تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-06-2016

کس طرح؟ آخر کس طرح؟

اس لیے کہ ہم مغالطے پیدا کرتے‘ ان کی پرورش اور آبیاری کرتے ہیں۔ ہم خیالات کی ایک جنت آباد کرتے ہیں‘ پھر چاہتے ہیں کہ اس میں جا بسیں۔ کس طرح یہ ممکن ہے‘ آخر کس طرح؟
''پختون خوا میں مفت بجلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر بھی ہر ماہ بجلی کا بل خودکش حملہ آور کی طرح ہر گھر پہ گرتا ہے۔ مہنگی بجلی نے قوم کو بھکاری بنا دیا۔ بین الاقوامی سازش کے تحت‘ قوم کے لیے بجلی کو بے حد مہنگا کرکے اس کی معیشت اور ذہنی سکون کو تباہ کردیا گیا ہے۔ اس عالمی سازش میں ہمارے نالائق اور کرپٹ حکمران برابر کے شریک ہیں۔ پختون خوا میں کم از کم ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے‘ جو ایک عظیم معاشی انقلاب برپا کردے‘‘۔
پشاور سے یہ پیغام ابھی ابھی میرے ایک دوست نے بھیجا ہے‘ جب میں ایک کے بعد دوسرا اخبار کھنگال رہا تھا کہ ڈھنگ کا کوئی موضوع نصیب ہو۔ ذہن واضح ہو تو موضوعات کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ تین چار‘ بعض اوقات دس عنوانات میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ جو زیادہ اہم ہو یا دل کو زیادہ بھائے۔ غوروفکر کرتے ہوئے ایک خیال برق کی طرح چمکتا ہے اور چاروں طرف اجالا سا ہو جاتا ہے۔ آفتاب نہیں یہ مہتاب کا نور ہوتا ہے۔ چودھویں کا چاند‘ جس میں مناظر کچھ اور بھی دلآویز‘ کچھ اور بھی تابناک ہو جاتے ہیں۔ زخم تو ظاہر ہے کہ زخم ہی رہتے ہیں اور کراچی میں کوڑے کے انبار‘ کوڑے کے انبار ہی۔ ان کا طواف کرتے سیاستدان ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے کہ دکھائی دینے چاہئیں۔ اس کے باوجود ایک تازہ خیالی کی دھیمی سی آنچ زندگی کو گوارا بنا دیتی ہے۔ امید کی ایک کونپل پھوٹتی ہے‘ پھر دوسری اور تیسری۔ زندگی کا سب سے بڑا لطف شاید سیکھنے کی
مسرت ہے۔ ایک اچھا خیال اپنے جلو میں موزوں الفاظ کا ایک لشکر لے کر طلوع ہوتا ہے‘ جس میں سے آپ کو انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ انسانی ذہن کے خوابیدہ گوشے انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ آپ نے پڑھا اور سنا تھا‘ وہ اجاگر ہونے لگتا ہے۔ ابھی ابھی یا برسوں پہلے۔ جس طرح دیر تک برسنے والی بارش کھنڈرات کو دھو کر نمایاں کردیتی ہے اور ایک روشنی سی ان میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ گزرے ہوئے زمانے‘ ان میں آباد آدم زاد۔ ان کے غم‘ ان کی مسرتیں اور ان کے انتظار۔ ان کے خواب اور الم۔ ایک ساتھ کئی زمانوں میں لکھنے والا جینے لگتا ہے‘ ماضی کے دھندلے درودیوار اور سقف و بام‘ حال کے سنگین حقائق اور مستقبل کے امکانات‘ جو آج کے غم سے نجات دلا سکتے ہیں۔ داغستان کے امیرالشعراء رسول حمزہ کو ایک جواں سال شاعر نے لکھا: براہ کرم میرے لیے ایک موضوع تجویز کیجئے۔ جواب میں انہوں نے کہا: خدا سے یہ دعا نہ کرو کہ وہ تمہیں موضوع عطا کرے بلکہ آنکھیں تاکہ تم دیکھ سکو اور پہچان سکو۔
ہر چیز ایک خیال اور خواب سے پھوٹتی ہے۔ معرکے کا ایک افسانہ‘ ایک غزل جو فکر کو جگمگا دے‘ ایک شاندار عمارت جس کے مکین اس کے جمال سے بہرہ مند ہوں۔ ایک ادارہ جس کا فیض آئندہ مہ و سال میں ندی کی طرح بہتا رہے۔
آدمی کے عظیم ترین مسائل میں سے شاید ایک کنفیوژن ہے‘ مخمصہ اورضغطہ۔ ڈاکٹر محمد اجمل مرحوم جس کے لیے دبدھالفظ برتا کرتے۔ اگر خیالات کے جنگل میں وہ بھٹکتا رہے اور کوئی راہ نہ پا سکے۔ چھوٹا یا بڑا کوئی مخمصہ اگر باقی و برقرار رہے تو رفتہ رفتہ بجائے خود ایک اذیت بن جاتا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے تنکا اٹھایا اور زمین پر کچھ لکیریں کھینچیں‘ ٹیڑھی میڑھی سی اور پھر ایک صاف‘ سیدھی لکیر۔ فرمایا: یہ صراطِ مستقیم ہے۔ زندگی کو سمجھ لینا‘ اس میں اپنے کردار کا تعین کرنا‘ پھر صبر‘ عزم اور استقلال سے اس پر گامزن رہنا۔ فقط ایک سیدھی سڑک بلکہ اس جلیل مقصد کے لیے جو زندگی سے بہت بڑا ہے‘ بہت ہی بڑا۔ زندگی ختم ہوتی ہے اور مسافت جاری رہتی ہے۔ خواہ جان چلی جائے: 
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب میں ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
پاکستانی سیاست سنورتی کیوں نہیں؟ آگے کیوں نہیں بڑھتی؟ بار بار وہی اسحٰق ڈار‘ وہی نوازشریف اور وہی بھٹو ہمارے در پے کیوں ہوتے ہیں۔ پیہم اور مسلسل اسی گرانی‘ اسی بدعنوانی‘ اسی ناانصافی کا شکوہ کیوں باقی ہے۔ میاں محمد بخش کے الفاظ میں زندگی‘ کیکر کے درختوں پر لٹکی پرانی دھجیوں ایسی کیوں ہوگئی؟
اس لیے کہ ہم مغالطوں کا شکار ہیں‘ مخمصوں کا۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ اسی دلدل میں ہم استراحت فرمانا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کوئی معجزہ برپا ہو اور دلدل سوکھ جائے۔ سوکھ جائے اور اس میں ایک گلزار کھل اٹھے۔ شجرنمودار ہوں اور ان پر طیور چہکنے لگیں۔ ایسا بھی کبھی دنیا میں ہوا تھا؟
یہ ضرور ہے کہ پن بجلی پر اٹھنے والے اخراجات نسبتاً کم ہوتے ہیں مگر پختون خوا میں مفت بہرحال پیدا نہیں ہوتی۔ پھر یہ کہ صوبائی حکومت بجا طورپر وفاق سے اس کا منافع طلب کرتی ہے۔ اربوں روپے سالانہ اور پیداوار بڑھنے کے ساتھ یہ منافع بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ادائیگی میں مرکز تاخیر کرتا ہے تو صوبائی حکومت کے اعیان و انصار چیخ و پکار کرتے ہیں اور انہیں کرنی ہی چاہیے۔ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کا ذمہ دار وفاق ان اخراجات کو اگر بل میں شامل نہ کرے تو اور کیا کرے؟ خود فریبی سے چند لمحے بچا کر اگر غوروفکر ممکن ہو تو ادراک ہو سکتا ہے‘ بجلی کی غیرمعمولی قیمت کسی بین الاقوامی سازش نہیں بلکہ ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اور بے شک کرپشن کا بھی۔ کیا یہ امریکی‘ بھارتی اور یہودی ہیں جو ہم سے کہتے ہیں کہ ہم پانی سے توانائی پیدا کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبے نہ بنائیں۔ پھر یہ کہ سارا سال پانی میسر اور مہیا نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے لیے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی نادر نسخہ نہیں‘ دریائوں پر بند تعمیر کرنے کا سلسلہ تین ہزار برس سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ یمن کا سد مأرب شاید اس کی پہلی بڑی مثال تھا۔ اس کے لیے مگر سرمایہ درکار ہے اور سیاسی ہم آہنگی۔ ملک کے تین صوبے‘ درحقیقت ان کے شعبدہ باز سیاستدان اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے مخالف ہیں تو تکمیل کیا‘ اس کی ابتدا بھی کیسے ممکن ہے۔ وہ ڈیم کہ اگر بن جائے تو ڈیرہ اسمٰعیل خان اور اس کے نواح کی لاکھوں ایکڑ اراضی‘ لاکھوں خاندانوں کو ادبار سے نکال دے۔ جس سے ایک ارب یونٹ بجلی پیدا ہو‘ جو اگر بن گیا ہوتا تو 2009ء اور 2010ئکے سیلاب تباہی نہ مچاتے‘ ملک کی 25 فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح جن سے متاثر ہوئی۔ پھر یہ کہ ایک لاکھ نہیں بلکہ پختون خوا اور آزاد کشمیر میں مجموعی طور پر زیادہ سے زیادہ 40 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ جی ہاں‘ کم قیمت مگر اس کے لیے چھوٹے بڑے بند بنانا ہوں گے۔ بہت مہنگی مشینری خریدنا ہوگی‘ کھمبے گاڑنا ہوں گے‘ تاریں بچھانا ہوں گی۔ صرف تعمیر ہی نہیں‘ تقسیم اور نگرانی کے لیے ‘بل بنانے اور وصول کرنے کے لیے افراد کار درکار ہوں گے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر سکھر‘ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بجلی کے خریدار ادائیگی کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ کراچی میں سیاستدان اگرکنڈے لگانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ باقیوں کو بیس فیصد زیادہ ادائیگی کرنا ہوگی۔
کیا آپ کا خیال ہے کہ وہ پیغام بھیجنے والا کوئی نیم خواندہ اور بے خبر آدمی ہے۔ جی نہیں‘ وہ ایک صاف ستھرا کاروباری ہے۔ مہمان نواز اور دوست پرور۔ قومی اسمبلی کا ٹکٹ اگر اسے مل گیا ہوتا تو اس کی فتح بڑی حد تک یقینی تھی۔ ایسی بات وہ کیوں کہتا ہے‘ جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔
اس لیے کہ ہم مغالطے پیدا کرتے‘ ان کی پرورش اور آبیاری کرتے ہیں۔ ہم خیالات کی ایک جنت آباد کرتے ہیں‘ پھر چاہتے ہیں کہ اس میں جا بسیں۔ کس طرح یہ ممکن ہے‘ آخر کس طرح؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved