کسی شاعر پر لکھنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا اسے پتا بھی ہے کہ شعر ہوتا کیا ہے کیونکہ لفظوں کو جوڑ کر موزوں کر دینے ہی کو بھائی لوگ شاعری سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ مضمون بھی زیادہ پٹا ہوا نہ ہو‘ الفاظ کا انتخاب بھی درست ہو اور بیشک انہیں سلیقے اور ہنرمندی ہی سے باندھا گیا ہو‘ تو بھی اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ شعر بن گیا ہے۔ ایسے شعر پر اچھا ہونے کی مہر تو لگائی جا سکتی ہے لیکن شعر کا معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ہے کیونکہ شعر اچھا یا برا نہیں ہوتا‘ بس شعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔
شعر کی تعریفیں تو بہت بیان کی گئی ہیں کہ یہ کیا ہوتا ہے یا اسے کیسا ہونا چاہیے لیکن اس پر بھی اتفاق رائے موجود نہیں ہے‘ ماسوائے اس کے کہ شعر سن یا پڑھ کر آپ کے منہ سے ''واہ‘‘ نکل جائے۔ بیشک مختلف افراد کا شعر کا معیار مختلف ہو سکتا ہے؛ کیونکہ طبائع مختلف ہونے کی وجہ سے پسند بھی مختلف ہو سکتی ہے اور ہوتی بھی ہے؛ تاہم بعض شعر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ سارے معیار ہی ان کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں‘ اور وہ آپ کو رائے ظاہر کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔
انور شعور کے حوالے سے سب سے پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ شعر کیا ہوتا ہے اور اس کے بعد مزید کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ وہ اس پر پوری طرح سے حاوی ہو کر شعر کہتا ہے‘ گویا شعر اس کے نزدیک وہ گھوڑا ہوتا ہے جس کی باگیں یہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوتا ہے اور پائوں رکاب میں مضبوطی سے جمائے ہوئے یہ شہسوار‘ ہم سب کی طرح اس دوران بار بار گرتا بھی ہے لیکن اس کے گرنے کی بھی ایک اپنی ادا ہے یعنی شعر ہلکا بھی ہو تو اس پر چھاپ انور شعور ہی کی ہوتی ہے۔
اس کتاب میں شاعر کے چار مجموعے ''اندوختہ‘‘ ''مشقِ سُخن‘‘ ''می رقصم‘‘ اور ''دل کا کیا رنگ کروں‘‘ شامل ہیں جسے رنگِ ادب کراچی نے چھاپا اور 912 صفحات کو محیط اس تحفہ کتاب کی قیمت 1200 روپے رکھی ہے جسے اس نے اپنے اساتذہ سے منسوب کیا ہے۔ دیپاچوں کی شکل میں اس کتاب کی تحسین کرنے والوں میں مشفق خواجہ‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ ڈاکٹر اسلم فرخی‘ جمیل الدین عالیؔ‘ ڈاکٹر شاہ محمد مری اور یہ خاکسار شامل ہیں جبکہ کتاب کا پیش لفظ حسبِ معمول پبلشر شاعر علی شاعر کے قلم سے ہے جو بجائے خود کسی دیباچے سے کم نہیں ہے جبکہ یہ دستاویز آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام شائع کی گئی ہے۔ پسِ سرورق شکیل عادل زادہ کا تحریر کردہ ہے۔
اندرونِ سرورق ہمارے دوست پروفیسر سحرؔ انصاری نے انور شعور کی غزل کو سہل ممتنع کی اچھی مثال قرار دیا ہے اور یہ اس شاعر کا طرۂ امتیاز بھی ہے۔ ان کے ہاں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی اور شعر بن جاتا ہے۔ جبکہ ہم میں سے اکثر شعر میں بات تو بڑی لے آتے ہیں لیکن شعر پھربھی نہیں بنتا‘ جبکہ افسوسناک صورت حال کا ذکر اوپر بھی آ چکا ہے بلکہ یہ چلن ایک سکہ رواں کی حیثیت اختیار کر چکا ہے لیکن چونکہ شعر کہنے پر کوئی قدغن نہیں ہے‘ اس لیے کسی کا کچھ بگاڑا بھی نہیں جا سکتا جبکہ ایسے اربابِ فن پائے بھی کثرت سے جاتے ہیں۔
انور شعور کے ہاں عمدہ اشعار کی تعداد اتنی ہے کہ انتخاب بجائے خود ایک مشکل مرحلہ بن جاتا ہے؛ تاہم مشتے نمونہ ازخروارے کے طورپر چند اشعار:
چاند کو جب قریب سے دیکھا
دور سے دیکھنے کی شے نکلی
مرے پڑوس کی تختی بدل گئی پرسوں
ہوا تو کچھ نہیں لیکن ہوا بہت کچھ ہے
ایک دم کس طرح بدل جائوں
رفتہ رفتہ سُدھر رہا ہوں میں
میں اگر خود نہ پریشان پھروں تو مجھ تک
کیسے پہنچے گی وہ خوشبو جو پریشان نہیں
یہ زمانہ نہیں بھلائی کا
ورنہ اتنا برا نہیں ہوں میں
اس کا گھر پوچھتے پھرنے کی ضرورت ہی نہیں
لوگ بیٹھے ہوئے مل جائیں گے دیوار کے پاس
مانا کہ جانتے ہیں تمہاری زبان ہم
کب گفتگو کرو گے ہماری زبان میں
صرف نزدیک بیٹھ جانے سے
دور ہوتے ہیں فاصلے کوئی
خدا کے ماننے والوں کے پاس بھی شاید
کوئی دلیل نہیں ہے خدا کے بارے میں
پڑے پڑے مجھے آتا ہے یہ خیال شعور
نہیں ہے کیا میرا کمرہ مکان میں شامل
دل پریشاں رکھو کہ شاد رکھو
یہ ہمارا نہیں‘ تمہارا ہے
میری جانب نہ دیکھنا اُس کا
دیکھنے سے بڑا اشارہ ہے
صرف دو گز زمین کافی تھی
کائنات اس قدر بڑی کیوں ہے
سانس لینا بھی ہے یہاں دشوار
جانے شامل ہوا میں کیا کیا ہے
مشاہیر کو اتنی فرصت کہاں
بڑے کام گمنام کرتے رہے
سورج ہوا غروب تو ایسا لگا ہمیں
جیسے کوئی عزیز جدا ہم سے ہو گیا
کبھی وہ آگ سے لگتے ہیں کبھی پانی سے
کب سے میں دیکھ رہا ہوں انہیں حیرانی سے
آدمی بن کے مرا آدمیوں میں رہنا
ایک الگ وضع ہے درویشی و سلطانی سے
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گُم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا، تم ہو جاتا ہوں
آج کا مقطع
سر میں جھکڑ جو چلا کرتا ہے دن رات‘ ظفر
یہ گرائے گا ابھی برگِ نوا اور بہت