حضرت رئیس امروہوی...(2)
پی کر قلم انہوں نے کبھی نہیں اٹھایا‘ جو کچھ لکھا ہوش و حواس میں رہ کر خوب سوچ سمجھ کر اور ایک خاص منصوبے کے تحت لکھا۔ رئیس ایک عملی انسان ہیں، نرے کھرے شاعر نہیں‘ جو چائے خانوں میں دن بھر گپ ہانکنے اور شام کو مانگے تانگے کا ٹھرّا پی کر فکرِ سخن فرماتے ہیں۔ پہلا عملی قدم جو انہوں نے اٹھایا وہ پاکستانیوں کے ذہنی خلفشار اور جنسی کج روی کا مداوا ہے۔ ان کا مشہور اور مقبول نفسیاتی کالم سترہ اٹھارہ برس سے روزنامہ جنگ کراچی میں خواص و عوام کے مطالعے کا محور ہے۔ ہم نے بھی ٹوکا، حضرت یہ کیا آپ نے جنّاتی مضامین کا طومار باندھ دیا ہے‘ کہیں ایسا تو نہیں لوگوں کو اوہام پرستی میں مبتلا کیا جا رہا ہو‘ اس پر و ہ مسکرا کر خاموش ہو جاتے۔ یہ شروع شروع میں ہوا‘ اُنیس سو اکسٹھ میں‘ پھر تو یہ دیکھا کہ خطوں کا تانتا بندھ گیا‘ دس بیس‘ پچیس پچاس ‘سو سو خط روزانہ آنے لگے۔ ہر شخص آفت رسیدہ حوادثِ روزگار اور کربِ ذات کا مارا ہوا‘ رئیس چند حروف تسلی کے لکھ بھیجتے‘ دو چار خطوں کے تبادلے کے بعد گرہیں کھلتے کھلتے بالآخر سلجھ جاتیں۔ اس دوران میں رئیس نے اپنا زیادہ وقت تسخیرِ ذات‘ عملِ توجہ اور تشخیصِ ہمزاد پر صرف کیا‘ بلور بینی اور سانس کی مشقوں پر گھنٹوں بند کمروں میں دادِ تحقیق دی اور تان''من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘ پر ٹوٹی۔
''مریضوں‘‘ میں اضافہ ہوا تو باضابطہ حق الخدمت وصول کرنے لگے۔ ایک کتابچہ سانس اور دوسری بہت سی مشقوں وغیرہ پر مشتمل مرتب کر کے چھوا دیا‘ یہ افادۂ عام کی چیز ہے مگر گُرو بِنا اس پر عامل ہونا باعث قبض کا ہے انبساط کا نہیں۔ رئیس کی دس سالہ ریاضت آخر کار رنگ لا کر ہی رہی‘ ایک بڑی اکثریت ان کے حلقۂ ارادت میں در آئی‘ خلائق کا ہجوم ان کے روحانی تصرفات پر ایمان رکھتا ہے‘ دل آزاری نہیں دلجوئی ان کا شیوۂ عام ہے‘ اس سے رئیس کا پیٹ پلتا اور بہتوں کے درست ہوتے ہیں۔ دماغ ‘ نفسیات پر کم و بیش بیس بائیس مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں اور چھ روپے سے کم کسی کی قیمت نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کوئی محققانہ مقالات نہیں‘ عوامی خطوط کا ذخیرہ ہیں‘ بے حد نمکین‘ پڑھیے تو جُھرجُھری سی آ جائے اور سرسراہٹ رنج و الم کے ساتھ لذت ہی لذت‘ لطف ہی لطف۔ بازار میں مانگ اور چلن ایسی ہی چیزوں کا ہو تو ہم کیوں کسی سے پیچھے رہیں‘ اس طرح زندگی کا یہ رُخ بھی بڑا تابناک ہے کہ رئیس ایک تجربہ کار ناشر ہیں۔
نشر و اشاعت کا تجربہ پہلے سے بھی تھوڑا بہت تھا ہی‘ ''سب رنگ‘‘ کے شکیل عادل زادہ کے باپ عادل ادیب کے ماہنامہ ''مسافر‘‘ اور دوسرے کئی ماہناموں میں دادِ ادارت دے چکے تھے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ''شیراز‘‘ نکالا‘ پھر یہ ''انشاء‘‘ بن گیا جو عالمی ڈائجسٹ بن کر جون ایلیا سے زیادہ زاہدہ حنا کی گود میں جا پڑا۔ روزنامہ جنگ سے منسلک تو وہ دلی سے ہو گئے تھے‘ غالباً یہ رشتہ جُڑا ہی تھا کہ پاکستان عالم وجود میں آ گیا۔ یہ آپا دھاپی، افراتفری اور نفسی نفسی کا زمانہ تھا‘ جس کے جدھر سینگ سمائے نکل کھڑا ہوا‘ یہ چونکہ مسلم لیگی تھے‘ کسی ترکیب سے ہوائی جہاز میں سوار ہوئے‘ کراچی اترے۔ یہاں سن سینتالیس کا زمانہ لیکن میر خلیل الرحمن اپنے روزنامے کا ڈول ڈال چکے تھے‘ اب تو خیر اخبار کا دفتر کیا ہے نگار خانۂ چین ہے‘ تب کی بات اور تھی ایک ڈیڑھ کمرہ۔ مالک و مدیر چپراسی بھی تھا اور ہلکارہ بھی۔ جنگ کے رئیس وغیرہ نے اکنّی کے بند اور دو پیسے کی پھیری والوں سے چائے پی کر پرورش کی‘ دن بھر کی اخبار نویسی کے بعد رات گئے وہیں نام کے ایک بستر میں خوابِ استراحت اور کھٹمل کے مزے لوٹتے‘ صبح ہوتے ہی پھر جُت جاتے۔
بے شمار علمی ادبی اداروں کے سرپرست‘ سیاسی تحریکوں میں پیش پیش‘ یہاں تک کہ پاک عریبیٔن بینک کے صدر۔ بنگلہ دیش وجود میں آیا تو وہاں سے نکالے جانے والے مہاجرین المعروف بہ بہاریوں کے لیے گھر کو مہاجر اور مسافر خانہ بنا لیا‘ کپڑوں کے انبار ‘ برتنوں کے ڈھیر‘ سلائی کی مشینیں‘ قربانی کی کھالیں‘ سبھی کچھ جمع کیا اور بانٹا۔ ٹکٹ لگا کر قوالیاں بھی کروائیں‘ اس میں بدنام بھی ہوئے نیکی بھی کمائی‘ خیر کے پہلو بہ پہلو شر تو ہے ہی‘ حلفیہ کہتے ہیں خود نہیں کھایا‘ میرے نام پر یاروں کے وارے نیارے ہوئے ہوں تو دوسری بات ہے۔ خود نہیں کھایا تو بھائی یہ پرانا مکان ادھڑ کر نیا کیوں کر بن گیا‘ فرمایا‘ یہ سب قرض کی کرشمہ سازی ہے‘ تاہم جوں جوں میدان عمل میں بڑھتے گئے روپے پیسے کی ریل پیل سی ہو گئی‘ باقاعدہ
ایک دفتر ہے‘ متعدد شعبے‘ تنخواہ دار کارکن‘ ان میں بعضے جاں نثار بھی‘ رئیس کی کوشش اور نام سے نئی بستیاں آباد ہوئیں‘مہاجرین کی آرجار کا تار بندھا رہتا‘ جو بھی آتا‘ کہا جاتا بس تم ڈٹے رہو۔ دریافت کرنے پر بتایا‘ اگر میں ایسا نہ کروں تو یہ لوگ قابو میں نہیں آ سکتے‘ لڑائو اور حکومت کرو‘ یہ چال اب میری سمجھ میں آئی۔ بہاریوں نے رئیس امروہی نگر میں ہلّا گلّا کیا‘ کچھ بتائے بغیر مجھے بھی ٹانک لیا‘ وہاں لوگوں کے تیور بدلے ہوئے لیکن رئیس کے موالیوں نے آبادی کے مرکزی دفتر کا تالا توڑا اور قابض ہو گئے‘ میں سراسیمہ ہوا‘ آقائے یورش لاہوری کی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں‘ آقائے یورش نے بیچ بچائو بھی کرایا۔ رئیس کی اکڑ فوں‘ طمانیت اور چہرے کی تمازت دیکھنے کی چیز تھی‘ کچھ گفتگو‘ کچھ تقریریں ہوئیں تب یہ غبار صاف ہوا۔ آقائے یورش برملا کہتے رہے اگر ایک بھی ڈنڈا حضرت کے پڑ جاتا‘ کل بابائے مہاجرین کی پٹائی کی سرخی جم جاتی۔ خدا نے عزت رکھ لی۔ جشنِ ولادت ہو تو‘ موت واقع ہو تو‘ رئیس ضرور پہنچیں گے‘ جبھی تو میں نے کہا نا کہ وہ عملی آدمی تھے۔
آج کا مطلع
روٹی کپڑا بھی دے مکان بھی دے
اور مجھے جان کی امان بھی دے