عزیز دوست،
رمضان المبارک آن پہنچا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ تشدد اور خونریزی کی لہر ایک بار پھر اٹھے گی۔ اس مقدس ترین مہینے میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تصادم ہونا کتنی ستم ظریفی کی بات ہے۔ یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم، جو کئی عشروں سے یروشلم میں رہتے آئے ہیں، اس شہر میں موجود مقدس ترین مقامات کی زیارت سے صرف اس لئے محروم کر دیے جائیں گے کہ ہم مسلمان ہیں۔ یہ تمہاری خوش قسمتی تھی کہ پچھلے سال جب تم رمضان کے شروع ہونے سے ایک ہفتے قبل آئی تو تمہیں یہاں دیودار اور زیتون کے درختوں کے نیچے بیٹھ کر یروشلم کے ان مقدس مقامات کی روحانی فضائوں میں سانس لینا نصیب ہوا تھا۔ میں اور تم ایک ساتھ بینچ پر بیٹھے مسجد اقصیٰ کی عظمت کا نظارہ کر رہے تھے۔ مسجدِ اقصیٰ وہی مقام ہے‘ جہاں شبِ معراج کو آسمانوں کی بلندیوں میں جانے سے قبل حضورِ اکرمﷺ نے نماز پڑھی تھی۔ نرم نرم ٹھنڈی ہوائیں غروبِ آفتاب کے اس منظر کو مزید خوبصورت بنا رہی تھیں۔ تم نے آسمان کی جانب دیکھا تھا‘ جہاں آسمان کی نیلاہٹ متعدد شوخ رنگوں میں بدل رہی تھی۔ اس نظارے کی روحانی تاثیر نے ایک وجدانی کیفیت ہم پہ طاری کر دی تھی۔ میں اور تم وہاں خاموش بیٹھے اس نظارے کی روحانیت کو اپنے وجود کے ہر ذرے میں جذب کر رہے تھے۔ ہم زمین پر اپنے وجود کے مفہوم کی جامعیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اپنے ارد گرد ہر طرف ہمیں خدا کا وجود محسوس ہو رہا تھا۔ مغرب کی اذان سے اس نظارے کا سکوت ٹوٹا تو اسی وجد کی حالت میں تم اور میں مسجدِ اقصیٰ کی جانب بڑھنے لگے۔ تمہارے چہرے کے تاثرات پہ اس وقت میری نظر پڑی۔ تم مبہوت نظر آ رہی تھی۔ اس وسیع و عریض جگہ میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک سرخ رنگ کا کارپٹ بچھا ہوا تھا۔ انجانے میں تم مردانہ حصے کی طرف چلی گئی تھی۔ شاید تمہارا خیال تھا کہ مرد و زن جہاں چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ تمہارے قریب کھڑے ایک آدمی نے اشارے سے تمہیں عورتوں کے نماز پڑھنے کی جگہ دکھائی۔ وہ قدرے برانگیختہ دکھائی دے رہا تھا۔ ناگواری کے تاثرات تمہارے چہرے پر بھی تھے۔ ''خدا کے گھر میں یوں علیحدگی کیوں؟‘‘ ان الفاظ میں تم نے مجھ سے شکایت کی تھی۔ جواباً میں بس اپنے کندھے ہی اُچکا سکی۔ یاد ہے جب اس سے پہلے ہم الحرم الشریف میں داخل ہوئے جہاں مسجدِ اقصی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں‘ تو تمہیں صدر دروازے پر روک کر سر تا پا اپنا آپ ڈھانپنے کو کہا گیا تھا؟ چنانچہ پھر میں اور تم، تمہارے لئے عبایا خریدنے گئے تھے۔ نماز کے بعد میں نے تمہیں مسجد کا جنوبی حصہ دکھایا تھا۔ تم نے وہاں ستون پہ لگے گولیوں کے نشانات بھی دیکھے۔ 1951ء میں اردن کے شاہ عبداللہ کو یہیں مارا گیا تھا۔ ان کا پوتا شہزادہ حسین اپنے سینے پہ لگے تمغوں کی وجہ سے اس حملے میں بچ گیا تھا۔ یہی شہزادہ حسین بعد میں اردن کا شاہ حسین بنا۔ قبۃ الصخرہ پہ لگا سونا اردن کے شاہ حسین ہی کا عطیہ ہے۔ ہمارے نبی کریمﷺ نے معراج کی شب قبۃ الصخرہ سے ہی جانبِ فلک صعود فرمایا تھا۔ گزشتہ رمضان اسرائیلی پولیس نے ہمارے خاندان کے مردوں کو مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا۔ صورتحال کافی کشیدہ تھی کیونکہ تقریباً روزانہ ہی فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے بیچ جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ دونوں جانب سے ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے‘ لہٰذا کشیدگی بھی برقرار ہے۔ یروشلم پہ اسرائیلیوں نے 1967ء میں جبری طور پر قبضہ کیا تھا۔ عرب فلسطینی ہونے کے ناتے ہم یہاں اسرائیلیوں کے قبضے کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی اسرائیلی مرد حارۃ المسلمین میں چھپ کر داخل ہوتا ہے‘ تو مسلمان نمازیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہاں یہودیوں کا داخلہ ممنوع ہے لیکن یہودی الاقصیٰ پہ حق کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسے جبل الہیکل پکارتے ہیں‘ جو یہودی مذہب کا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ سمجھنے کے لئے کہ کس طرح پچھلی تمام صدیوں کے دوران یہودی، عیسائی اور مسلمان یروشلم میں واقع مقدس مقامات پہ اپنا اپنا حق جتاتے رہے ہیں، اور کس طرح یہ تینوں توحید پرست مذاہب ہزاروں سالوں سے اس شہر کو گھائل کر کے اس کا نقشہ بدلتے آئے ہیں، تمہیں کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب A History of God پڑھنی چاہئے۔ تم نے یقینا پڑھا ہو گا کہ یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کی ایک قرارداد نے اس علاقے میں ایک ''قابض قوت‘‘ قرار دیا ہے‘ جہاں مسجدِ اقصیٰ اور الحرم الشریف واقع ہیں۔ ہمارے لئے یہ مقام مکہ کی مسجدالحرام اور مدینہ کی مسجد نبوی کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ مقدس ہے۔ گو کہ بیرونی ممالک کی جانب سے یروشلم پر اسرائیلی قبضے پہ تنقید ہوتی رہتی ہے‘ لیکن جس ملک میں اس وقت تم مقیم ہو یعنی امریکہ‘ وہ بڑے مستحکم انداز میں اسرائیلیوں کی پشت پناہی کرتا آیا ہے۔ سب سے زیادہ فوجی امداد بھی اسرائیل کو امریکہ ہی سے ملتی ہے اسی لئے اگر داعش والے یروشلم کو اسرائیل سے آزاد کرانے کے عزم کے ساتھ اس معاملے میں کود پڑے ہیں‘ تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں؛ تاہم، ہم مسلمانوں کے لئے یہ کوئی اچھی خبر نہیں کیونکہ ہمیں تو اسرائیلی پولیس پہلے ہی سے نفرت اور شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ذرا تصور کرو کہ اگر داعش نے اسرائیل میں دراندازی شروع کر دی تو کیا ہوگا۔ ہم جیسے عرب اسرائیلیوں کے لئے یہ دوہرا عذاب ثابت ہوگا۔ ہم نہیں چاہتے کہ اب داعش کے وحشی آکر ہم پہ قبضہ جما لیں۔ پچھلے اتوار کو میں اسی کیفے گئی جہاں ہم نے فلافل کھائے تھے۔ کیفے کے ضعیف مالک ابراہیم کو تم ابھی تک یاد ہو، اس نے مجھ سے پوچھا بھی کہ ''تمہاری وہ پاکستانی دوست کیسی ہے جو امریکہ میں رہتی ہے اور جس نے حجاب نہیں پہنا تھا، اسے ضرور لکھو اور میری طرف سے یہ پوچھو کہ اس نے خدا کا خوف رکھنے والی دیگر تمام پرہیزگار مسلمان عورتوں کی طرح اپنے سر کو ڈھانپنے کا فیصلہ کر لیا ہے یا نہیں؟‘‘ میں جانتی ہوں کہ تمہیں سر ڈھانپنا ضروری نہیں لگتا‘ میں تمہارے اس فیصلے کا احترام کرتی ہوں لیکن جیسا کہ تم نے خود بھی دیکھا ہو گا کہ مشرقی یروشلم میں، جہاں زیادہ تر عرب فلسطینی آباد ہیں، عورتوں کی اکثریت سر ڈھانپتی ہے۔ سر ڈھانپنا یا نہ ڈھانپنا عورت کی اپنی مرضی ہے، اچھے یا برے مسلمان ہونے کا اس سے کوئی تعلق نہیں؛ چنانچہ اگلی بار جب میں ابراہیم کے کیفے جائوں گی تو اسے بتائوں گی کہ تم آج بھی اسی طرح ننگے سر بغیر حجاب اوڑھے پھرتی رہتی ہو! ویسے، مذاق برطرف، ''صدر‘‘ ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ امریکی مسلمانوں کے لئے تو وہ نہایت خطرناک ہے۔ اسرائیلی کابینہ میں بھی اس وقت ایک ٹرمپ نما شخص موجود ہے۔ ایویگڈار لائبرمین‘ جو ایک نہایت متعصب قوم پرست اور فلسطینیوں سے انتہائی نفرت کرنے والا شخص ہے، کو وزارتِ دفاع کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ اسرائیلی کابینہ میں دوسری سب سے بارسوخ حیثیت اسی کی ہے، اس نے یروشلم اور مغربی کنارے میں مزید اسرائیلی آبادیوں کی تعمیر کے لئے فلسطینی زیرِ انتظام غزا پر قبضے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ عربی کی سرکاری زبان کی حیثیت کے خاتمے کا بھی اس نے مطالبہ کر رکھا ہے۔ اسرائیلی اربابِ اقتدار میں اس قسم کے انتہا پسند کی موجودگی نے اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل‘ یعنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطین کے قیام کی امید ختم کر دی ہے۔ تمہاری دوست عائشہ سے بھی میری ملاقات ہوئی، وہی جو اس ہوٹل کی مینجر ہے‘ جہاں تم ٹھہری تھی۔ وہ فکرمند نظر آ رہی تھی کیونکہ اس رمضان میں اس کے ہوٹل کے بیشتر کمرے خالی ہوں گے۔ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خونریز جھڑپوں کے اندیشے کی بدولت سیاح یہاں آنے سے گریز کریں گے۔ پچھلے سال کی بات الگ تھی جب تم یہاں آئی تھی۔ ہم دونوں رات دیر تک گلی کوچوں میں پھرتے رہتے‘ اور آزادی کے احساس سے محظوظ ہوتے تھے۔ ہمارے ارد گرد بھی ہر جگہ سیاح نظر آتے تھے۔ وہ بھی یروشلم کے ان لمحات کی روحانیت سے محظوظ ہونا چاہتے تھے جن کی نظیر دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی!