کھانا کھانے گیا ہے۔ کیا عجب وزیراعظم کو احساس ہو گیا ہو کہ لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور کے بیسیوں بلند معیار ہسپتال چھوڑ کر، انہوں نے اہلِ وطن کو خاموش پیغام دیا ہے کہ وطن کے اندر ڈھنگ کا کوئی ہسپتال نہیں۔ ورنہ بطور وزیراعظم وہ اپنے وطن کے ہسپتال کو ترجیح دیتے۔ کیا عجب وزیراعظم افسوس کر رہے ہوں کہ انہوں نے اپنے ملک کے ہسپتالوں پر اہلِ وطن کا اعتماد مجروح کر دیا ہے۔ ''النّاسُ علیٰ دینِ ملو کہم‘‘ رعایا وہی کچھ کرتی ہے جو ان کے فرماں روا کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے رعایا کو عملی طور پر تلقین کر دی کہ دولت مند ہو تو پاکستان کے ہسپتالوں کا رُخ نہ کرنا۔ یہاں ڈاکٹر کام کے ہیں نہ دیکھ بھال ہوتی ہے۔ ٹکٹ کٹاؤ، جہاز پر بیٹھو اور ولایت جا کر دل کی مرمت کراؤ! ہاں! جن تیرہ نصیبوں کے پاس استطاعت نہیں، وہ مرنے کے لیے اپنے وطن کے ہسپتالوں کا رُخ کریں۔
خدا وزیراعظم کو شفائے کاملہ عطا فرمائے، کیا عجبِ بسترِ علالت پر انہوں نے برطانیہ کے وزیراعظم کے بارے میں یہ خبر پڑھی ہو کہ اس نے خاتون اول یعنی اپنی بیگم کے لیے ایک سیکنڈ ہینڈ کار خریدی جو بانوے ہزار کلو میٹر چلی ہوئی تھی۔ کار چُنتے وقت وزیراعظم کی سب سے بڑی شرط یہ تھی کہ کار برطانیہ کی بنی ہوئی ہو! ملائیشیا کے سابق وزیراعظم اور معمار مہاتیر نے بیرون ملک علاج کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ کیا عجب وزیراعظم بیرونِ ملک علاج کر کے پچھتائے ہوں کہ انہوں نے اپنے وطن کی، اپنے وطن کے ہسپتالوں کی اور اپنے وطن کے ڈاکٹروں کی توہین کیوں کی! ہو سکتا ہے وہ زبان سے نہ کہیں مگر دل میں اپنے آپ کو ملامت کر رہے ہوں! خدا وزیراعظم کو صحت دے اور خوش و خرم رکھے، کیا عجب بسترِ علالت پر پڑے پڑے وہ اس بات پر افسوس کرتے ہوں کہ وہ وزیراعظم بنے بھی تو کیسے بھوکے ننگے پس ماندہ ملک کے جو اس قابل بھی نہیں جہاں ان کی اولاد رہ سکے، جہاں وہ جائدادیں خرید سکیں، جہاں ان کا بھائی ہر ماہ طبی معائنہ کرا سکے اور جہاں وہ دل کا آپریشن کرا سکیں! کیا عجب وہ حسرت کرتے ہوں کہ کاش وہ برطانیہ کے وزیراعظم ہوتے تو علاج کرانے کے لیے‘ بزنس کرنے کے لیے اور جائدادیں بنانے کے لیے انہیں بیرونِ ملک نہ جانا پڑتا! مگر وہ یقینا یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ اگر وہ برطانیہ کے ہوتے تو کیا وزیراعظم بھی ہوتے؟