تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     05-06-2016

مبلغ ایک ہزار کا خطیر اضافہ!

لیجیے‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انتہائی غریب پرور بجٹ پیش کر دیا ہے۔ پہلے تو بجٹ کے گمبھیر اعداد و شمار‘ اربوں کھربوں کے قصے‘ یہ خسارے‘ تخمینے‘ معاشی اہداف کے گورکھ دھندے کُند ذہن عوام کو کہاں سمجھ میں آتے ہیں، یہ کام وزیر خزانہ ہی کا ہے کہ اعداد و شمار میں ہی صنعتی ترقی اور معاشی خوشحالی کی ایسی حسین تصویر عوام کے سامنے رکھ دے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ بجٹ تقریر میں ایک خوشخبری انہوں نے یہ سنائی کہ معاشی میدان میں ان کی ان تھک کوششوں کی بدولت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے۔ الحمد للہ!
یوں تو پورا بجٹ ہی غریب پرور اور غریب دوست ہے مگر ایک اعلان تو ایسا ہے کہ جسے سُن کر غریب پر شادیٔ مرگ کی سی کیفیت طاری ہے۔ 43 کھرب روپے سے زیادہ کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے یہ خوشخبری سنائی کہ مزدور کی تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اب پاکستان میں مزدورکی کم ازکم تنخواہ 13ہزار سے بڑھ کر 14 ہزار روپے کی خطیر رقم تک پہنچ چکی ہے، جس سے خطرہ یہ ہے کہ پاکستان کا مزدورکہیں افراط زر کا شکار نہ ہو جائے! وہ اتنے سارے روپے لے کر آخر کرے گا کیا؟ بیمار ہو تو اُس کوکونسی دوا لینی ہوتی ہے۔ اگر سرکاری ہسپتال میں مفت علاج معالجہ کی سہولت سے فائدہ 
اٹھانے جائے گا تو دھکے کھائے گا اور خوار ہوگا۔ اس خواری سے بچنے کا بہترین حل یہی ہے کہ وہ چارپائی پر لیٹا بس خاموشی سے ہائے ہائے کرتا رہے۔ یقین جانیے اس طرح اس کی زندگی زیادہ محفوظ ہاتھوں میں رہے گی۔ اگر اسے ہسپتال سے مفت دوا مل بھی گئی تو جعلی دوا کھا کر فوراً مرجائے گا، چنانچہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ چند دن اور، بھلے غربت اور بیماری میں ہی سہی پاکستان کی معاشی ترقی کی بہاریں دیکھ لے۔ میٹرو بس‘ اورنج لائن ٹرین اور فلائی اوورز کی بہار کے درمیان اگر اس کے ذہن میں بھولے بھٹکے سے اپنی غربت اور بدحالی کا خیال آ بھی جائے تو اسے فوری جھٹک دے کیونکہ یہ اس غریب کی صحت کے لیے ہرگز مناسب نہیں۔
مخالفین کا کیا ہے، وہ تو بس باتیں بناتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کوئی14 ہزار میں چھ افراد کے خاندان کا بجٹ بنا کر دکھا دے، چلیں کچن ہی کے خرچے کا تخمینہ لگا کر دکھا دے تو وزیر خزانہ کو مان جائیں گے۔ یہ اعتراض کرنے والے صرف جھک مارتے ہیں۔ بھئی ہمارا پاکستانی 
مزدور بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔ وہ بھی صحرائی اونٹ کی طرح کھائے پیے بغیرکئی کئی دن تک کام کر سکتا ہے، اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ اسپرے زدہ پھل اور سبزیاں خریدے اور اپنے معدے کو خراب کرتا پھرے۔ میرے ملک کے مزدور کا پھل سے ویسے بھی دور کا واسطہ نہیں۔ اس کے تو بچے قاعدے میں آ...آم پڑھتے ہیں تو حیرت سے اس پیلے رنگ کے پھل کی دیکھتے ہیں۔ پھر اپنے ابّا کے غربت زدہ چہرے کو دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں‘ یہ کیا ہے! کیا اسے انسان کھاتے ہیں۔ ہاں ایک اور بات، غریب کو کیا پڑی کہ گوشت کھائے۔ بھئی سال میں ایک بار قربانی کی عید آتی ہے، کہیں سے پائو بھر گوشت کی ایک دو تھیلیاں اس غریب مزدور کے ہاں بھی تو پہنچ جاتی ہوںگی، بس اتنی عیاشی اور اتنی پروٹین اس کی زندگی کے لیے کافی ہے۔ ویسے بھی میرے ملک کا غریب مزدور بہت باصلاحیت ہے، اپنے چھ افراد کے کنبے کا پیٹ بھرنے کے لیے اس نے کچھ تجریدی اور تخلیقی طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔ مثلاً پیٹ پر پتھر باندھنا‘ درختوں کے پتے توڑ توڑ کر کھانا‘ ہوا خوری کرنا وغیرہ۔ میرا خیال ہے کہ یہ تمام امکانات ہمارے ذہین و فطین ڈار صاحب کے ذہن میں ضرور موجود ہوںگے، اسی لیے انہوں نے مزدور کی ماہانہ آمدنی کو چودہ ہزار سے بڑھنے نہیں دیا۔ جہاں تک بجلی اور گیس کے بل کا تعلق ہے، یہ مسئلہ بجٹ ہی میں حل کر دیا گیا ہے۔ بھئی گیس کا بل تو تب آئے گا جب چولہا جلے گا۔ گیس ہی کا استعمال نہیں بلکہ ایئرکنڈیشنر جیسی مضر صحت خرافات بس امیروں کی زندگیوں میں شامل ہیں، غریب خوش قسمتی سے ان سے محفوظ ہے۔ باقی رہ گیا ایک بلب اور ایک پنکھا، وہ بھی لوڈشیڈنگ کی بدولت گھنٹوں کے حساب سے بند رہے گا تو بجلی کے بل کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ یہ لوڈشیڈنگ بھی تو ہمارے غریب پرور حکمرانوں کی دین ہے! 
آپ دیکھ لیجیے، ابھی تک چودہ ہزار کی خطیر رقم سے کچھ بھی خرچ نہیں ہوا، غریب مزدور اپنی زندگی بخیر و بخوبی گزار رہا ہے۔ بس ایک مسئلہ ہے کرائے کے مکان کا۔ غریب بستیوں میں بھی ایک کمرے کا مکان پانچ ہزار سے کم کا نہیں ملتا۔ اگر مزدور چودہ ہزار میں سے پانچ ہزار کرائے میں دے دے گا تو باقی صرف نو ہزار بچتے ہیں۔ اس مسئلے پر ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے پاکستانی مزدوروں کو اس شاعرانہ تخیل پر ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ 
''بے در و دیوار سا اک گھر بنانا چاہیے‘‘ ، اگر میرا پاکستانی مزدور اس شاعرانہ تخیل کو عملی جامہ پہنا لے تو اس کا یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ پھر راوی اس کی زندگی میں چین ہی چین لکھے گا!
قصہ مختصر! ایک ہزار کے خطیر اضافے کے بعد مزدور کی زندگی میں ایک معاشی انقلاب آ چکا ہے اور پاکستان کے غریب مزدور جھولیاں اٹھا اٹھا کر ڈار صاحب کو دعائیں دے رہے ہیں کہ اللہ آپ کو اتنا نوازے کہ آپ اپنے بیٹوں کو اربوں کھربوںگفٹ منی کی صورت میں دیتے رہیں۔ آپ کو اتنی دولت عطا ہو کہ دنیا بھر میں آپ کی آف شور کمپنیاں مشروم کی طرح اگتی رہیں۔ آپ کی حکومت کسی پاناما لیکس کی زد میں نہ آئے اور آپ ایسے ہی غریب پرور بجٹ بناتے رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved