منیر نیازی نے سوال پوچھا تھا ع
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟
ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا نہیں، یقینا اِس ملک کے تاجر پر آسیب کا سایہ ہے۔ روزنامہ دنیا کے رپورٹر عمیر چودھری نے دہائی دی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ایک دن پہلے ہی چالیس سے زائد بنیادی ضرورت کی اشیاء مہنگی کر دی گئی ہیں۔
ان اشیا میں آلو سے لے کر دال تک، اور مرچ سے لے کر چینی تک تمام وہ اشیا شامل ہیں جو ہر گھر میں استعمال ہوں گی۔ گرمیوں کے روزے ہیں۔ شام کو شربت کی ضرورت سب سے زیادہ پڑے گی۔ جام شیریں کی بوتل 160 سے بڑھا کر ایک سو ستر روپے کر دی گئی ہے! اس فہرست میں گوشت بھی شامل ہے پھلوں پر کلہاڑے کا وار سب سے زیادہ شدید ہے کیونکہ ہر گھر میں چاٹ بننی ہے۔ یوں لگتا ہے ایک مست اونٹ ہے جسے کھول دیا گیا ہے۔ ہر طرف دوڑتا پھرتا ہے، جو سامنے آتا ہے، ہلاک ہو جاتا ہے۔ معاف کیجیے، بات سخت لگے گی مگر رمضان آتے ہی ہمارا تاجر مست اونٹ کی طرح ہو جاتا ہے! اس کے جبڑوں کو، چیرنے اس کے دانتوں کو، چبانے اوراس کے پاؤں کو رگیدنے کے لیے کچھ نہ کچھ چاہیے۔ سامنے گاہک نظر آتا ہے۔ ساری مستی، سارا پاگل پن، سارا جنون، اس پر نکلتا ہے۔ وہ گاہک کو پاؤں سے رگیدتا ہے۔ جبڑوں سے چیرتا ہے اور دانتوں میں رکھ کر چبا جاتا ہے!
وزیر خزانہ نے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو خط لکھا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہونے سے روکیں۔ صوبائی حکومتیں کیا کر لیں گی؟ ہر تاجر پر، ہر دکان پر، پولیس کا سپاہی تو تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ قیمتیں چیک کرنے والا انسپکٹر کہاں کہاں جائے گا۔ جمعہ بازاروں اور اتوار بازاروں میں کئی بار دیکھا کہ لکھ کر لگائی گئی قیمتیں اور ہیں۔ جو وصول کر رہے ہیں، وہ زیادہ ہیں۔ پوچھیے تو کہیں گے کہ بازار کی انتظامیہ کو دکھانے کے لیے ہیں مگر اصل قیمت وہی ہے جو ہم مانگ رہے ہیں!
اس کائنات میں جتنے مسائل لاینحل ہیں۔ جتنے راز سر بستہ ہیں، ان میں سے سر فہرست یہ ہے کہ پاکستانی تاجر کو بیماری کون سی لا حق ہے؟ آخر دوسرے ملکوں میں کرسمس کے موقع پر اشیا سستی کیوں ہو جاتی ہیں؟ اب تو اِن تمام ملکوں میں رمضان آتے ہی رمضان پیکج بھی سامنے آجاتے ہیں۔ یہ غیر مسلم، جن کا رسالت پر ایمان ہے نہ آخرت پر، رمضان کے لیے اشیا ارزاں کر رہے ہیں، ہمارا تاجر، جو اکثر و بیشتر صورت سے بھی متشرع ہے، پائنچے بھی ٹخنوں سے اوپر رکھتا ہے، اذان کی آواز سن کر مسجد کی طرف بھی دوڑتا ہے، عمرے بھی کرتا ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ ناروا نفع خوری سے، ذخیرہ اندوزی سے، باز نہیں آتا۔ ٹیکس چوری کرتا ہے۔ خریدا ہوا مال واپس کرتا ہے نہ تبدیل کرتا ہے۔ شے بیچتے وقت نقص چھپاتا ہے۔ گارنٹی زبان سے دیتا ہے، لکھ کر نہیں دیتا۔ رسید مانگیں تو برا سا منہ بنا کر رسید یوں دیتا ہے جیسے گاہک کے والد صاحب پر احسان کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اس نے برآمدے پر بھی قبضہ کیا ہؤا ہے، سامنے کے فٹ پاتھ کو بھی دکان کا حصہ بنایا ہؤا ہے۔ سڑک اور دکان کے درمیان والی سرکاری زمین ریڑھی والے کو، ''معاوضہ‘‘ لے کر، خود ہی الاٹ کر رکھی ہے!!
آخر سبب کیا ہے؟ ہو سکتا ہے آپ اس کا سبب حکمرانوں کی کرپشن قرار دیں، یا یہ کہ مقامی حکومتوں کا چیک اینڈ بیلنس سسٹم ناپید ہے! یہاں تو خود مقامی حکومتیں ہی وجود میں نہیں آرہیں! مگر اصل سبب وہی ہے جو دودھ میں پانی ملانے والی بڑھیا کو اس کی بیٹی نے بتایا تھا کہ امیر المومنین نہیں دیکھ رہے، خدا تو دیکھ رہا ہے! خدا کا خوف ہی ہے جو برائی سے روک سکتا ہے!
مگر غیر مسلم ملکوں میں غیر مسلم تاجروں میں سے تو بہت سے ایسے ہیں جن کا خدا پر بھی یقین نہیں ہے! وہ عیسائی ہیں نہ بدھ۔ پوچھیے کہ تمہارا خدا پر یقین ہے تو مسکرا کر جواب دیں گے، میرا اپنے آپ پر یقین ہے! تو پھر وہ سارے اہتمام کیوں کرتا ہے جو مسلمان تاجروں کو بتائے گئے ؟ نقص تو وہ فوراً بتاتا ہے۔ کئی بار تجربہ ہؤا کہ دکاندار نے خندہ پیشانی سے بتایا کہ تمہاری مطلوبہ شے فلاں دکان سے ملے گی! ہمارے ہاں یہ عام بات ہے کہ آپ جو مانگ رہے ہیں، وہ تاجر کے پاس نہیں، مگر وہ کچھ اور دکھائے جا رہا ہے اور صاف صاف بتانے سے مکمل گریز کر رہا ہے! کوالٹی کا پوچھیں تو ایک ہی جواب ہے، کراچی سے لے کر گلگت تک! گھڑا گھڑایا۔ ''شکایت کوئی نہیں آئی!‘‘ خدا کے بندے ! پاکستان میں شکایت کرتا کون ہے؟ یہاں تو زندگی گزارنے کا سب سے بڑا اصول ہی یہ ہے کہ مٹی پاؤ۔ کوئی سر پھرا شکایت لے کر تاجر کے پاس جائے گا تو اسے ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ نسلیں یاد رکھیں گی!
تاجروں کی اکثریت کا مائنڈ سیٹ کچھ عجیب بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے۔ اسلام کو دکان کے اندر نہیں آنے دینا، ہاں دکان سے باہر اسلام کی خوب پذیرائی کرنی ہے۔ نماز ، روزہ، عمرہ، حج، خیرات، صدقات۔ سب شدومد سے مگر اسلام کا داخلہ دکان کے اندر منع ہے۔ جنہیں چندہ دیتا ہے، وہ بھی اس روپے سے خوش ہیں! ان کا مدرسہ چل رہا ہے۔ ان کی بلا سے وہ دکان کے اندر کیا کرتا ہے، کیا نہیں کرتا! وہ تو یہ فتویٰ دینے کو بھی تیار ہیں کہ سمگلنگ میں کیا برائی ہے! تجارت ہی تو ہے!
یہ مہنگائی جو ابھی صرف اشیائے خورد و نوش پر طاری ہوئی ہے، وسط رمضان کے بعد دیگر اشیا کو بھی لپیٹ میں لے لے گی! کپڑے کی قیمتیں بڑھا دی جائیں گی! جوتے مہنگے ہو جائیں گے۔ سب سے زیادہ ظلم بچوں کے ملبوسات اور جوتوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے! بڑوں نے نئے کپڑے بنانے ہیں یا نہیں، بچوں کے ہر حالت میں بننے ہیں! ماں باپ کی حالت تو قابلِ رحم ہوتی ہے۔ بچہ ضد کر رہا ہے، تاجر کے چہرے پر سفاکی ہے۔ اس نے پورے سال کی کمائی رمضان کے آخری عشرے سے نکالنی ہے۔ آخری عشرہ دوزخ سے رہائی کا پروانہ ہے۔ یہ پروانہ حاصل کرنے کے لیے تاجر کپڑے سے لے کر جوتے تک، چوڑیوں سے لے کر میک اپ کے سامان تک، خوشبو سے لے کر کنگھی تک، ہر شے مہنگی کرتا ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ہے۔ چالیس سے زائد اشیائے خورد و نوشی کو مہنگا کر کے تاجر نے پہلے عشرے کا حق ادا کر دیا ہے۔ ابھی تو دیکھیے شام کو سموسے اور جلیبی کے نرخ کہاں جا پہنچیں گے!
ایک زمانہ تھا پادری جنت کے ٹکٹ جاری کرتے تھے۔ وہاں تو یہ کھیل ختم ہو گیا۔ پادری سے جان چھوٹی تو تاجر شائستہ ہو گئے۔ ہم وہیں ہیں۔ مدرسے کی صندوقڑی میں چندہ ڈالو۔ جنت تمہارے خیال میں پکی ہو گئی ہے۔ اب دکان کے اندر خوب واہی تباہی مچاؤ۔ مست اونٹ کو کون روکے گا!
مگر آہ! تمہیں معلوم نہیں، تمہاری دکان کے دروازے کے پیچھے، اُس فٹ پاتھ کے ساتھ جس پر تم نے نا جائز قبضہ کر رکھا ہے، ملک الموت کھڑا ہے۔ صندوقڑی تمہارے منہ پر مارے گا۔ ہونٹ لہو لہان ہو جائیں گے۔ اُس وقت، نزع کے عالم میں، بے بس بے کس گاہک تمہیںقطار میں کھڑے نظر آئیں گے۔ تم ان کے آگے ہاتھ جوڑو گے مگر وہ تم سے وہی سلوک کریں گے جو تم نے ان کے ساتھ کیا تھا!