حضرت رئیس امروہوی۔3
زیادہ نہیں کم کھاتے ہیں مگر ٹوٹتے ندیدوں کی طرح ہیں۔ چاروں پانچوں انگلیاں لتھڑی ہوئیں‘ بلکہ آستین بھی شریک خوردونوش شوربے میں لت پت‘چمچے دھرے رہ جاتے ہیں‘ ہر قاب میں ہاتھ ڈالیں گے‘ کبھی ادھر کبھی ادھر‘ رکابیاں کچھ الٹیں گے کچھ خراب کریں گے‘ اور ہم ابھی دو چار نوالے ہی توڑنے پائیں گے کہ وہ حضرت یہ جا وہ جا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کے کھانے میں اول تو کپڑے بچانا پڑتے ہیں‘ دوسرے ان کی طرف دیکھو تو گھن آتی ہے۔ پسینے پسینے وہ خود بھی ہو جاتے ہیں اور اس پر طُرفہ یہ کہ برتن تمام گیلے ‘ میز گیلی ‘ نان اور تنور کی روٹی نہیں بالکل گیلی آٹا چپاتیاں۔ میں نے اکثر دوا سمجھ کر وہاں کھانا کھایا لیکن یہ ہے کہ کھایا بہت‘ فاقہ مست کر بھی کیا سکتا، ہے جو کچھ خدا کھلائے‘ جو کچھ خدا دکھائے سو ناچار دیکھا‘ غذا مرغن ہو‘ سادہ ہو‘ ایک خاص جذب و شوق سے تناول فرماتے ہیں۔ میٹھا نہ بھی ہو تو کتری ہوئی چھالیہ اور چنے ٹونگتے رہنے سے کام چل جاتا ہے۔ پان کھانے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں‘ خوب جگالی کرتے ہیں‘ گھر میں پاندان ہے مگر پنواڑی سے پڑیا بندھوانے کا لطف کچھ اور ہے۔ تمباکو پھانکتے اور کتھے چونے کی کمی بیشی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ کم ہے تو ٹھیک‘ زیادہ ہو تب بھی درست۔ سگریٹ کیپٹن ہو، گولڈ لیف ہو‘ ڈن ہل ہو‘ یکساں پیتے ۔ کھاتے اور مزہ لیتے ہیں۔ احباب کی جیبوں کو بھی ٹٹولتے رہتے ہیں۔ حُقے کا تمباکو بھی عام ہی ہوتا ہے‘ خاص نہیں۔
کُرسی پر اکڑوں بیٹھ کر لکھنے کا انداز بھلا لگتا ہے‘ اس طرح کاغذ اور قلم دونوں پر گرفت مضبوط رہتی ہے۔ کاغذ اچھا استعمال کرتے ہیں‘ حاشیہ جانے کیوں نہیں چھوڑتے‘ اس میں قباحت یہ ہے کہ ان کے عطا کردہ مسوّدات جب میں کارخانہ محبوبیہ کے جناب محبوب احمد قریشی کے حوالے کرتا ہوں تو جھنجھلاتے تو بہت ہیں مگر پاس خاطر انیس وہ بڑی خوبصورتی سے جلدیں باندھ باندھ کر بھجواتے رہتے ہیں۔ یہ کام ادھار نقد ہر طرح چلے جاتا ہے۔ رئیس سے حسنِ ظن جلد ساز کو بھی تو ہے۔ مخطوطات کی تعداد پچاس سے آگے نکل چکی ہے۔ ماشاء اللہ اب وہ اکڑوں بیٹھنے کی ادامیزکرسی اور دفتری فضا کی کار فرمائی کی وجہ سے باقی نہیں رہی۔ میز پر خوب جھک کر ‘ بلکہ یہ کہیے گر کر لکھتے ہیں۔ چشمہ تو ساٹھ برس کی عمر میں لگنا ہی تھا‘ ساٹھ کی رعایت سے ہونا تو کچھ اور چاہیے لیکن یہ پاٹھے ہیں۔ رفتار گفتار کا بانکپن جوں کا توں ہے‘ آواز بلا کی کراری ہے اور جب وہ مشاعروں میں ایک وارفتگی اور اضطرار سے غزل خواں ہوتے ہیں‘ تب تو اور بکھر جاتی ہے۔ یہ مشرق ہے ار مشرق میں بھی پاکستان‘ یہاں رئیس جیسے شاعر کو بھی مقامی مشاعروں میں یہ
دیکھناپڑتا ہے کہیں تمسخر کا نشانہ نہ بن جائے‘ مصاحبین تو یہ معلوم ہوکوئی آیا‘ جونہی وہ پڑھنے کے لیے آئے‘ شکیل عادل زادہ نے نعرہ مارا،آہا رئیس امروہوی ماہر نفسیات ‘ واہ واہ سبحان اللہ، شور ہم نے بھی مچایا۔ مرض یہ بھی ہے منتخب نہیں‘ جو چیز سامنے آ گئی پڑھ دی‘ سننے سنانے کی لپک بھی ان میں نہیں پائی جاتی۔
فتوحات میں مُرغ اور کبھی کبھی بٹیر آتے اور ہضم ہوتے رہتے ہیں‘ کبوتر بھی پال رکھے ہیں اور باجرے کی فرمائش چار چار سو میل دور بیٹھنے والوں سے بھی کی جاتی رہی ہے‘ مرغ بازی‘ کبوتر بازی بس کابکوں کی حد تک تو ہے‘ ہاں ایک اور بازی کا بھی تھوڑا سا تجربہ ان کو ہے‘ جوش صاحب کا مقولہ ہے‘ فنِ پسر بازی، فنِ دختر بازی سے افضل ہے‘ شکر ہے اس کی لت ہمارے شاعر کو نہ پڑی۔ گفتگوئیں تو تفاوتِ سن وسال کے باوجود اس موضوع پر بے تکان اب بھی ہوتی ہیں۔بڑے بڑے محقق حضوری میں پائے جاتے ہیں۔ عبداللہ شمیم اور سویرا کے مدیر محمود پیش پیش۔ وقت گزاری اور گپ کے لیے بہرحال کچھ ہونا تو چاہیے۔ عنفوانِ شباب میں جمالی نامی ایک خاتون پر بہت فریفتہ ہوئے۔ مرزا داغ کی پیروی میں یہ منی بائی جواب بھی پھیرے ڈالتی رہتی اور رئیس الملک سے وظیفہ پاتی ہیں۔ چند ایک اور پردہ نشینوں کے نام بھی ڈھونڈے سے نہیں‘ آسانی سے نکل آئیں گے۔ پاکستان میں معروف معرکہ چند مقامی لوگوں سے رہا‘ ان کے لیے دربار سرکار میں بھی خلوصِ نیت سے جبہ سائی کی پیمانِ وفا غالباً یک طرفہ بندھے ورنہ یہ کیا بعید تھا کہ ایک نئی دنیا بسا لیتے۔ چلو اچھا ہوا بات ہتھ پھیر یوں اور چہ میگوئیوں سے آگے نہ بڑھی ورنہ یہ بڑھاپے کا عشق جان لیوا ہی ثابت ہوتا۔
بیگم رئیس بڑے طنطنے کی بیگم ہیں‘ بیگمات کا تمام رکھ رکھائو اور سگھڑاپا ان میں موجود ہے‘ مزاج میں جلالی عنصربھی کم نہیں ‘ امروہہ کی، لق و دق حویلیاں چھوڑ کر جب کھارا در کے ڈربوں اور مانک جی سٹریٹ کے خاصے کشادہ مکان میں تینوں چاروں بھائی آ بسے تو یہاں عورتوں عورتوں میں بن کے ہی نہیں دی۔ بیگم رئیس کسی سے
دب کے کیوں رہتیں‘ بچیوں کو لے کر پھر کھارا در میں ڈیرے ڈالے پھر شکیل زادہ ان کے ساتھ ساتھ ‘ اولاد نرینہ تو تھی نہیں‘ آخر مردوں میں سے کوئی تو ساتھ ہورئیس کے دوست کا بیٹا شکیل اپنا ہی بچہ تھا اسے ساتھ رکھا‘ یہ ہونہار اردو کالج بھی جاتا تھادس بیس روپوں پر مختلف گھروں میں جا کر بچوں کو پڑھاتا رہا۔ انشا اور اس کے بعد عالمی ڈائجسٹ کو بھی جانفشانی سے سینچا‘ پانچ بیٹیوں میں سے دو تو بیاہی جا چکی تھیں‘ تیسری سے شکیل منسوب ہونا چاہتے‘ رئیس بیوی کے ڈر سے گومگو میں پڑے ہوئے تھے۔ مجھ سے کہا تو میںنے کھانے کی میز پر ذکر چھیڑا‘ بیگم نے دو ٹوک جواب اپنے میاں کی طرف اشارہ کر کے یہ دیا کہ یہ دے دیںکسی چوہڑے چمار کو‘ میں تو اپنی بیٹی نہیں دوں گی۔ رئیس دم دبائے اور دم سادھے بیٹھے رہے‘ بیگم نے اپنے ہی عزیزوں قریبوں میں سے ایک لائق نوجوان سے بیاہ دیا۔ بُرے تو شکیل بھی نہ تھے مگر یہ بہت اچھا ہوا۔ شکیل کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈانواں ڈول نہیں ہوئے‘ عالمی ڈائجسٹ چھوڑ‘سب رنگ نکالا‘ آج یہ ماہنامہ پاکستان کا مقبول ترین ماہنامہ ہے۔ ایک ڈیڑھ لاکھ سے کم نہیں چھپتا پاکستان میں یہ اشاعت حیرت انگیز ہے۔!
آج کا مقطع
ان کا برتائو ہی برا ہے‘ ظفر
ویسے وہ آدمی تو اچھے ہیں