برادرم ہارون الرشید کے تازہ کالم کا عنوان ہے :
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
صاحب موصوف اس مصرع کا پہلا لفظ کھا گئے ہیں‘ ظاہر ہے کہ کالم نویس کو بھوک بھی لگتی ہے اور بعض اوقات کھانے کے لیے اور کچھ ہوتا بھی نہیں‘ کم از کم مجھے تو بہت لگتی ہے بلکہ اس پر ایک شعر بھی ہے ؎
اور کیا چاہیے کہ اب بھی ظفر
بھوک لگتی ہے‘ نیند آتی ہے
مذکورہ بالا مصرع غالب کے ایک مشہور شعر سے ہے جو اس طرح سے ہے ؎
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
پہلے تو میرا خیال تھا کہ عنوان میں لفظ ''کہ ‘‘ کے بغیر بھی کام چل رہا تھا‘ اس لیے انہوں نے لفظ ''کہ‘‘ کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے حذف کر دیا‘ لیکن آگے جا کر انہوں نے جو پورا شعر درج کیا ہے‘ تو اس میں بھی لفظ ''کہ‘‘ غائب ہے جس سے مصرع بے وزن ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ لفظ ''کہ‘‘ پنجابی میں اگر جملے کے آخر پر لایا جائے تو اس سے مراد زور دینا بھی ہوتا ہے‘ مثلاً ہمارے زمانے میں الف المحراث نامی ایک بزرگ ہوا کرتے تھے جو اس قسم کی پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے تھے‘ مثلاً:
بیڑی لایا ہوں‘ بیڑیئے اس کو
پانی حاضر ہے‘ اس کو پانیے کہ
آج اپنے خطاب میں صدر مملکت نے احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر پڑھا ہے ؎
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
شعر انہوں نے پڑھا تو ٹھیک ہے لیکن میری ناقص رائے میں اس کی بناوٹ میں تھوڑی گڑ بڑ رہ گئی اور لفظ زوال صحیح طور سے استعمال نہیں ہوا کیونکہ فصل گل پر زوال نہیں‘ خزاں آتی ہے جبکہ زوال ایک طرح سے دائمی ہوتا ہے اور خزاں عارضی جس کے بعد پھر بہار آ جاتی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شعر جیسی نازک چیز کو فنی طور پر بھی بے عیب ہونا چاہیے ورنہ یہ شعر اگر مشہور ہو گیا ہے تو محض اپنے دعائیہ لہجے کی وجہ سے وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کچھ عرصہ قبل برادر خورد محمد اظہار الحق نے قاسمی صاحب کے اس مصرع کو اپنے کالم کا سرنامہ بنایا تھا ع
صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی
جبکہ صبح کا دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلنا امر واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ صبح تو دھوپ نکلنے سے کوئی آدھ گھنٹہ بعد ہی طلوع ہوتی ہے اس کے علاوہ دھوپ اوپر سے اترتی اور چشمہ نیچے سے ابلتا ہے اس لیے بھی دھوپ کا چشمہ محل نظر ہے تو اس کا دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلنا کیسے ممکن ہو گیا‘ البتہ طلوع ہونے کے بعد وہ اس چشمے سے نہا سکتی ہے! سرکھپانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ شعر تو تخلیق حسن کا دوسرا نام ہے اور اگر اس کے مثلاً چہرے پر کوئی شے غیر متوازن ہو تو اس کا سارا حسن ہی برباد ہو کر رہ جاتا ہے یعنی ناک اگر چپٹی ہو‘ آنکھ بھینگی ہو تو وہ چہرہ حسن کی پیروڈی تو کہلا سکتا ہے‘ حسن نہیں۔ ایک بار مجھے ان کی سالگرہ کا دعوتی کارڈ ملا جس پر ایک شعر درج تھا جس میں لفظ ندیم کی وضاحت کی گئی تھی۔ پورا شعر یاد نہیں دوسرا مصرعہ اس طرح تھا
یہ تخلص کا تخلص ہے میرے نام کا نام
مرحوم کے مجموعہ کلام میں بھی یہ مصرعہ اسی طرح درج تھا اور وہ مشاعروں میں پڑھا بھی اسی طرح کرتے تھے۔ میں نے کالم لکھا کہ یہ مصرعہ غلط اور بے معنی ہے سے اس طرح ہونا چاہیے۔
یہ تخلص کا تخلص ہے مرا نام کا نام
لازم نہیں کہ ایسی غلطیاں شاعر کی نااہلی کی وجہ سے رہ جاتی ہوں بلکہ اکثر اوقات اس کی وجہ لاپروائی بھی ہوتی ہے‘ خود میرے ہاں ایسی قباحتیں دستیاب ہو سکتی ہیں لیکن یہ لاپروائی بھی کچھ کم قابل اعتراض نہیں ہے کیونکہ جب آپ شاعری جیسا نفیس و نازک کام کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں تو اس میں تساہل یا لاپروائی کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے۔ شاعری میں کرافٹ کا یہی تو مطلب ہے‘ بلکہ ایک جگہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کرافٹ ہی شاعری ہے! اور ایسی اغلاط کی نشاندہی کرنے کو بالعموم اچھا بھی نہیں سمجھا جاتا جسے ستم بالائے ستم ہی کہا جا سکتا ہے اور غلطیاں تو ہم سب کرتے ہیں‘ اور اگر ان کی نشاندہی نہ کی جائے تو ان کی اصلاح کا کیا امکان باقی رہ جاتا ہے‘ کیونکہ اس طرح سے یہ بات شاعر کے علاوہ قاری کا بھی نقصان اور حق تلفی ہے کیونکہ وہ اسے صحیح ہی سمجھتا رہے گا۔
میں اگر یہ کام کیا کرتا ہوں تو ظاہر ہے کہ بہت رسک لے کرکرتا ہوں کیونکہ ایک تو ہم میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کا رواج اور حوصلہ ہی نہیں ہے‘ دوسرے ایسا کام کرنے والا ناپسندیدہ بھی قرار پاتا ہے اور اس طرح شاعری کا ستیاناس ہوتا رہتا ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ دوسرے یہ بھی گمان کیا جاتا ہے کہ ایسا آدمی اپنے آپ کو کوئی توپ چیز سمجھتا ہے اور ایک خواہ مخواہ کا تعصب پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ کسی صاحب سے یہ کہیں کہ آپ کی قمیض کے کالر پر گرد پڑی ہوئی ہے تو وہ اسے فوراً جھاڑ لیں گے اور آپ کا شکریہ بھی ادا کریں گے لیکن اگر کسی شاعر کے کسی مصرع کے بارے میں ایسا اشارہ کر دیا جائے تو اس کا ردعمل بالعموم ''ابے جا‘‘ کی طرح کا ہو گا۔
یہ درست ہے کہ اصولی طور پر شعر میں کئی گنجائشیں بھی موجود ہوتی ہیں‘ مثلاً آپ ضرورت شعری کے طور پر کوئی رعایت لے سکتے ہیں یا مبالغہ آرائی سے کام لے سکتے ہیں‘ بلکہ شاعری کا بیشتر حصہ تو مبالغہ آرائی ہی پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے بغیر شعر کی گاڑی چلتی ہی نہیں‘ لیکن اس کے بھی کچھ حدود و قیود ہیں کیونکہ مبالغہ اور غلو ایک سطح پر جا کر مضحک ہوجاتے ہیں اور شعر سنجیدہ شاعری کے مدار سے نکل جاتا ہے۔
ویسے بھی‘ عیب جوئی کایہ کام‘ اگر اسے واقعی عیب جوئی کہا جا سکے۔ شروع سے ہی ہوتا چلا آیا ہے‘ مثلاً تسامح غالب جیسی کتابیں موجود ہیں جن میں غالب کے کلام کی اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے اور ایسی کتابیں ادبی حلقوں میں باقاعدہ سراہی جاتی ہیں اور انہیں ایک کار خیر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور شاعر اگر حیات ہو تو اس کی طرف سے احسان مندی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔
پہلے بھی انہی کالموں میں عرض کیا جا چکا ہے کہ کالم نویس حضرات شعری عروض و اوزان سے بالعموم واقف نہیں ہوتے‘ اس لیے ہر اخبار کی انتظامیہ کو اپنے سٹاف میں کسی ایسے فرد کا انتظام و اہتمام بھی رکھنا چاہیے جو اس فن سے کماحقہ‘ واقف ہوتا کہ بوقت ضرورت اس سے استفادہ کیا جا سکے اور ایسی اغلاط کے اعادے سے بچا جا سکے۔ بشرطیکہ کالم نویس کو یہ پسند بھی ہو ورنہ کئی حضرات اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور ایسی غلطیاں کرتے بھی رہتے ہیں۔
آج کا مقطع
جہاں جہاں مرے عیبوں کی آندھیاں ہیں، ظفر
وہیں میں لے کے چراغِ ہنر بھی آتا ہوں