کوئی مانے یا نہ مانے، زمانے کا بیڈ لک بہت خراب چل رہا ہے! حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ کلاسیکل گانے والے بھی اب تان پلٹے حالات سے سیکھنے پر غور کر رہے ہیں! آپ سوچیں گے زمانہ کب اچھا تھا‘ اور حالات کب خراب نہیں تھے۔ ٹھیک ہے، ہر دور میں خرابیاں رہی ہیں مگر اب تو معاملات کچھ اس نوعیت کے ہو گئے ہیں کہ بالکل سامنے کی چیز بھی دکھائی دیتی ہے نہ سمجھ میں آتی ہے!
فی زمانہ جن چند شعبوں کی دھوم مچی ہوئی ہے ان میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی شامل ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ انٹرٹینمنٹ اور تعلیم ایک دوسرے میں پیوست ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلیم کو تفریح اور تفریح کو تعلیم بنانے کی کوششیں قابل رشک تواتر سے جاری ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں اتنے اور ایسے تجربے کیے جا رہے ہیں کہ نئی نئی اور حیران کن خبریں آتی رہتی ہیں۔ تعلیم کے ماہرین یہ ثابت کرنے پر کمربستہ رہتے ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ صرف اور صرف تعلیم کی بدولت ہے۔ ہم نے تو نسیم بیگم کی آواز میں یہ سُنا تھا: ؎
محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
مگر تعلیم کے ماہرین ہمیں یہ ماننے پر مجبور کر رہے ہیں کہ تعلیم نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے! اور حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ تعلیم کے شعبے میں ہو رہا ہے وہ ہے بھی کچھ ایسا کہ کبھی کبھی تو دل یہ ماننے لگتا ہے کہ تعلیم نہ ہو تو دنیا کی رنگینی ختم ہو جائے، ساری رونق دم توڑ دے۔ نئے زمانے کی تعلیم جو گل کھلاتی آئی ہے اُن کی ''خوشبو‘‘ سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ گزشتہ صدی میں اکبرؔ الٰہ آبادی نے جدید تعلیم کے حوالے سے چند ایک نکات اشعار کی شکل میں ہم پر واضح کر دیئے تھے۔ مثلاً ؎
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں!
اکبرؔ الٰہ آبادی نے یہ سب کچھ مغربی تعلیم کے تناظر میں کہا تھا‘ اور پھر دنیا نے دیکھ بھی لیا کہ مغربی تعلیم نے دنیا بھر میں اخلاقی اقدار کا کیا حشر کیا۔ جدید مغربی تعلیمی نظریات نے شرم و حیا کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ نئی نسل کو خالص مادّہ پرستانہ نظریات کا حامل بنانے پر اتنی توجہ دی گئی کہ معاشروں کا شیرازہ بکھر گیا۔
بات اتنی بگڑ چکی کہ اب مغرب کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ واپسی کا سفر شروع نہ کیا‘ تو سفر کے حق ہی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ تعلیم کے نام پر کیا کیا تماشے نہ ہوئے مگر اب ایک ایسا تماشا پروان چڑھا ہے کہ امریکہ جیسا آزاد خیال ملک بھی پریشان دکھائی دے رہا ہے۔ اور اس کی دیکھا دیکھی چین بھی احتیاط برتنے پر مائل ہوا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اب ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہر دو طرح کے ممالک میں تعلیمی اداروں کا ماحول علم کے حصول کی لگن کے ساتھ ساتھ من کی لگن کو بھی فروغ مل رہا ہے! آپ سوچیں گے اس میں نیا کیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں دل سے دل ملانے کی ''تابندہ روایت‘‘ تو بہت پرانی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں من کی لگن بھی پروان چڑھتی ہی ہے کیونکہ ان میں نئی نسل پڑھتی ہے۔ ایک کلاس میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں محبت کی راہ پر گامزن ہوں تو حیرت کیسی؟ بقول ساحرؔ لدھیانوی ؎
پیار کر لیا تو کیا؟ پیار ہے، خطا نہیں!
تیری میری عمر میں کس نے یہ کیا نہیں؟
محبت اب ایک قدم آگے بڑھ گئی ہے۔ ہم نئی نسل سے تعلق رکھنے والوں اور والیوں کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی بات نہیں کر رہے۔ ہم تو اس رومانس کی بات کر رہے ہیں‘ جو ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کے درمیان پنپ رہا ہے! معاملات اتنی تیزی سے الجھتے جا رہے ہیں کہ چین کے ایک پروفیسر نے ٹیچر اور سٹوڈنٹ کے درمیان محبت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے! چائنا یوتھ ڈیلی میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر یان یمنگ نے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کرکے تعلیمی اداروں میں پنپنے والے ''رومانٹک بحران‘‘ کی طرف اہل وطن کی توجہ منعطف کرانے کی کوشش کی ہے۔
پروفیسر یان یمنگ کو شاید اندازہ نہیں کہ مغرب کی تو پوری تعلیم ہی اس نکتے پر مرکوز ہے کہ زندگی صرف اور صرف اپنی مرضی کے مطابق گزاری جانی چاہیے۔ جسے جو کچھ بھی کرنا ہے، بخوشی کرے۔ کوئی اسے ٹوکنے اور روکنے والا نہیں۔ ہاں، جو کچھ بھی ہو وہ فریقین کی رضامندی سے ہو۔ یعنی کوئی کسی پر کسی بھی طرح کا دباؤ نہ ڈالے، جبر نہ ڈھائے۔ اور محبت کا معاملہ تو ہے ہی ایسا کہ جب تک فریقین ایک پیج پر نہ آئیں، بات نہیں بنتی۔
چین نے بہت سے معاملات میں مغرب کو بہت تیزی سے اپنایا ہے۔ پروفیسر یان یمنگ کو کیا اندازہ نہیں کہ چینی معاشرہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ بھرپور اقتصادی قوت نے چین کو بہت سے معاملات میں تجربات کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈھائی تین عشرے پہلے کا چین اب فضا میں تحلیل ہو چکا ہے۔ ایسے میں پرانی اقدار کے بارے میں سوچنا بہت عجیب لگتا ہے۔ چینی معاشرہ پرانی اقدار کا دلدادہ رہا ہے‘ مگر مغرب سے خوب روشناس ہونے کے بعد اب چین کی نئی نسل بہت کچھ ایسا کرنا چاہتی ہے‘ جو گزرے ہوئے زمانوں کی ہر بات اور ہر یاد کو دل و دماغ سے مٹا دے۔
محبت کسی بھی پابندی کو قبول کرتی ہے نہ برداشت۔ پروفیسر یان یمنگ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ محبت کرنے والے کسی اور کی تو کیا، اپنی بھی پروا نہیں کرتے! یعنی اپنے ہی اصولوں کو روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ یان یمنگ اب تک ڈھائی تین عشرے پہلے کے چین میں جی رہے ہیں جس میں اقدار تھیں، ایک دوسرے کا احترام تھا، محبت بھی سوچ سمجھ کر کی جاتی تھی اور شادی تو خیر بہت ہی سوچ سمجھ کر کی جاتی تھی۔ آج کا چین مغرب کے بتائے ہوئے طور طریقے اختیار کر رہا ہے۔ مغرب آزادی کا علم بردار ہے‘ اور آزادی بھی ایسی ویسی نہیں بلکہ مادر پدر آزادی! مغرب نے شخصی آزادی کا جو تصور متعارف کرایا ہے اُسے پانے کے بعد کوئی بھی قابو میں نہیں رہتا۔ لوگ ریاست یا معاشرے کی طرف سے معمولی سی بھی قدغن برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ٹیچر اور سٹوڈنٹ کے درمیان رومانس کا تصور بھی مغربی معاشرے ہی کی دَین ہے۔ مغرب سے جہاں اور بہت کچھ لیا ہے، ٹیچر سٹوڈنٹ رومانس کا آئیڈیا بھی قبول کرنے میں کیا ہرج ہے! تعلیمی ادارے اُسی وقت پنپتے ہیں جب اُن کا ماحول مکمل طور پر آزاد ہو اور کسی پر کسی بھی طرح کا دباؤ نہ ہو۔ مکمل آزاد ماحول ہی میں علم کے حصول کی لگن پروان چڑھتی ہے۔ جو کچھ بھی سیکھنے کی مرضی ہو وہ سیکھنے کی آزادی ملنی چاہیے۔ امریکہ میں سماجی موضوعات پر کی جانے والی تحقیق بھی اِسی آزادی کی عکّاس ہے۔ چین تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ایسے میں پروفیسر یان یمنگ جیسے لوگ سارے رونق میلے ہی کو ٹھکانے لگانے کی بات کر رہے ہیں۔ پیار کرنے والوں کی راہ روکنا بہت خطرناک عمل ہے۔ اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
راستے بند کیے دیتے ہو ویرانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے!
چین تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ایسے میں پروفیسر یان یمنگ جیسے لوگ تہذیب اور اقدار کی بات کرکے سب کے منہ کا ذائقہ خراب کرنے کی کوشش نہ کریں! مغرب کو ماڈل کے طور پر اپنا لیا ہے تو اُس کی ہر خوبی اور خامی کو اپنایا جائے گا۔ اور جسے آپ خامی سمجھ رہے ہیں وہ پیار کرنے والوں کے نزدیک تو کسی بھی سطح کی خامی نہیں! مغرب کا ثقافتی درس یہی تو ہے کہ جو جیسے جینا چاہتا ہے اُسے ویسے ہی جینے دیا جائے، راہ میں کوئی دیوار نہ اٹھائی جائے!