تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-06-2016

اردو کا ’’سفر‘‘ اور انگریزی کا’’Suffer‘‘

یادیں عجیب شے ہیں۔ آنے پر آ جائیں تو سب کچھ تلپٹ کر دیں۔ گزشتہ کالم میں بھی یہی ہوا ۔ مظفر آباد کا ذکر چلا اور کہیں سے کہیں چلا گیا۔ بین الکلیاتی تقریبات‘ میاں چنوں کا کوچوان نعیم ناز‘عاشق کنگ‘ نعمت اللہ چودھری‘ قمر فاروق‘افضل جالندھری‘ برادر عزیز طارق محمود خان اور باوا فاروق کاشمیری ۔ بات ہو رہی تھی کہ میں مظفر آباد پہلی بار کب گیا تھا۔1974ء یا 1975ء کا ذکر ہو رہا تھا۔ مظفر آباد کا ذکر ہوتے ہی وڈا باوا فاروق کاشمیری یاد آیا۔ مظفر آباد کالج کی بین الکلیاتی تقریبات کا جھماکا ہوا‘ یادو ں کا سیلاب آیا اور باقی کالم کو ساتھ بہا لے گیا۔
شام کو کالج ہوسٹل سے نکلے اور دریائے نیلم کنارے آ گئے وہاں شرط لگ گئی کہ کون زیادہ دیر پانی میں پائوں ڈال کر بیٹھا رہے گا۔ پہلے پہل سب نے پانی میں پائوں ڈال دیے ۔ ایک آدھ منٹ کے بعد پائوں برف ہونے لگے تو باری باری پائوں باہر آنے شروع ہو گئے۔ آخر میں احمد بلال اور بڑے بھائی طارق میں میچ پڑ گیا۔ بلال کے سرخ و سفید پائوں جب نیلاہٹ پر آنے لگے تو باوے نے میچ برابر ہونے کا اعلان کیا اور زبردستی دونوں کو دریا سے کھینچ کر باہر نکالا۔ اس کے بعد دو چار سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر مظفر آباد آنا ہوا اور پھر ایک لمبا عرصہ بیت گیا۔ باوا ملتان چھوڑ کر مظفر آباد چلا گیا بلکہ اٹھمکام گیا اور پھر وہاں سے چند سال بعد مظفر آباد آ گیا۔ جب تک باوا اٹھمکام رہا وہ دعوت دیتا رہا۔ میں وعدہ کرتا رہا مگر پورا کرنے کی نوبت نہ آ سکی تاوقتیکہ وہ مظفر آباد آ گیا۔ وہاں بھی اس کا اصرار جاری رہا اور میرا ٹالنا بھی۔ اسی طرح قریب بارہ تیرہ سال گزر گئے۔ عید پر باوا ملتان آیا تو اس نے میری اہلیہ کو مظفر آباد آنے کا کہا‘ بھابی فریدہ نے بھی بڑا زور لگایا ۔ میں نے باوے سے پکا وعدہ کیا‘ہاتھ ملایا اور بات پکی کر لی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں مظفر آباد جانے کا طے ہو گیا۔
سال اچھی طرح یاد نہیں شاید92ء یا93ئتھا۔ مجھے اسلام آباد کوئی کام تھا۔ بچوں کو ساتھ لیا اور اسلام آباد پہنچ گیا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں کسی نے یاد کرایا کہ مظفر آباد جانے کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں بعد میں آ جائوں گا آپ لوگ مظفر آباد چلے جائیں۔ جہاز پر مظفر آباد کے لیے بکنگ کروائی اور اگلے روز صبح ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ دو گھنٹے انتظار کے بعد فلائٹ کینسل ہونے کا اعلان ہوا تو ہم واپس گھر آ گئے۔ کہا کہ ممکن ہے اگلے روز پھر یہی کچھ ہو مگر بچے جہاز پر جانے کے لیے بضد تھے۔ کومل اور سارہ چھوٹی چھوٹی تھیں اور مظفر آباد جانے کے لیے جہاز کے سفر پر تلی ہوئی تھیں۔ اگلے روز پرواز جانے کا اعلان ہوا۔ خوشی سے اچھلتی ہوئی سارہ نے کومل کا ہاتھ پکڑا اور لائونج کے داخلے والے گیٹ پر آ کر مجھے ہاتھ ہلا کر اللہ حافظ کہا۔ میں باہر ان کی روانگی کا اعلان ہونے تک کھڑا تھا مبادا فلائٹ آج بھی کینسل ہو جائے۔
بھلا وقت تھا اسلام آباد سے مظفر آباد اور راولا کوٹ کے لیے جہاز چلا کرتا تھا۔ چھوٹا سا جہاز''ٹوئن اوٹر‘‘ (جڑواں اود بلائو) یہ ٹویوٹا ہائی ایس ویگن سے تھوڑا سا بڑا جہاز تھا۔ انیس مسافروں والے اس جہاز میں فضائی میزبان یعنی سٹیورڈ یا ہوسٹس نہیں ہوتی تھی۔ اگلی طرف چودہ پندرہ سیٹیں اور دروازے کے پیچھے چار پانچ سیٹیں۔ دروازہ پچھلی طرف تھا اور دروازے کے ساتھ اندر داخل ہوتے ہی بائیں طرف پانی کا چھوٹا سا کولر‘ اس کے نیچے دراز میں ڈسپوزایبل گلاس اور ایک گتے کے ڈبے میں رکھی ہوئی پیسٹریاں، سارا کام سیلف سروس پر مبنی تھا۔ خود اٹھیں پانی پئیں‘ پیسٹریاں کھائیں اور مزے کریں۔ میں نے کومل کو بتایا کہ فلاں جگہ پر فلاں چیز پڑی ہو گی۔ اگر جی چاہے تو خود اٹھ کر لے لینا‘ کسی کا انتظار نہ کرنا اس جہاز میں ''دست خود و دہان خود‘‘ والا معاملہ ہے۔ کومل نے نہایت سمجھ داری سے سر ہلایا اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں سب کا خیال رکھوں گی۔ میری اہلیہ چار پانچ سال کی کومل کے اعتماد پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ہر بات میں کومل کی نقالی کرنے والی سارہ کہنے لگی کہ وہ بھی سب کا خیال رکھے گی۔
کیا دن تھے جب یہ جہاز پی آئی اے کے فلیٹ کا حصہ تھے اور چھوٹے رن وے والے ہوائی اڈوںپر مسافروں کو لانے لیجانے کے کام آتے تھے۔ 1970-71ء میں پی آئی اے نے چھ نئے ٹوئن اوٹر جہاز خریدے جو سال بعد ہی فرانس کی ایک ایئر لائن کو فروخت کر دیئے گئے۔ دوسری بار دو سکینڈ ہینڈ ٹوئن اوٹر 1985ء میں خریدے گئے اور گیارہ سال بعد امریکی ایئر لائن ایف اینڈ ایم ایوی ایشن کو فروخت کر دیئے گئے۔ ٹوئن اوٹر جہاز میانوالی‘ مظفر آباد‘ راولا کوٹ‘ سکردو ‘ بنوں پارا چنار اور بھاگٹانوالہ ایئر پورٹ سرگودھا کے لیے استعمال ہوتے رہے۔ اب میانوالی‘ مظفر آباد‘ راولا کوٹ‘ بنوں‘ پارا چنار اور بھاگٹانوالہ ایئر پورٹس مسافر بردار جہازوں کے لیے ترس رہے ہیں۔
میں جب دو دن بعد مظفر آباد پہنچا تو کومل باوے کے گھر کے برآمدے میں سارہ کے ساتھ''گھر گھر‘‘ کھیل رہی تھی برآمدے میں کافی سارے گتے کے پی آئی اے کے ڈسپوزایبل گلاس بکھرے پڑے تھے ۔ میری اہلیہ نے بتایا کہ آپ کی ہدایت کے عین مطابق کومل نے جہاز میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف کیبنٹ میں درازیں کھول کر جائزہ لیا۔ درازوں میں یہ گلاس اور ایک ڈبے میں پیسٹریاں پڑی تھیں۔ کومل سارا راستہ مزے سے بیٹھی رہی۔ جہاز میں ہم چاروں کے علاوہ تین اور مسافر تھے اور غالباً انہیں پتہ نہیں تھا کہ ان درازوں میں بھی کچھ کھانے پینے کا سامان ان کے لیے رکھا گیا ہے۔ جونہی جہاز مظفر آباد ایئر پورٹ پر لینڈ کیا میں نے بچوں کو کہا کہ نیچے اتریں مگر کومل کہنے لگی کہ وہ سب سے آخر میں اترے گی۔ مجھے اس کی وجہ تو سمجھ نہ آئی مگر میں رک گئی جونہی وہ تین مسافر نیچے اترے ‘ کومل اٹھی اور درازکھول کر پیسٹریوں کا پورا ڈبہ اٹھا لائی۔ ڈسپوزایبل گلاسوں کا پورا پیکٹ اس نے سارا کو پکڑایا اور خود پیسٹریوں والا پورا ڈبہ اٹھایا اور نیچے آ گئی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو کہنے لگی یہ ہمارے لیے تھیں۔ اگر ہم نے دوران سفر نہیں کھائیں تو گھر جا کر کھا سکتے ہیں۔ میں ہنس پڑی کہ اب کیا کیا جا سکتا تھا۔
آزاد کشمیر کو صحیح معنوں میں ہم نے تب دیکھا۔ بلکہ دیکھا بھی کہاں؟ دیکھنا شروع کیا باوے نے ایک گاڑی کرائے پر لی اور ہم اس ایک گاڑی میں پھنس کر مظفر آباد سے نکلے ۔ گڑھی دوپٹہ‘ہٹیاں بالا‘ چکار‘ نون بگلہ اور سدھن گلی۔ دریاے جہلم کے ساتھ ساتھ گڑھی دوپٹہ تک‘ پھر وہاں سے دائیں طرف اوپر چکار۔ وہاں سے نون بگہ اور پھر چکار سے ہو کر سدھن گلی۔ کشمیر کا حسن تب پہلی بار نظر آیا میں اور میری اہلیہ نے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا کہ ہم نے کشمیر آنے میں بڑی دیر کر دی۔ ہر سال چھٹیوں میں ادھر ادھر گھومنا ہمارا مشغلہ تھا اس شوق کو پورا کرنے کے لیے ہم مہینوں پلاننگ کیا کرتے تھے۔ کبھی کلر کہار اور وادی سون‘ کبھی گلیات‘ کبھی وادی سوات‘ کبھی کاغان ناران اور اکثر و بیشتر مری۔
آزاد کشمیر میں سب سے بڑی خوبصورتی نظر آئی وہ یہ تھی کہ ابھی تک ان مقامات پر قدرتی حسن برقرار تھا اور وہاں دیگر قباحتوں سے ابھی تک بچت ہوئی ہوئی تھی۔ دوسری یہ کہ کشمیر کے ٹوراز م ڈیپارٹمنٹ والوں کے ریسٹ ہائوس خواہ سادہ تھے مگر تقریباً ہر جگہ موجود تھے۔ یہ دورہ ایک روزہ تھا اور رات گئے ہم واپس مظفر آباد آ گئے مگر اسی روز طے پایا کہ آئندہ زیادہ دنوں کے لیے آنا ہے اور مظفر آباد کے بجائے دیگر علاقوں میں زیادہ وقت گزارنا ہے۔ اگلے سال پھر مظفر آباد گئے۔ دو دن گزار کر نیلم ویلی کی طرف سفر شروع کیا تب سڑک بن رہی تھی اور ہماری چھوٹی سی سوزوکی مہران ان پتھروں پر چلنے سے جواب دے گئی تو واپسی کا سفر کیا اور گڑھی حبیب اللہ جا پہنچے۔ وہاں سے بالا کوٹ‘ کوائی‘ شوگران اور کاغان سے ہوتے ہوئے ناران جا پہنچے جھیل سیف الملوک میں تیرتے ہوئے شاپروں نے بڑا مایوس کیا۔
دو سال بعد پھر آزاد کشمیر جا پہنچے اور دو دن چکار اور چار دن سدھن گلی میں گزارے۔ سدھن گلی جیسا سکون‘موسم‘ماحول اور نظارہ اب دیگر تفریحی مقامات پر عنقا ہو چکا ہے۔ البتہ ایک بات مشترکہ تھی کہ جب بھی کشمیر گیا ہوں سڑکوں کو سدا خراب و خستہ پایا۔ ہر جگہ پر خواہ وہ کوہالہ مظفر آباد روڈ ہو یا کوہالہ باغ روڈ خواہ کہوٹہ راولا کوٹ روڈ ہو یا راولا کوٹ سے باغ جانے والی سڑک۔ ہمیشہ ہی ان سڑکوں کو ٹوٹی پھوٹی حالت میں دیکھا‘ سفر مشکل اور اذیت سے بھرا ہوا ملا۔ یہ ساری تکلیف اور اذیت برداشت کرنے کے پیچھے صرف ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ شہروں کے شور شرابے‘ ملتان کی گرمی اور ہمہ وقت کی بھاگ دوڑ سے نجات ملنے والی ہے۔ میری اہلیہ ہمیشہ اس مشکل سفر کے بارے میں کہتی تھی کہ ان سڑکوں کا خستہ حال ہونا بھی ایک نعمت ہے۔ اگر یہ سڑکیں ٹھیک ہو گئیں‘ سفر آسان ہو گیا اور رسائی سب کی دسترس میں آ گئی تو یہاں سیاحوں کی بھر مار ہو جائے گی اور یہ جگہ بھی مری یا نتھیا گلی بن جائے گی۔ نہ سکون رہے گا اور نہ صفائی۔ نہ قدرتی حسن باقی رہے گا اور نہ ہی خاموشی۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ میں نے ہنس کر کہا کہ ہر بار واپس جا کر ساری گاڑی کی اوورہالنگ کروانی پڑتی ہے خصوصاً اس کی سسپنش پر کافی خرچہ ہوجاتا ہے۔ ہنس کر کہنے لگی یہ آپ کی سردردی ہے۔
پھر یوں ہوا کہ ہمیں دوستوں نے کہا کہ آپ اگلی بار بنجوسہ جائیں۔ ہم اگلے سال بنجوسہ چلے گئے۔ چھوٹی سی پیالہ نما جھیل۔ اردگرد حسب معمول بے ڈھنگے ہوٹل۔ پی ڈبلیو ڈی اور ٹورازم والوں کے ریسٹ ہائوسز ۔ ایک بار ٹورازم کے ریسٹ ہائوس میں اور اگلی بار پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہائوس میں تین تین دن گزارے‘ نہ سفارش کی ضرورت نہ کوئی مشکل۔ ٹورازم والوں کو فون کیا۔‘تاریخ اور مقام بتایا‘ بکنگ کروائی اور پہنچ گئے۔ سات سو روپے سے ہزار روپے روزانہ کا کرایہ۔ کھانے کے لیے جو پکوانا ہو بتا دیں اور پیسے دے دیں وقت پر سب کچھ تیار۔ ایک بار سردیوں میں بنجوسہ گئے تو جھیل منجمد ہو چکی تھی۔ تین سال ہوئے ہیں بنجوسہ کی جھیل کی مانند سب کچھ منجمد ہو چکا ہے۔ کومل امریکہ چلی گئی ہے۔سارہ آسٹریلیا ہے۔ انعم کو مشقت بھرے سفر اور خاموشی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اسد ان چیزوں کا شوقین ہے مگر اسے پڑھائی نے بری طرح پھنسا رکھا ہے۔گزشتہ ہفتے چھ دن کشمیر میں گزرے مگر سوائے سفر کرنے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔ سفر کے بارے میں کسی نے سچ کہا ہے کہ اردو کا ''سفر‘‘ اور انگریزی کا ''SUFFER‘‘ ہم معانی چیز ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved