مسلمانوں کی تاریخ ایسے شاہزادوں کی اولوالعزمی سے بھری پڑی ہے جو ولی عہد تو نہ بن سکے مگر زورِ بازو سے تخت و تاج کے ہر دعویدار کو راستے سے ہٹا کر بادشاہ بن بیٹھے۔ شاہجہاں اپنے بڑے بھائیوں کو راستے سے ہٹا کر تخت نشین ہوا ، اس کے بیٹے اورنگ زیب نے بھائیوں کی گردنیں اتارنے کے ساتھ ساتھ باپ کو بھی قیدخانے میں ڈال دیا۔ نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے یورپ کے دروازوں پر دستک دینے والے کم و بیش ہر ترک بادشاہ نے بھی اقتدار کے راستے میں اپنے خونی رشتوں کی لاشیں بچھا دیں ۔ مامون عباسی نے پہلے امت مسلمہ کے اتحاد کے نام پراپنے بھائی امین کوقتل کرایا اورپھر اس کی موت پر آنسو بہا کر مامون ِ اعظم کہلایا۔ مؤرخین اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ وہ قوم جس نے دنیا میں چودہ سو برس پہلے جمہوریت کو ایک نظام حکومت کے طور پر متعارف کرایا اور خلفائے راشدینؓ کی یکے بعد دیگرے چار حکومتیں ایک نظام کے تحت قائم کیں آخر جمہوریت کو اپنے آدرشوں کا حصہ کیوں نہیں بناسکی۔ یہ سوال تشنہ ہی رہتا اگر پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف کو دل کی خطرناک بیماری لاحق نہ ہوتی ، انہیں آپریشن کے لیے برطانیہ نہ جانا پڑتا اور پاکستان کا میڈیا ان کی جانشینی کے مسئلے پر گفتگو نہ کرتا۔ اس موضوع پر ہمارے دانشوروں نے بدذوقی کی حدوں کو چھوتے ہوئے مذاکروں میں اپنی توجہ صرف اس بات پر مرکوز رکھی کہ صاحبِ فراش وزیراعظم مریم بی بی، اسحٰق ڈار، شہباز شریف یا حمزہ شہباز میں سے کس کو اپنی سیاسی میراث کا حق دار سمجھ کر اس کے حق میں وصیت فرمائیں گے۔ جانشینی کی اس تابڑ توڑ
بحث میں بڑی سہولت کے ساتھ یہ بنیادی نکتہ سرے سے ہی فراموش کردیا گیا کہ پاکستان ایک دستوری جمہوریت ہے جہاں وزیراعظم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی جانشینی کا فیصلہ کر ڈالے بلکہ یہ اختیار عوام کی منتخب کردہ قومی اسمبلی کا ہے۔ زمانہء حال کی ان بحثوں کو سن کر ہی کالم نویس پر یہ عقدہ کھلا ہے کہ مسلمانوں میں جمہوریت کے نہ پنپ سکنے کی کم از کم ایک بڑی وجہ دانشور بھی ہیں جو عوام کی اصابتِ رائے پر یقین رکھنے کی بجائے حکمران کو یہ حق بھی دے ڈالتے ہیں کہ وہ اپنے بعد آنے والے حکمران بھی منتخب کر ڈالے۔ گزرے ہوئے زمانے کے دانشوروں کے دلوں میں بھی خوف، احساسِ کمتری اور عوام پر اعتماد کی یہی کمی ہوگی کہ انہوں نے جمہوریت کو ایمان کا حصہ سمجھنے کی بجائے محض ایک طرزحکمرانی سمجھ کر پہلے اچھی بادشاہت کو اس کا متبادل سمجھا اور پھر بادشاہ کا یہ اختیار بھی کہ وہ اپنی آئندہ نسل کو عوام کی آئندہ نسلوں پر حکمران بناڈالے! انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جانشینی کی بحث کا ایک پہلو تو دستور ی ہے جسے ہمارے دانشوروں نے نظرانداز کیے رکھا لیکن سیاسی حوالوں سے اس پر جو گفتگو ہوئی اس سے یہ بات کھل گئی پاکستان مسلم لیگ ن کا اتحاد اسی وقت تک قائم ہے جب تک اس کی سربراہی محمد نواز شریف کے پاس ہے۔ ان کے بعد ان کے خاندان یا جماعت میں کوئی ایسی شخصیت موجود نہیں جو ان کے بعد اپنے بل بوتے پر اتنی بڑی جماعت کو متحد رکھ سکے۔ جہاں تک خاندان کا تعلق ہے تو ان کے بھائی شہباز شریف ان کے سیاسی وارثوں میں پہلے نمبر پر آتے ہیں لیکن مسئلہ یہ کہ ان کی طاقت کا سرچشمہ ان کی غیر معمولی قوتِ کار نہیں بلکہ نواز شریف کا ان پر مکمل اعتماد ہے، شہباز شریف کے بعد مریم بی بی ہیں جو اپنے والد کی طرح بے خوف اور پراعتماد نظر آتی ہیں اور ان میں کسی حد تک عوام کے لیے وہ کشش بھی موجود ہے جو ان کے والد کا خاصہ ہے لیکن پارٹی کو متحد رکھنے میں وہ کتنی مؤثر ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، حمزہ شہبازسیاست کے داؤ پیچ تو خوب سمجھتے ہیں مگر عوام میں ان کی پذیرائی کا معاملہ پوری طرح واضح نہیں ہے۔ اسحٰق ڈار اگرچہ وسیع معنوں میں خاندان کا حصہ ہی ہیں لیکن ان کی شناخت ایک لیڈر کی نہیں بلکہ ایسے مدبر کی ہے جس کی سیادت بندکمروں میں ہونے والے مذاکرات میں ہی کھلتی ہے۔
خاندان سے باہر اورمسلم لیگ ن کے اندر نظر دوڑائی جائے تو چودھری نثارعلی خان کا قد کاٹھ سب سے نمایا ں نظر آتا ہے لیکن ان کی شخصیت میں نرمی کا اتنا فقدان ہے کہ لوگ ان کے قریب کھڑے ہونے سے بھی گھبراتے ہیں۔ پھرمختلف وجوہات کی بنیاد پر پارٹی کے اندر ان کے مخالفین اتنے سرگرم ہیں کہ قیادت کے لیے ان کا نام آتے ہی کئی گروپوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے بارے میں تو یہ کہا جاتا ہے کہ چودھری نثار کی قیادت کے اعلان کے ساتھ ہی وہ اپنی مسلم لیگ بنا لیں گے۔ چودھری نثار کے علاوہ پارٹی کے اندر (خاندان کے علاوہ) کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں کوئی زیادہ بڑی بات سوچی جاسکے۔چودھری نثار کی شخصیت کا ایک دلچسپ پہلو ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کی بیماری کے دوران اپنے مزاج کے برخلاف ہر اس شخص کے ساتھ پورا تعاون کیا جسے وزیراعظم نے اپنی غیر حاضری کے دوران معاملات کی دیکھ بھال پر مامور کیا تھا لیکن عین اس دن وہ غائب ہوگئے جب وزیراعظم نے لندن بیٹھ کر کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرنا تھی۔ان کی غیر حاضری نے سوالات کا ایک پہاڑ کھڑا کردیا جسے کھود نے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کے پیچھے سوائے ایک مزاجی کیفیت کے اور کچھ بھی نہیں، یہی تلخی ٔ مزاج ہے جس کے اسیر ہوکر وہ اپنی راہ کھوٹی کرلیتے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ صاف دامن شخص ہیں اور یہ بھی روزِ روشن کی طرح عیا ں ہے کہ ان کی ذات سیاسی طور پر شکوک و شبہات کی زد میں ہی رہتی ہے۔ ورنہ بلاول بھٹو کو کیا ضرورت تھی کہ وہ ان کی وزارت عظمٰی کے خیالی منصوبے کی ناکامی کا اعلان کرتے۔
نواز شریف کا سیاسی وارث کون ہوگا ، یہ سوال خود ان سے کیا جائے اور وہ جواب میں ایک نام لے دیں تو بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، جب تک ان کے لیے ہوئے نام پر قوم اعتماد کا اظہار نہ کردے وہ نام کبھی قابلِ قبول شخصیت میں نہیں ڈھل سکے گا۔ پھر ان کے طریقِ سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ توقع رکھنا کہ ازخود اپنے خاندان کے کسی فرد کو اپنا جانشین قراردے دیں گے ، شاید ٹھیک نہ ہو۔ اس معاملے میں ان کی خاموشی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی معلوم ہوتی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ جسے اپنا جانشین بنانا چاہتے ہیں اس کا نام ازخود لوگوں کی زبان پر آجائے۔ ان کی بیماری نے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ لوگوں نے از خود کئی نام لینا شروع کردیے ہیں جن میں سے ایک یقینََا وہی ہے جو خود میاں صاحب کے دل میں ہے۔
دل میں چھپا ہوا یہ نام آخر کونسا ہے؟ یہ سوال ایک ایسے وفاقی وزیر سے پوچھا جو وزیراعظم کے بڑے قریب سمجھے جاتے ہیں تو انہوں نے پہلے قہقہہ لگایا پھر فرمایا، ''ہماری جماعت کا نام ہے پاکستان مسلم لیگ ن، اور ن کے قریب ترین حرف ہے 'م‘، تواب آپ خود سمجھ جائیں‘‘۔ پنجاب کے ایک صوبائی وزیرسے یہی بات ہوئی تو وہ حمزہ شہباز کی معاملہ فہمی، دور اندیشی اور قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگے۔