تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-06-2016

سُرخیاں‘ متن‘ ٹوٹے اور ’’مکالمہ‘‘

اپوزیشن کو تنقید قائداعظم کی تعلیمات
کے مطابق کرنی چاہیے : صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کو تنقید قائداعظم کی تعلیمات کے مطابق کرنی چاہیے‘‘ کیونکہ ملک عزیز میں باقی سارا کچھ جو قائداعظم کی تعلیمات کے مطابق ہورہا ہے تو تنقید کیوں کسی اور طریقے سے ہو اور جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے اپنا لقب ہی قائداعظم ثانی اختیار کر رکھا ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی صورت بھی قائداعظم سے کافی ملتی جلتی نظر آئے گی اور اگر ذرا دقت نظر سے کام لیا جائے تو ایک آدھ آف شور کمپنی قائداعظم کی بھی نکل آئے گی۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پائیدار ترقی جمہوریت کے بغیر ممکن نہیں‘‘ اور یہ اس جمہوریت ہی کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ ملک عزیز سے لے کر سوئٹزرلینڈ اور پاناما تک ترقی ہی ترقی نظر آ رہی ہے اور اگر دشمنوں کی نظر اس پر نہ پڑتی تو اب چاروں طرف پاناما ہی پاناما ہو چکا ہوتا۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن سے خطاب کر رہے تھے۔ 
محروم معاشی طبقات کی فلاح کے لیے آئندہ سال بھی اقدامات کریں گے : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''محروم طبقات کی فلاح کے لیے آئندہ سال بھی اقدامات کریں گے‘‘ جبکہ اول تو پہلے ہی ان کے لیے اس قدر اقدامات ہو چکے ہیں کہ مزید کی شاید ضرورت ہی نہ پڑے کیونکہ اکیلا اورنج ٹرین منصوبہ ہی ان کے لیے کافی ہے اور یہ انہیں اتنا پسند آئے گا کہ وہ سارے کام چھوڑ کر ہر وقت اس پر سفر کرتے ہی نظر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''اربوں روپے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے جائیں گے‘‘ اور یہ جو باہر اس قدر سرمایہ جمع کیا جا رہا ہے تو صرف اس لیے کہ ایک روز عوام کی فلاح و بہبود پر ہی خرچ کیا جائے اور اسی لیے یہ کام تیزی سے کیا جا رہا ہے کہ عوام کی ترقی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وزیراعظم روبہ صحت اور بہت جلد واپس آ کر عوام کی خدمت دوبارہ کریں گے‘‘ اگرچہ یہاں پر حالات اس قدر مخدوش ہونے والے ہیں کہ انہیں واپس آنے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز ویڈیو لنک کے ذریعے لندن سے خطاب کر رہے تھے۔
ٹی او آرز
ٹی او آرز پر ڈیڈ لاک برقرار ہے کیونکہ عمران خان اور جماعت اسلامی کو نکال کر‘ کوئی بھی جماعت ان کی پیشرفت کے حق میں نہیں ہے لیکن حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ کام کسی اور طرف سے شروع ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں اگر یہ فیصلہ سڑکوں پر ہی ہونا ہے تو پیپلز پارٹی اگر اس سے اجتناب کرتی ہے تو سخت گھاٹے میں رہے گی اور سارا میلہ عمران خان لوٹ کر لے جائے گا۔ اول تو اس کی نوبت بھی نہیں آئے گی اور سارا کچھ اللہ میاں کے شیڈول کے مطابق ہو جائے گا اور حکومت اور اپوزیشن ٹی او آرز کھڑکاتی ہی رہ جائیں گی جبکہ سرجری کی وجہ سے حکومت پر وزیراعظم کی گرفت پہلے سے بھی کمزور پڑ جائے گی اور اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک اور دھکا ہی کافی ہو گا کیونکہ اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے‘ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور مارشل لاء لگائے بغیر بھی شافی علاج ہو جائے گا کیونکہ اس مریض نے بہرحال زندہ رہنا ہے۔
بجٹ کی بجلی
بجٹ کی بجلی گرا ہی دی گئی جس کے بارے اسحاق ڈار صاحب کہتے ہیں کہ اس کا اثر عوام پر نہیں پڑے گا حالانکہ اس کی برکت سے قبل از اعلان ہی عوام کو ہر طرف طوطے نظر آنے لگ گئے تھے حالانکہ اگر کوئی لوٹی ہوئی دولت ملک کے اندر ہی‘ اورلوٹنے والوں کی تجوریوں ہی میں رہتی تو بھی ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ چنانچہ جتنا بڑا ظلم ملک کے ساتھ ہوا ہے اس کی سزا بھی اسی حساب سے آئے گی کیونکہ قدرت بہرطور اپنا توازن قائم رکھتی ہے‘ حد تو یہ ہے کہ عمرہ اور حج پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ کراچی سے ہمارے دوست عزیز صاحب نے بتایا ہے کہ بھارتی حکمران جنہیں ہم کافر کہتے ہیں‘ ان کے ہاں حج پر کرایوں میں دس سے پندرہ فیصد تک چھوٹ دی جاتی ہے۔ دکان داروں نے رمضان کا استقبال اس طرح سے کیا ہے کہ اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی چیزوں کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جبکہ مغربی ممالک میں کرسمس جیسے تہواروں کے موقع پر اشیائے صرف ارزاں کر دی جاتی ہیں ع
بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تابہ کجا
مکالمہ
مبین مرزا کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے کا تازہ شمارہ مارکیٹ میں آ گیا ہے۔ ایڈیٹر کے اعلان کے مطابق اسے ماہنامہ ہونا چاہیے تھا لیکن اس میں ماہنامے والی کوئی بات نہیں ہے۔ اس کا سائز ماہناموں والا ہے نہ ضخامت اور نہ قیمت۔ کوئی ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل اس رسالے کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے‘ تاہم یہ بھی غنیمت ہے کہ یہ پرچہ جو سال دو سال بعد ہی شائع ہونا تھا‘ اب چند ماہ کے وقفے کے بعد اس کا موجودہ شمارہ آ گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ''ماہنامہ‘‘ اب کتنے ماہ بعد شائع ہوتا ہے!
موجودہ شمارے کا حصہ نثر وقیع ہے لیکن دوسرے پرچوں کی طرح شاعری کے حوالے سے اس کا ہاتھ بھی تنگ ہی نظر آیا ہے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ عمدہ شاعری ہو ہی نہیں رہی اور اگر اس ضمن میں ایک گھسا پٹا لفظ استعمال کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ شاعری پر جمود طاری ہے اور یار لوگوں نے روٹین کی شاعری کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ شاعری انگڑائی لے کر ایک بار پھر اُٹھے گی اور تازہ شاعری پڑھنے سُننے کو دستیاب ہو گی کیونکہ ہم صرف اُمید ہی کر سکتے ہیں۔
آج کامقطع
ظفر‘ دلوں میں ترازو ہیں جبر کے کانٹے
یہاں نہ ذکر کرو بار بار پھولوں کا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved