تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-06-2016

بڑے لوگ

اللہ کے آخری رسول کی ایک دعا یاد آئی: اللھم ا جعلنی صبوراًوشکوراً، اللّھم اجعلنی فی عینی صغیرا وفی عیون الناس کبیرا۔ اے اللہ مجھے شکر گزار بنا دے۔ اپنی نظر میں مجھے چھوٹا اور دوسروں کی نظر میں بڑا کر دے۔
زاہد و متقی وزیر خزانہ اسحق ڈار پہ اللہ رحم کرے۔ ان کے ایک جملے سے ایک سوال ذہن میں ابھرا کہ کیا وہ خود کو محمد علی باکسر کا ہم پلہ سمجھتے ہیں۔اخبار نویس کو جنہوں نے بتلایا کہ وہ اُس سے زیادہ صحت مند ہیں اور اس سے زیادہ ریاضت کیش۔ ایک محمد علی جیسی عظمت و شوکت گزشتہ اور رواں صدی میں شاید ہی کسی کھلاڑی کو نصیب ہوئی ہو گی۔ انجام اور بھی قابل رشک۔ 1970ء اور 1980ء کے عشرے میں ان کے بیانات سے گاہے یہ شبہ ہونے لگتا کہ کیا عالم تصور میں وہ خود کو ابرہام لنکن کا ہم پلہ پاتے ہیں؟
اپنے بارے میں خود لنکن کی رائے کیا تھی؟ شاید دو صدی بعد چترال کے ایک گائوں میں پیدا ہونے والے شیر محمد ایسی۔ شیر محمد کی کہانی ابھی عرض کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے عبدالمجید کی داستان بیان کرنا ہو گی، وگرنہ وہ بالکل ہی تشنہ رہے گی۔ شیر محمد ، محمد علی کے قبیلے میں جا شامل ہوا تھا اور عبدالمجید تو ہے ہی شیر محمد کے خاندان کا ایک فرد۔
عبدالمجید سے میری ملاقات 1980ء کے اوائل میں ہوئی۔ افغان امور پر قائم کئے گئے ایک ادارے کو باورچی درکار تھا، دوسرے چھوٹے موٹے کام بھی جو نمٹا سکے۔ پشاور سے بس میں سوار ہو کر مجید ایک شام آ پہنچا لیکن...! یاللعجب اس نے کھانا پکانے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا: حقیر سے حقیر کوئی بھی کام وہ خوشی سے سرانجام دے گا مگر کھانا پکانا عورتوں کا کام ہے، مردوں کا نہیں۔
عبدالمجید اصلاً ایک زمین دار ہے۔ مردانگی کی شان یہ ہے کہ بھٹو دور کی زرعی اصلاحات میں اس کی کچھ زمین مزارعین کو سونپ دی گئی تو انہوں نے بغاوت کر دی۔ مجید اور اس کے خاندان نہیں بلکہ سرکاری احکام کے خلاف۔ عدالت سے انہوں نے رجوع کیا۔ مؤقف ان کا یہ تھا کہ عمر بھر انہوں نے رزق حلال کھایا ہے۔ حکومتِ پاکستان اب اسے آلودہ نہ کرے۔ اس زمین پر وہ قدم رکھنا بھی پسند نہ کریں گے جو انہیں الاٹ کر دی گئی ہے۔
اقتدار کی طرح زمین کی بھوک بھی آدمی کی جبلت ہے۔ کیا عبدالمجید کے مزارعین کا نظریاتی طور پہ استحصال کیا جا رہا تھا۔ مذہب کے نام پر فریب کاری؟ حیرت انگیز طور پر ایسا نہ تھا اور اسباب اور بھی حیران کن تھے۔ نسل در نسل وہ اس خاندان کا حصہ تھے، ایسی طویل مدت سے کہ حافظے پر زور دینا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ حق ملکیت کے بغیر ہی جب ان کی سب ضروریات پوری ہوتی ہیں تو اس بکھیڑے میں وہ کیوں پڑیں۔ رہائش، شادی بیاہ کے اخراجات، علاج معالجہ، تمام حقوق انہیں حاصل ہیں، بصورتِ دیگر بھی اس کے سوا انہیں کیا حاصل ہو گا۔
عبدالمجید کو واپس بھیجنے کی بجائے، ولی محمد نام کا ایک اور باورچی ''درآمد‘‘ کیا گیا۔ وہ بجائے خود ایک ناول کا موضوع ہو سکتا ہے۔ کام کاج جتنا زیادہ ہوتا، اتنا ہی زیادہ شادماں ہوتا۔ کسی دن مہمانوں کی تعداد اگر زیادہ ہوتی تو اور بھی پھرتی کے ساتھ وہ حرکت میں نظر آتا۔ ایک دن اس نے سوال کیا کہ سعودی عرب میں ایک ملازمت کے لیے اس نے درخواست دے رکھی ہے، کیا یہ ناچیز اس کی سفارش کر سکتا ہے؟ اس امر کا چونکہ پوری طرح اطمینان تھا کہ سفارش سے کوئی نقصان ہونے والا نہیں؛ چنانچہ متعلقہ نجی ادارے کے سربراہ کو فون کیا۔ اس کا جواب یہ تھا کہ: اگر وہ ایک چترالی ہے تو چلا آئے۔ اگر نہیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مجید بھی ایسا ہی ایک کارکن تھا اور چترال سے تعلق رکھنے والے اس کے دوسرے رفیق بھی۔ مثلاً کسی دفتر میں کاغذات لیجانے ہوتے تو ٹیکسی حتیٰ کہ ویگن پر کے کرایے تک کو وہ اسراف گردانتا۔ منیجر سے لے کر پیغام رساں تک کے فرائض ایک سی خوش دلی سے انجام دیا کرتا۔ زرعی اراضی سے حاصل ہونے والی آمدن بھی کچھ زیادہ نہ تھی کہ مزارعین کے علاوہ اب مقدمات کے اخراجات بھی درپیش تھے۔ اس کا بڑا حصہ مہمانوں پہ اٹھ جاتا۔ ان دیہاتی مہمانوں میں سے ایک بعد ازاں پی ٹی وی کے ایک مقبول پروگرام کا پروڈیوسر بنا اور دوسرا وزارت خارجہ کا بہت ہی ممتاز افسر۔ کیا وہ اس کے دوست اور رشتہ دار تھے؟ یہ سوال پوچھنے کی نوبت نہ آئی۔ جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ تمام کے تمام چترالی ایک دوسرے کے دوست اور رشتہ دار ہوتے ہیں۔
امریکہ سے پھر ایک شیر محمد آ پہنچا۔ شیر محمد کے لباس اور انکسار کا کہنا یہ تھا کہ وہ درخور اعتناہی نہیں۔ اس کے تیور بھی بالکل برعکس یہ بیان کرتے کہ شاید وہ کسی قبیلے کا سردار ہے۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک ٹرک ڈرائیور تھا۔ مشن اس کا اور بھی الجھن میں ڈالنے والا تھا۔ وہ پاکستانی مصنوعات برآمد کرنے آیا تھا۔ مارکیٹ نہیں، بلکہ اپنی برادری کے لیے جو لاگت پر ان کی خدمت میں پیش کر دی جائیں گی۔ برادری؟ رسان سے اس نے بتایا کہ وارث دین محمد کے پیروکار، امریکہ کے کالے مسلمان، نسیم احمد مرحوم جنہیں بلالی مسلم کہا کرتے۔ پاکستان ہی سے کیوں؟ اس لیے کہ پاکستان اس کا وطن ہے۔ پیپلزپارٹی کے سابق کارکن نے کہا اور جن چیزوں کی ہمیں ضرورت ہے، پاکستان میں ان کا معیار اچھا ہے، اس کی برادری کے لیے موزوں ترین، مثلاً واشنگ مشینیں، یہ معرکہ انجام نہ پا سکا مگر وہ ایک دوسری داستان ہے۔
اسلام آباد سیکرٹریٹ میں تجارتی امور کے وفاقی مشیر‘شیخ عشرت کے ہاں آتے جاتے، اس نے جو انکشافات کیے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ ''باکسر محمد علی بھی وارث دین محمد کے رفقا میں شامل ہیں۔ محمد علی کو کوئی بڑی ذمہ داری نہیں سونپی گئی‘‘ اس کے لہجے میں ہمدردی تھی، اس سے کہا گیا ہے کہ وہ مطبوعات کے شعبے میں کام کرے۔ آخر کیوں؟ پچھلے دنوں صدر ریگن کے نمائندے کی حیثیت سے افریقی سربراہان مملکت سے اس نے ملاقاتیں کی ہیں۔ کوئی بڑا کام اس کے سپرد کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس لیے کہ ابھی مزید نظریاتی تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی سیاسی یا کاروباری ادارہ تو ہے نہیں کہ محض اس کی مقبولیت کو معیار سمجھے۔ شیر محمد نے وضاحت کی کہ تبلیغ ایک بہت مشکل فریضہ ہے۔ جس صبر و تحمل، علم، حکمت اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے، باکسر اس میں ابھی ادھورا ہے۔ عظمت نہیں، اس میں خدمت کا سکہ کھرا ہوتا ہے۔ بات سمجھ میں نہ آ سکی اور سوالات کا سلسلہ جاری رہا۔ اب اس نے واقعات بیان کرنا شروع کر دیئے۔ مثال کے طور پر واجد علی شاہ کی طرح بادہ نوشی کے عادی ایک یہودی سرمایہ دار سے بات کرنی ہے۔ فریضہ انجام دینے کے لیے یہودی کے سپر سٹور پر منجمد مچھلی کے انبار پہنچانے والا ٹرک ڈرائیور زیادہ موزوں قرار پایا۔ وہ آدمی جس نے حسابات میں ہیرا پھیری کے بدلے 40500 ڈالر کی رشوت اس طرح ٹھکرا دی تھی جیسے کوئی نیت بھرا ضیافت سے منہ پھیر لے۔ یہودی بالآخر مسلمان ہو گیا اور 35 برس میں ایسا مسلمان بن چکا کہ عہدِ قدیم کا کوئی عرب محسوس ہوتا ہے۔ وہ اس پاکستانی مزدور سے متاثر ہوا، جو ارب پتیوں سے زیادہ سیرِ چشم تھا۔
چترال کی وسیع و عریض آبادیوں میں مدتوں یہ تاثر رہا کہ یہ مزدور ذوالفقار علی بھٹو کا سگا بیٹا ہے۔ وہی قد کاٹھ، وہی چہرہ مہرہ۔ پھر یہ کہ ایسی دیوانگی سے وہ جتا رہتا ہے۔ بھٹو اقتدار میں آئے تو شیر محمد نے امریکہ کی راہ لی۔ اپنے سابق لیڈر کے خلاف اس نے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ وقت ضائع کرنے کا وہ قائل نہ تھا۔ اس کے خیال میں یہ غیبت کا عمل تھا اور غیبت ایک مرد کو شایاں نہیں، ایک مسلمان کو تو ہرگز نہیں۔ اپنی کامیابیوں پر ہرگز اسے فخر نہ تھا۔ الفاظ نہیں، اپنے لہجے سے اس نے بتایا کہ صرف اللہ ہی انسانوں کے دل بدل سکتا ہے۔ پھر یہ کہ نیکی کا جذبہ ناصح سے زیادہ، آرزو مند ہی میں ہوتا ہے۔ کبھی مہینوں کی محنت بھی رائیگاں رہتی ہے، کبھی ایک ہی مباحثہ ثمر بار کر دیتا ہے۔
روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
کچھ لکڑیاں گیلی ہوتی ہیں، عمر بھر گیلی رہتی ہیں۔ کچھ خشک، اندر سے پہلے ہی خشک۔ ان میں چنگاری شعلہ ہو جاتی ہے۔ ''نتیجہ ہم پیدا نہیں کرتے، بلکہ آسمان والا‘‘ اس نے کہا:
اللہ کے آخری رسول کا یہ فرمان برسوں پہلے سنا تھا: اعمال کا انحصار نیت پر ہوتا ہے۔ غور کرنے کی نوبت شیر محمد سے ملاقاتوں کے بعد آئی۔ عمل کی اب تک نہیں۔ دوسرا فرمان دو عشرے بعد سنا: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں، جو کسی محفل میں جائیں تو ان کا تعارف نہ کرایا جائے اور اٹھ کر چلے جائیں تو ان کا ذکر نہ ہو۔
پھر بڑے لوگ کون ہیں؟ خوش بخت اور ظفر مند کون ہیں؟ دعوے پر دعویٰ داغنے والے اسحق ڈار یا شیر محمد؟ اللہ کے آخری رسول کی ایک دعا یاد آئی: اللھم ا جعلنی صبوراًوشکوراً، اللّھم اجعلنی فی عینی صغیرا وفی عیون الناس کبیرا۔ اے اللہ مجھے شکر گزار بنا دے۔ اپنی نظر میں مجھے چھوٹا اور دوسروں کی نظر میں بڑا کر دے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved