تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-06-2016

کچھ جانور رہ گئے

ہر سال بجٹ کے موقع پر صرف ایک دن کے لیے ہمیں اندازہ ہو پاتا ہے کہ ہم کیا ہیں، کیسے ہیں اور جیسے ہیں ویسے کیوں ہیں یا کب تک ایسے ہی رہیں گے۔ جو اعداد و شمار سال بھر ہمیں ڈراتے رہتے ہیں انہی کو حکومت بجٹ کے زمانے میں اس قدر دل نشیں اور حوصلہ افزاء انداز سے پیش کرتی ہے کہ آنکھوں اور کانوں پر یقین ہی نہیں آتا۔ یہ حکومتوں ہی کا کمال ہے کہ ہر طرح کے خوف اور ذہنی پیچیدگی سے دوچار کرنے والے اعداد و شمار کو بجٹ سے قبل اور اس کے بعد کچھ ایسے ڈھنگ سے پیش کرتی ہیں کہ لوگ اپنے آپ پر رشک کرتے پائے جاتے ہیں۔ اور پھر جب نشہ اترتا ہے تو دل و دماغ کی چُولیں ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ کچھ دن قبل جن اعداد و شمار نے دل و دماغ کو فرحت سے ہم کنار کیا ہوتا ہے وہ جب بے نقاب ہوکر اصلیت کے ساتھ سامنے آتے ہیں تب معلوم ہو پاتا ہے کہ ع 
چار دن کی چاندنی تھی، پھر اندھیری رات ہے! 
حکومت ہر سال بجٹ سے ایک دن قبل اقتصادی سروے جاری کرتی ہے۔ یہ دستاویز قوم کو اپنی حالت کا اندازہ لگانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اقتصادی سروے کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گزرے ہوئے مالی سال میں قومی معیشت ایسی مستحکم رہی کہ بڑی طاقتوں کو منہ دینے کے قابل ہونے میں بس ذرا سی ہی کسر رہ گئی! اگر اقتصادی سروے میں درج کی جانے والی ہر بات پر یقین کرلیا جائے تو یقین کیجیے کہ زندگی میں کوئی دکھ نہ رہے، کوئی پریشانی لاحق نہ ہو اور شب و روز یوں راحت سے گزریں کہ دنیا دیکھے اور حیران ہو۔ مگر افسوس ایسا ہو نہیں پاتا۔ 
یہ جو حقیقت کی دنیا ہے نا، یہ بہت ظالم ... بلکہ ستم ظریف ہے۔ ابھی نیند پختہ بھی نہیں ہوئی ہوتی اور خوابوں کی آمد میں کچھ وقت رہتا ہے کہ حقیقت کی دنیا ہمیں جھنجھوڑکر آنکھوں سے نیند چھین لیتی ہے اور ہم، آپ... سبھی ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ اقتصادی سروے کی میٹھی لوری سُن کر سونے والے ابھی سہانے سپنے کی تیاری کر ہی رہے ہوتے ہیں کہ بجٹ آجاتا ہے۔ اقتصادی سروے میں بیان کردہ خوش نما حقائق کی میٹھی گولی ابھی منہ میں گھوم رہی ہوتی ہے اور اس کے گھلنے کی ابتداء بھی نہیں ہوئی ہوتی کہ بجٹ کا کڑوا کَسیلا ''شربت‘‘ ہمارے حلق میں انڈیل دیا جاتا ہے! پتا نہیں حکومت کو کس بزرجمہر نے مشورہ دیا ہے کہ اقتصادی سروے بجٹ سے صرف ایک دن پہلے جاری کیا جائے۔ ''ٹھنڈیاں تے مِٹھیاں گنڈیریاں‘‘ جیسے فرحت بخش اور رسیلے حقائق سے مُزیّن اقتصادی سروے کو اگر بجٹ سے ایک آدھ ہفتہ قبل جاری کرنے کی روایت قائم کی جائے تو قوم کا بہت بھلا ہوگا۔ زیادہ نہیں تو ایک ہفتے ہی کے لیے سہی، قوم کو بھرپور سکون اور فرحت کا ساتھ میسر تو ہوگا۔ 
ہر سال کی طرح اس بار بھی اقتصادی سروے میں اور بہت سے حقائق کے ساتھ ساتھ ملک کی آبادی کے حوالے سے اعداد و شمار بھی دیئے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مردوں کی تعداد خواتین سے 70 لاکھ زیادہ ہے۔ چین دوست ملک ہے۔ وہاں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے یعنی آبادی کا تناسب بگڑ گیا ہے اور اب لڑکوں کو شادی کے لیے لڑکی آسانی سے نہیں ملتی۔ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح ہم اب آبادی کے تناسب کے معاملے میں بھی چین کی پیروی کر رہے ہیں۔ دوستی ہو تو ایسی ہو! 
پاکستان میں انسانوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی دیگر مخلوق بھی بستی ہے۔ اور وقت نے بارہا ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی غیر انسانی مخلوق اِس سرزمین کے لیے زیادہ مفید ہے! سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے کما حقہ بہرہ مند نہ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اپنے حصے کا کام کرنے کی توفیق کبھی ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان میں پائے جانے والے حیوانات اپنے حصے کا کام بھرپور سَکت اور لگن سے کرتے پائے گئے ہیں۔ اقتصادی سروے کے بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 7 کروڑ 3 لاکھ بکریاں، 3 کروڑ 66 لاکھ بھینسیں، 2 کروڑ 98 لاکھ بھیڑیں، 10 لاکھ اونٹ، 51 لاکھ گدھے، 40 ہزار گھوڑے اور 20 ہزار خچّر پائے جاتے ہیں۔ 
مویشیوں اور دیگر پالتو جانوروں کی خاصی معقول تعداد جان کر دل کو خوشی ہوئی کہ اِس ملک میں صرف انسان نہیں بستے بلکہ چند ایک کام کے جانور بھی بستے ہیں! جانوروں کو اللہ نے یہ صفت عطا کی ہے کہ وہ ہمارا بہت کام کرتے ہیں اور پھر بھی کام بھی آجاتے ہیں یعنی ہم انہیں ذبح کرکے کھا بھی لیتے ہیں! گائیں، بھینسیں اور بکریاں نہ ہوں تو ہم اپنی ضرورت کا دودھ کہاں سے پائیں؟ دودھ نہ ہو تو ملائی، دہی، مکھن، گھی، پنیر ... کچھ بھی کہاں سے آئے، ٹھنڈی ٹھار کچّی اور پکّی لسّی کیسے اور کسے نصیب ہو؟ 
مثل مشہور ہے کہ اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کَل سیدھی مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان کی حدود میں پائے جانے والے 10 لاکھ اونٹ پیٹ بھر کھاتے ہیں تو بار برداری کے ذریعے حق بھی ادا کردیتے ہیں۔ اور کوئی سیدھی کَل نہ رکھنے والے یہ جانور بیشتر پاکستانیوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ انسان رے انسان، تیری کون سی کَل سیدھی! 
اقتصادی سروے میں یہ بات بھی فخریہ انداز سے بیان کی گئی ہے کہ گزشہ برس ملک میں 50 لاکھ گدھے تھے۔ اور اب ایک لاکھ کے اضافے سے 51 لاکھ ہوگئے ہیں۔ یعنی گدھوں کے معاملے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ بہت خوب! گدھوں کا کام ہے بوجھ اٹھانا۔ اِس ملک کا بوجھ بھی اب تک گدھے ہی اٹھاتے آئے ہیں۔ بوجھ چونکہ بڑھ گیا ہے اِس لیے گدھوں کی تعداد میں اضافہ بھی لازم ہے۔ ایسے میں گدھوں کی تعداد کا بڑھنا حوصلہ افزاء ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں صرف 40 ہزار گھوڑے ہیں۔ جب بوجھ اٹھانے کے لیے گدھے اور دیگر جانور موجود ہیں تو گھوڑوں کو تعداد بڑھاکر کیا کرنا ہے۔ ویسے بھی گھوڑے اب جانوروں کی دنیا میں ''اشرافیہ‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں! انہیں بار برداری سے زیادہ ریس کورس میں دوڑائے جانے کے لیے پالا جاتا ہے یعنی اب وہ اہل ثروت کے چونچلوں کا بوجھ اٹھانے کے کام آتے ہیں! 
خچّر صرف 20 ہزار ہیں مگر خیر، اتنے کم بھی بہت ہیں۔ خچّر دوغلے ہوتے ہیں۔ اِس ملک میں دوغلوں کی اب کون سی کمی ہے جو خچّروں کی تعداد بڑھانے پر حکومت توجہ دے! صبح کہی ہوئی بات سے شام کو مُکر جانے والوں نے خچّروں کو بھی شرمندہ رہنے پر مجبور کر رکھا ہے! 
بکریوں کی تعداد 7 کروڑ 3 لاکھ بتائی گئی ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ ملک بھر میں شادی شدہ یعنی ''قربانی کے بکرے‘‘ اِن میں شامل ہیں یا اُنہیں کسی اور کیٹیگری میں رکھا گیا ہے! اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں بھیڑوں کی تعداد 2 کروڑ 98 لاکھ ہے۔ یہ تعداد ہمیں قدرے غیر حقیقت پسندانہ معلوم ہوتی ہے۔ ہر معاملے میں بھیڑ چال اِس قدر ہے کہ ملک میں بھیڑوں کی تعداد کم از کم اِس سے دُگنی تو ہونی ہی چاہیے! 
ہم نہیں جانتے کہ ایسا پالیسی کے تحت کیا گیا ہے یا بھول چُوک ہوگئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک میں پائے جانے والے کچھ جانور اقتصادی سروے میں کہیں مذکور نہیں۔ قومی وسائل کا بڑا حصہ بھنبھوڑ کھانے والے مگر مچھوں کی تعداد اقتصادی سروے میں نہیں بتائی گئی! ان چالاک لومڑیوں کا بھی کہیں تذکرہ نہیں کیا گیا جو اقتدار کے جنگل میں اپنی ہر چال انتہائی کامیابی سے چلتی ہیں اور بیشتر جانور بھولے بادشاہ کی طرح دیکھتے رہ جاتے ہیں! سیاست اور اقتدار کے جنگل میں پائے جانے والے اُن بھیڑیوں کا بھی اقتصادی سروے میں کہیں ذکر نہیں جو قوم کی محنت کی کمائی پر منہ مارنے میں ذرا تساہل سے کام نہیں لیتے! ہمیں امید ہے کہ آئندہ برس کے اقتصادی سروے میں مویشیوں کے ساتھ ساتھ اِن تمام جانوروں کی تعداد بھی بتائی جائے گی جو چُپکے چُپکے بہت کچھ ہڑپ کر جاتے ہیں اور ڈکار لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved