کراچی کے ایکسپو سنٹر میں ایک فلاحی تنظیم کی جانب سے راشن کی مفت تقسیم کے دوران بدنظمی اور بھگدڑ سے متعدد خواتین زخمی ہو گئیں۔ ویسے تو ہڑبونگ اور بدنظمی ہمارے قومی کلچر کا حصہ ہے اور ہم ایئرپورٹ پر ہوں‘ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں یا سڑک پر‘ اپنی اس قومی خاصیت کو ہرگز نہیں بھولتے‘ مگر راشن کی تقسیم کے موقع پر بدنظمی کی وجہ کچھ اور ہے ۔ غریب و مفلوک الحال لوگوں کی آپا دھاپی کا سبب یہ احساس ہے کہ معلوم نہیں پھر کبھی مفت راشن ملے یا نہ ملے اور اپنی‘ اپنے بچوں کی فاقہ کشی کا درماں ہو یا نہ ہو‘ لہٰذا جس قدر سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو۔ بعض شائستہ اور مہذب احباب اس صورتحال کو تربیت میں کمی‘ لالچ اور نظم و ضبط کے فقدان سے تعبیر کرتے ہیں مگر مجھے ساحر لدھیانوی یاد آتے ہیں ؎
مفلسی حِسِّ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی
پاکستان میں غربت و امارت میں فاصلہ روز بروز بڑھ رہا ہے‘ سرمایہ چند ہاتھوں میں سمٹ رہا ہے اور غربت ہر سُو پنجے گاڑرہی ہے۔ ہم ہر وقت دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ قتل و غارت گری‘ بھتہ خوری اور دیگر سنگین جرائم کا رونا روتے ہیں۔ نسلی‘ لسانی اور مذہبی بنیادوں پر جتھے تشکیل دے کر نوجوان نسل کو ریاست اور عوام کے خلاف استعمال کرنے والوں کی مذمت بھی کرتے ہیں مگر اسلام‘ پاکستان اور قوم کے یہ دشمن گروہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے جن سادہ لوح نوجوانوں پر کمند ڈالتے ہیں اُن کی محرومیوں‘ مجبوریوں اور بے بسی کا اندازہ کبھی لگاتے ہیں نہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ماں کے پیٹ سے دہشت گرد پیدا ہوا نہ کوئی ماں اپنے نونہال کو ملک دشمنی‘ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی لوری سناتی ہے۔ جرائم پیشہ افراد میں سے بھی بہت کم‘ نہ ہونے کے برابر بدبخت ایسے ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کو گناہوں اور جرائم کی دلدل میں دھکیلنا پسند کرتے ہوں ۔یہ ماحول ہے اور معاشرے کی ساخت جو اچھے بھلے سلیم الفطرت انسان کو اپنے مقصد حیات سے بغاوت پر اکساتا اور بُرائی کو بطور پیشہ‘ مشغلہ اور مشن اپنانے پر آمادہ کرتا ہے۔ والدین‘ اساتذہ‘ دوست احباب اور حالات انسان کو سبزہ و گل سے آراستہ راستے پر چلنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور گاہے کانٹوں سے اٹی روش پر بھی۔
کوئی مانے نہ مانے ریاستی ڈھانچہ اور حکمران اشرافیہ تاحال اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہے اور احمد ندیم قاسمی کی دعا بظاہر رائیگاں ؎
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
مگر عبدالستار ایدھی‘ ڈاکٹر ادیب رضوی‘ ڈاکٹر امجد ثاقب‘ مولانا بشیر فاروقی قادری‘ ڈاکٹر عامر عزیز‘ محسن گھرکی‘ نعمت اللہ خان‘ عبدالشکور‘ سید عامر جعفری‘ منو بھائی اور ڈاکٹر یاسین خان‘ حاجی عبدالرزاق چھیپا جیسے دیگر سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ غنیمت ہیں جو خدمت خلق‘ خدا ترسی اور عوام دوستی کے جذبے سے سرشار اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کے ساتھ ریاست‘ معاشرے اور قومی وسائل پر قابض اشرافیہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیںاور جن کی کاوشوں سے یہ سماج ابھی تک خونخوار انارکی سے بھی محفوظ ہے۔
ملک میں بے روز گاروں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زائد ہے‘ دس کروڑ عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں‘ اٹھارہ ہزار دینی مدارس‘ تیس لاکھ کے قریب نوجوانوں کی کفالت کے علاوہ انہیں کسی نہ کسی حد تک تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم نہ کریں تو بے روزگاروں اور بھوکوں کی فوج میں مزید اضافہ ہو اور رزق‘ روزگار‘ تعلیم‘ طبی سہولتوں سے محروم یہ بھوکے‘ ننگے‘ مایوس و مضطرب معلوم نہیں کہاں کہاں کیا کیا قیامت ڈھائیں۔ غربت و افلاس کے مارے عوام کا ایک اور ذہنی و معاشی سہارا بزرگان دین کی درگاہیں ہیں حضرت سید علی ہجویریؒ‘ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ‘ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ‘ حضرت بری امام ؒاور دیگر صلحاء کے مزارات سے ہر ضرورت مند کو مفت کھانا ملتا ہے۔ یہ ہمارے صوفیا کا وہ فیضان ہے جس کی دنیا بھر میں نظیر نہیں ملتی۔ حضرت ابوالحسن خرقانیؒ نے اپنی درگاہ کے دروازے پر لکھوا رکھا تھا‘ ہر کہ دریں جامی آید نانش بدہید و از ایمانش مپرسید (جو شخص بھی یہاں آئے اس سے روٹی کا پوچھو عقیدہ و ایمان کا نہیں) ضرورت مندوں‘ محتاجوں اور مستحقین کی یہی وہ مالی مدد ہے‘ راہ خدا میں خرچ کیا گیا مال ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے پس اللہ تعالیٰ اسے بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے‘‘۔
گزشتہ روز ڈاکٹر عامر عزیز نے گھرکی ٹرسٹ ہسپتال کے سپائن سنٹر کے لیے عطیات کی اپیل کی تو اللہ تعالیٰ کو قرض دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ایک کروڑ‘ دو کروڑ‘ اڑھائی کروڑ دینے والوں نے اپنے نام کی اشاعت سے منع کیا تو یقین آیا کہ اللہ کو قرض دینے والے یہ خوش قسمت لوگ صرف روز قیامت صلہ و ستائش کی تمنا رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عامر عزیز انہی کے تعاون سے دنیا کا بہترین سپائن سنٹر قائم کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔الخدمت فائونڈیشن نے یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم کا ذمہ لے رکھا ہے اور ان کے قائم کردہ سکولوں میں صرف یتیم بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی بیوہ مائوں کی کفالت بھی کی جاتی ہے تاکہ بچے اطمینان قلب سے اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں۔ ''کفالت یتیم بھی‘ رفاقت رسولؐ بھی‘‘ الخدمت فائونڈیشن کا ماٹو ہے۔ رسولﷺ کا فرمان ہے : ''کسی یتیم کی کفالت کرنے والا شخص میرے ساتھ جنت میں داخل ہو گا‘‘۔ آپؐ نے انگشت شہادت کے ساتھ دوسری انگلی ملا کر اشارہ فرمایا ۔
اخوّت نے وہ کام کر دکھایا ہے جو پاکستان جیسے معاشرے میں بظاہر ناممکن نظر آتا تھا ۔ضرورت مندوں کو کاروبار‘ تعلیم اور دوسری ضروریات کے لیے بلاسود چھوٹے قرضے‘ جن کی واپسی 99 ء 99 فیصد ہے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے والے لاکھوں مرد و خواتین اب اخوّت کے ڈونر ہیں۔ چودہ لاکھ خاندانوں کو روزگار فراہم کرنے والے اس ادارہ کا بجٹ ستائیس ارب تک پہنچ چکا ہے۔
سُندس فائونڈیشن تھیلیسمیا کے مریض بچوں کے علاج کے لیے سرگرم عمل ہے‘ منو بھائی اور ڈاکٹر یاسین خان کی محنت رنگ لائی ہے اور ہر ماہ ہزاروں مریض بچے تازہ خون سے نئی زندگی حاصل کرتے ہیں۔ اہل خیر جانتے ہیں کہ تھیلیسمیا کے مریض کس طرح جیتے اور والدین کس کرب سے گزرتے ہیں۔ ُسندس فائونڈیشن کا دائرہ کار روز بروز وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نادار بچوں کی تعلیمی ضرورتیں پوری کر رہا ہے اور ملک کے پسماندہ علاقوں میں اُن والدین کے لیے سہارا بن گیا ہے جو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل نہیں‘ دل اگرچہ ان کا بہت چاہتا ہے۔ کراچی کا سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ پہلے تو صرف لوگوں کو صبح‘ دوپہر‘ شام کھانا کھلاتا تھا‘ لاکھوں لوگ اچھا کھانا کھاتے اور سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے منتظمین کے علاوہ اُن مخیر حضرات کو دعائیں دیتے جو سالانہ اربوں روپے ٹرسٹ کو فراہم کرتے ہیں مگر اب اس نے تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی قدم رکھا ہے اور بلامبالغہ ہزاروں افراد کو اپنی سروسز فراہم کر رہا ہے‘ کسی معاوضہ اور احسان کے بغیر۔ ملک ریاض کے بحریہ دسترخوان کی طرح سیلانی دسترخوان بھی لوگوں کی بھوک مٹاتا اور انہیں بے چینی‘ مایوسی‘ غصے اور اشتعال سے باز رکھتا ہے۔ اسی طرز کے اداروں کی کاوشوں کے طفیل پاکستان عراق‘ شام‘ لیبیا اور یمن بننے سے محفوظ ہے ورنہ کروڑوں بھوکے صرف سنگدل اشرافیہ نہیں بے بس سفید پوشوں کی بھی بوٹیاں نوچ لیں۔ ایکسپو سنٹر میں مچنے والی بھگدڑ ریاست اور اس کے اداروں کے علاوہ اُن مالداروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جو اپنی تجوریوں میں دولت اور قلعہ نما محلات میں اپنے آپ کو اور اہل خانہ کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ اگر یہ ادارے اور اللہ تعالیٰ کو قرض دینے والے اہل خیر نہ ہوں‘ بزرگان دین کے مزارات پر لنگر نہ کھلے ہوں تو کروڑوں کی تعداد میں یہ بھوکے لوگ ان کا کیا حشر کریں جن کی حِس لطافت مٹ چکی اور جن کی بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی ؎
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انساں سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقائوں کی ہڈیاں تک چبا لیں
رمضان المبارک میں ان اداروں کی زکوٰۃ و عطیات سے امداد ہمارا فرض ہے اور ضرورت مندوں کا قرض۔ کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ کو قرض دینے والوں میں شامل ہو کر اپنی دُنیا اور عاقبت سنوار لیں۔