مسئلہ یہ ہے: وینزویلا 33 ملین نفوس پر مشتمل مناسب سی آبادی رکھتا ہے۔ اس کے پاس دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں، لیکن اس کی دکانیں ضروریات زندگی، جیسا کہ آٹا اور دودھ وغیرہ سے خالی ہیں۔ زیادہ تر فیکٹریاں بند ہیں کیونکہ ان کے پاس خام مال خریدنے کے لیے زرِ مبادلہ نہیں ہے۔ شہری ہاتھ میں راشن کارڈ پکڑے خوراک خریدنے کے لیے گھنٹوں طویل قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر ان حقائق سے بے خبر ہیں کیونکہ جنوبی امریکہ ہماری واقفیت کے ریڈار کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس کی وجہ اس برِ اعظم سے ہماری سماجی اور ثقافتی دوری ہے؛ تاہم وہاں کے حالات ہمارے لیے ایک سبق ضرور لیے ہوئے ہیں کہ وہاں کے حکمرانوں نے کیا غلطیاں کیں اور اُن کا کیا نتیجہ نکلا۔ تیل کی دریافت سے پہلے وینزویلاروایتی اشیا جیسا کہ کافی اور کوکا برآمد کرتا تھا، لیکن پھر تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی دولت نے اپنا کام دکھانا شروع کردیا۔ کھلے دل سے غریب عوام کو امدادی قیمت دے کر عوامی مقبولیت حاصل کی جاسکتی ہے اور لگے ہاتھوں ہیرو بھی بنا جا سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں افراط ِزر بڑھ جاتی ہے۔ آمدنی میں فرق کو ختم کرنے کے لیے مختص کیے گئے فنڈز حکومت سے قریبی تعلق رکھنے والوں کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔
ایک مقبول لیڈر ہیوگو شاویز نے دوست ممالک جیسا کہ کیوبا کو سستے داموں تیل فروخت کرنے کی پالیسی اپنائی اور بائیں بازوکے نظریات کو اپنایا۔ بنیادی معاشی اصولوں سے صرف ِنظر کرنے کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھی اور کرنسی گرگئی۔ 2013ء میں شاویزکے انتقال کے بعد اُن کے نظریاتی پیروکار نکولس مادرو نے اقتدار سنبھالا اور شاویزکی پالیسیوں کوجاری رکھا۔ ان پالیسیوں میں اُس وقت بھی تبدیلی نہ کی گئی جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں سر کے بل گرگئیں۔ آج وینزویلا کے حالات قابل ِغور ہیں۔ مادرو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اس کے دارالحکومت کراکس میں احتجاجی مظاہرے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ 70 فیصد شہری اب اُنہیں اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ عوامی احتجاج کی مہم کے دوران اتنے افراد کے دستخط جمع ہو چکے ہیں جو ریفرنڈم کی کال دینے کے لیے کافی ہیں۔ فی الحال الیکٹرول کونسل ایسا کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے اور اس کے نتیجے میں عوامی اشتعال بڑھ رہا ہے۔ بہت سے مبصرین فوجی مداخلت کاخطرہ محسوس کررہے ہیں، اگرچہ شاویز اور اب مادرو نے فوج کو بہت سے فوائد سے نوازا ہے۔
وینزویلا کے دونوں مقبول رہنما ''نظریاتی خلوص ‘‘ کو اپنا طاقتور ترین ہتھیار قرار دیتے تھے۔ وہ اپنے عوام کو بتاتے کہ موجودہ معاشی انحطاط امریکی قیادت میں کام کرنے والے ''سازشی ٹولے‘‘ کی کارستانی ہے۔ وہ دراصل ان اوچھے ہتھکنڈوںسے مقبول سوشلسٹ حکومت کو گرانا چاہتے ہیں؛ تاہم چلچلاتی دھوپ میں بھوک سے بلکتے بچوں کے لیے دودھ خریدنے کے لیے طویل قطارمیں کھڑے افراد کے لیے صدر کے نظریاتی عقائد کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اپنے ''عہد آفرین انقلاب‘‘ کی بنیاد تیل کی ناپائیدار قیمتوں پر رکھتے ہوئے شاویز اور مادرو نے اپنے ملک کا کباڑا کردیا۔ چنانچہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تیل کی فراوانی معاشی مسائل کا حل نہیں اور نہ ہی وسائل کی بہتات بہتر معاشی مینجمنٹ کا نعم البدل ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پیٹرو ڈالر کے بل بوتے پر حکمران عوام کو خوش رکھنے کے لیے امدادی قیمت دیتے رہیں، لیکن تیل کی قیمت میں کمی سے اُن کا خزانہ بوجھ محسوس کرنے لگے گا۔ اس وقت جبکہ تیل کی مارکیٹ قیمتوں میں کمی کے بحران کا شکارہے، تیل پیدا کرنے والے اہم عرب ممالک کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف ناروے نے تیل کی فروخت سے ویلتھ فنڈ قائم کر لیا تھا جس کا حجم آج ایک ٹریلین ڈالر کے قریب ہے۔
ایک اور ملک برازیل بھی جو کچھ عرصہ قبل ترقی کے زینے طے کرتا دکھائی دیتا تھا، معاشی گرواٹ کا شکار ہے۔ کبھی یہ قابل ِفخر ''BRIC S‘‘ممالک (برازیل، روس، انڈیا اور چین) کا حصہ تھا لیکن آج اس کی آبادی کو انتہائی بے روزگاری کا سامنا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں بے روزگار ہونے والے افراد کی تعداد سات سے گیارہ ملین کے لگ بھگ ہے۔ اس دوران یہ ملک سیاسی بحران کا بھی شکار ہے۔ اس کی صدر ڈیلما روسف کو تادیبی کارروائی کا سامنا ہے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے جب اس موسم ِگرما میں یہاں اولمپک مقابلوں کا اہتمام کیا جانا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مس روسف کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والے ارکان پارلیمنٹ وہ ہیں جن کے خلاف خود کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ مس روسف پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے نیشنل اکائونٹس میں ملک کی اصل معیشت کے غلط اعداد و شمار پیش کیے۔
بہت سے ترقی پذیر ممالک جاگیرداری اورسیاسی اقربا پروری کی لعنت کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ سے ریاست کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے والے رہنما بچ نکلتے ہیں۔ چنانچہ جو رقم عوام کی غربت کے خاتمے اور معاشی حالت کی بہتری کے لیے خرچ کی جانی تھی، وہ سمندر پار اکائونٹس میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ملائیشیا کے وزیر ِاعظم ، نجیب رازق بھی مالیاتی سکینڈل کی زد میں ہیں اور اُن کے خلاف وسیع پیمانے پر تحقیقات جاری ہیں۔ مسٹر رازق کے ذاتی اکائونٹ میں ایک بلین ڈالر کے لگ بھگ رقم کا پتا چلا ہے جو سعودی عرب اور دیگر ممالک میں رکھی گئی تھی۔ اپنے دفاع میں ملائیشیا کے وزیر ِاعظم کہتے ہیں کہ یہ رقم ''تحفہ ‘‘ تھی۔ میری خواہش ہے کہ کاش میرے بھی اتنے فیاض دوست ہوتے۔ نجیب رازق کی دولت کے ذرائع میں سے ایک 1MDB تھا جو کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ بینک ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حال ہی میں عمران خان نے ملائیشیا اور سنگاپورکی معیشت کو ''مثالی اور شفاف ‘‘ قرار دیا تھا۔ کسی زمانے میں زمباوے کو مشرقی افریقہ کا ''اناج کا گودام ‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ بھاری مقدار میں اشیائے خور و نوش برآمد کرتا تھا؛ تاہم آج کئی سالوں کی مس مینجمنٹ اور رابرٹ موگابے کی بدعنوان حکومت کے بعد آج یہ ایک غریب ملک ہے ۔ نوّے سالہ موگابے ابھی اقتدار سے الگ ہونے کو تیار نہیں۔ خبریں گردش میں ہیں کہ ان کی وفات کی صورت میں اُن کی بیوی اقتدار سنبھالنے کی تیار ی میں ہے۔
تاہم بدعنوانی اور ناقص گورننس کی یہ مثالیں صرف جنوبی امریکہ، ایشیا اور افریقہ تک ہی محدود نہیں، پاناما سکینڈل میں ملنے والی فائلوں میں روسی لیڈر ولادیمر پیوٹن کے قریبی رفقا کا نام بھی شامل ہے۔ یہ بھی افواہیں ہیں کہ پیوٹن فرضی ناموں سے بھاری بھرکم اکائونٹس کو کنٹرول کرتے ہیں۔ روس ایک سٹڈی کیس ہے کہ ریاست کے اثاثوں کو مکمل طور پر نجی تحویل میں کیوں نہیں دینا چاہیے۔ جب نوے کی دہائی میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو ریاست کے اثاثے جیسا کہ تیل کی تنصیبات، کانیں اور فیکٹریاں اونے پونے داموں من پسند افراد کے ہاتھ فروخت کردی گئیں۔ وہ معمولی ڈیلر راتوں رات ارب پتی بن گئے۔ اس دوران عام شہری حیرت کے مارے اپنے ملک میں پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات کو دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ آج روس کی دولت مند اشرافیہ جو لندن کے مہنگے کلبوں یا فٹ بال ٹیموں پر سرمایہ کاری کرتی دکھائی دیتی ہے کا تعلق اُنہی افراد سے ہے جنھوں نے ریاست کے اثاثے سستے داموں خریدے تھے۔ اس عمل کے دوران سب اثاثے لٹا کر بھی ریاست کا خزانہ خالی رہا۔
عالمی معاشی انحطاط کے اس مختصر جائزے سے کیا سبق حاصل کیا جائے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم پاکستان میں جتنا چاہے شور مچالیں، ہم بدعنوانی پر اجارہ داری نہیں رکھتے اور نہ ہی اس حمام میں اکیلے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جب تک سخت قوانین کا ڈر نہ ہو، انسانی فطرت اپنے طور پر بدعنوانی سے باز نہیں رہ سکتی ۔ تیسرا یہ کہ بدعنوانی اورسیاسی روابط کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ سب کچھ نیا نہیں ہے اور نہ ہی پاناما انکشافات میں تاریخ ِانسانی کا کوئی نیا اور اچھوتا انکشاف ہوا ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ ہم باتیں چھوڑکر کام کریں اور اس بدعنوانی کے خاتمے یا اسے کم کرنے کے لیے جو بھی بن پڑے کرلیں۔