تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     06-06-2016

سرزمین کا قرض

کراچی کمال کا شہر ہے۔ جب یہ کلاچی یا دیبل تھا تب باب الاسلام کا ٹائٹل لے گیا۔ چند دن پہلے سرکاری خرچ پر سرکاری ٹی وی نے دعائیہ ٹرانسمیشن کی۔ پاکستان کے ٹیکس گزاروں نے کروڑوں روپے سے بھی زائد کا خرچہ دعاؤں میں ''ہدیہ‘‘ کر دیا۔ اس ہدیے میں وہ رقم شامل نہیں جو اس کمپنی کو ہدیہ کی گئی جس نے نامور کھلاڑیوں کو مزید ہدیہ دے کر دعاؤںکا (Paid-Content) اکٹھا کیا۔ یہ تفصیل چند دن بعد معلوم ہو جائے گی۔ اس مہم نے قوم کے ذہن میں ماضی کے کئی دریچے کھول دیے۔
پہلا دریچہ دو صدیوں کے عظیم لیڈر قائداعظم کی یاد کا ہے۔ نوزائیدہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور سیاہ و سفید کے مالک جناب محمد علی جناح۔ بطور گورنر جنرل سارے وسائل ان کی دسترس میں تھے۔ قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کا مقدمہ اس جاں فشانی سے لڑا کہ ان کو جان کے لالے پڑ گئے، مگر نہ تو لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے قائد اعظم نے اپنی بیماری کی تشہیر کی نہ ہی آل انڈیا مسلم لیگ یا سرکاری میڈیا کو دعائیہ مہم چلانے کی ہدایت دی۔ مرض شدید ہوا تو قائدِ اعظم ''زیارت‘‘ تشریف لے گئے جو بلوچستان میں واقع ایک چھوٹی سی ریزی ڈینسی ہے۔ یہ برٹش راج میں علاقہ مجسٹریٹ کی ضرورت پورا کرنے کے لئے کافی تھی۔ ہماری آج کی حکمران اشرافیہ کے سرونٹ کوارٹرز اس ریزی ڈینسی سے سائز اور سہولتوں میں کئی سو فیصد بڑے ہیں۔ قائد اعظم نے بحیثیت گورنر جنرل علاج کے لئے امریکہ جانا پسند نہیں کیا۔ عظیم فلسفی شاعر اقبال کے مطابق مغرب کے ڈاکٹروں کی''دانشِ فرنگ‘‘ وطن پرست بابائے قوم کو خیرہ نہ کر سکی۔ وہ خراب ایمبولینس میں بھی بیٹھنے سے انکاری نہ ہوئے، اسی لئے وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں۔ یہ سرزمین ایسے لوگوں کا قرض ضرور اتارتی ہے، جو اس سے محبت کرنے کا فرض ادا کرتے ہیں۔
مٹی کے قرض کی ایک تازہ مثال عبدالستار ایدھی کی ہے۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود شدید بیماری نے انہیں اپنی قوم کی نظروں میں مزید قد آور بنا دیا ہے۔ سندھ گورنمنٹ کا جو وفد انہیں مل کر اعلیٰ طبی سہولت قبول کرنے کی درخواست لے کر گیا تھا، اس نے بتایا ایدھی صاحب کہتے ہیں، جہاں زندگی کے دن دیکھے ہیں وہیں اس زندگی کی شام کروںگا۔ عبدالستار ایدھی اجنبی جوڑوں کی ناجائز اولاد کو پالنا طعنہ(Taboo) نہیں سمجھتے۔ بارود، خون کے لوتھڑوں اورکیچڑ میں مسلی ہوئی لاشوں کو نہلانا، پھر ان لاوارث میتوں کو حج اور عمرے والا لباس پہنا کر مالک کے سپرد کرنا ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے فرانس میں شیٹو بنائے نہ مے فیئر میں فلیٹ۔ ان کے پاس ہیلی کاپٹر اور جہاز ہیں جو صرف اور صرف دکھی انسانیت کی خاطر ایئر ایمبولینس بن کر اڑان بھرتے ہیں۔ مگر ایدھی صاحب عام سی چارپائی پر بیٹھ کر بھی کروڑوں دلوں کے حکمران ہیں۔
سودے بازی سے قائم ہونے والی دھاندلی زدہ جمہوریت کے تاحیات آقا اور ایدھی دونوں ہی سماجیات کے طالب علموں کے لئے''کیس سٹڈی‘‘ بن چکے ہیں۔ جمالیاتی حِس رکھنے والے پاکستان کی تاریخ کے اس کھلے تضاد کو یوں دیکھتے ہیں:
آقا تو چاہتے ہیں کہ گلشن ہی بیچ دیں
مالی کا دل چمن میں ہے، تن بھی چمن میں ہے 
رہبر کو چھینک آئی تو لندن چلا گیا 
ایدھی بہت علیل ہے لیکن وطن میں ہے
موت اٹل حقیقت ہے اور اس کائنات کی آخری سچائی بھی۔ نہ کچھ لازوال ہے اور نہ ہی کوئی فنا سے محفوظ۔ مالکِ ارض و سما نے سورہ رحمن کی آیت نمبر 26 تا27 میں ارشاد فرمایا: زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت و عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔
اس لئے بھائی پھیروکی ڈسپنسری کا کمپاؤنڈر ہو یا لندن کے کرام ویل ہسپتال کا سپیشلسٹ ڈاکٹر‘ دونوں دوائی دے سکتے ہیں، علاج کر سکتے ہیں، لیکن زندگی نہیں دے سکتے۔ حکیم لقمان کے مشہور قصوں میں سے آخری واقعہ اسی سچائی پر دلالت کرتا ہے۔ جب حکیم لقمان کا آخری وقت آیا تو وہ شدید بیمار ہوگئے۔ ان کے شاگرد اور محبت کرنے والے قدر دان تڑپ اٹھے۔ ایک نے کہا، آپ نے فلاں دوائی دے کر اسی حالت میں بادشاہ کی جان بچائی تھی، وہی دوا آپ بھی کھا لیں۔ حکیم لقمان نے انکار کیا۔ دوسرا بولا آپ نے فلاں سردارکو قبر کے منہ سے واپس کھینچا تھا، وہ نسخہ میرے پاس ہے، وہی دوا کھا لیں۔ حکیم لقمان نے پھرسر نفی میں ہلادیا۔ جب سب نے ضد کرنا شروع کی تو حکیم لقمان بولے عزیزو! آج میں جس مرض میں مبتلاہوں وہ لادوا ہے۔کوئی دوائی اثر نہیں کرے گی۔ پوچھا گیا کون سا مرض؟ حکیم لقمان نے جواب دیا ''مرض الموت‘‘۔
پچھلے دنوں ایک پڑھے لکھے اجتماع میں گفتگو کے لئے بلایا گیا۔کچھ مہربان موت کا موضو ع لے بیٹھے۔ ایک سوال نے مجھے چونکا دیا۔ پوچھا گیاموت کا خوف دور کرنے کا طریقہ کیاہے؟ عرض کیا دو طریقے ہیں۔ پہلا، اپنی ذات سے محبت میں سے آدھی دوسروں میں بانٹ دیں۔ دوسرا طریقہ موت کی حقیقت کو جان لینا ہے۔ اگلے سوال پر ان کی توجہ اقبال کے اس آفاقی شعرکی طرف دلوائی جس میں زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک مو ت سے پہلے کی زندگی اور دوسری حیات بعد الموت یعنی مرنے کے بعد والی زندگی۔ اقبال نے کہا جو غافل ہیں وہ آدھی زندگی کی حقیقت سے آشنا ہیں، بقیہ آدھی نہیں جانتے اور یہی بے خبری یا لاعلمی موت کا خوف طاری کرتی ہے۔ پھر میں نے اقبال کے یہ الفاظ دہرا دیے:
موت کو سمجھے ہے غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام ِ زندگی ، صبحِ دوام زندگی 
ایک اور ناقابلِ تردید حقیقت بھی سن لیں۔ قارون کے خزانے سے لے کر آج تک ملعون اور مطعون خزانے رکھنے والے جب مرتے ہیں تو خزانہ کسی کام نہیں آتا۔ موت کا ہاتھ پڑنے سے پہلے ہی ان کے وارث مال و دولت کی تقسیم کے لئے لڑ پڑتے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں ان کے دادا کی قبر کہاں ہے؟ پردادا کی قبر تو دور کی بات ہے۔ اورنگزیب عالمگیر اورنگ آباد میں، شاہ جہاں آگرہ، بادشاہ جہانگیر شاہدرہ میں اپنے سارے مال و زر کے باوجود ڈھیروں مٹی تلے دب گئے۔ آج کوئی نہیں جانتا ایشیا کے ان بڑے بادشاہوں کے وارث کون ہیں اور کس حال میں ؟
مٹی کے قرض سے بھاگنے والے مٹی سے نہیں بھاگ سکتے:
یہ جو کچھ دیکھتا ہے تو، فریبِ خوابِ ہستی ہے
تخیل کے کرشمے ہیں، بلندی ہے نہ پستی ہے
عجب دنیائے حیرت، عالم ِ گورِ غریباں ہے
یہ ویرانے کا ویرانہ ہے اور بستی کی بستی ہے 
وہی ہم ہیں کبھی جو رات دن پھولوں میں تلتے تھے
وہی ہم ہیں کہ تربت چار پھولوں کو ترستی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved