تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     09-06-2016

نالائق حکومت‘ نکمّی اپوزیشن

خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو نکمّی کہہ کر مشتعل کر دیا مگر کُچھ غلط نہیں کہا ؎
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
1993ء میں عام انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفاقی حکومت قائم ہوئی تو میاں نوازشریف کی زیرقیادت وجود میں آنے والی اپوزیشن اور حکومت میں عددی اعتبار سے انیس بیس کا فرق تھا۔ بمشکل پندرہ بیس ارکان کی برتری محترمہ کو حاصل تھی۔ میں نے ممتاز پارلیمنٹرین حاجی سیف اللہ خان مرحوم سے پوچھا ''اتنی بڑی اور اڑھائی تین سال تک حکومت میں رہ کر تجربہ حاصل کرنے والی اپوزیشن سے مقابلہ کتنا مُشکل ہو گا؟ یہ تو بے نظیر حکومت کو چلنے نہیں دے گی؟‘‘ حاجی سیف اللہ نے سوال سنا‘ قدرے مسکرائے اور بولے۔ ''اپوزیشن چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی‘ لائق یا نالائق ہوتی ہے‘ اپوزیشن اگر لائق‘ تجربہ کار اور مخلص ہو تو ایک ڈیڑھ درجن لوگ بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول‘ ذہین اور شاطر حکمران کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں اور نالائق افراد کا انبوہ بھی کسی مخلوط حکومت کا کُچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘۔
میاں نوازشریف حکومت کا مقابلہ اگر زرداری حکومت سے کیا جائے تو غنیمت نظر آتی ہے کہ کچھ نہ کچھ کرتی ضرور رہتی ہے ایک پامال اور بے وزن شعر اس پر صادق آتا ہے ؎
فارغ نہ بیٹھ کُچھ کیا کر
بخیئے ادھیڑ کر سیا کر
علاج کے لیے لندن روانگی سے قبل میاں نوازشریف نے کئی افتتاح شدہ منصوبوں کا باردگر افتتاح کر کے شاعر کے مشورے پر عمل کیا لیکن اگر تقابل اور موازنہ دنیا بھر کی دیگر جمہوری حکومتوں سے کرنا پڑے تو خاصی مایوسی ہوتی ہے۔ حکمرانی کے تین سال بعد بھی لوڈشیڈنگ کے خاتمے سمیت ایسا کوئی کارنامہ نہیں جس پر حکومت فخر کر سکے غربت و افلاس‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور سٹریٹ کرائم کی روک تھام اور کمی کا کریڈٹ حکومت لینے سے قاصر ہے‘ جبکہ اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی کر لیا ہے ؛تاہم حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اُسے اپوزیشن اپنے سے بھی زیادہ نالائق نکمّی ملی ہے اور وہ حکومت کی پہاڑ جیسی غلطیوں اور کوتاہیوں پر اپنی کمزوریوں اور حماقتوں کا پردہ ڈال کر اس کی مُدت پوری کرانے میں مشغول ہے۔
پیپلز پارٹی کی حالت بقول فراز ؎
شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو 
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
مگر اٹھہتر لاکھ پاپولر ووٹ لینے والی تحریک انصاف کی حالت بھی پتلی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر مایوسی‘ فرسودگی اور عوامی ناپسندیدگی کا شکار ہے تو تحریک انصاف کو داخلی انتشار‘ باہمی جنگ و جدل اور تباہ کن کھینچاتانی سے فرصت نہیں۔ عمران خان میاں نوازشریف کی طرح پارلیمنٹ میں بیٹھنا اور مکمل تیاری کے ساتھ حکمران جماعت کی پالیسیوں کے بخیئے ادھیڑنا کسر شان سمجھتے ہیں یا وقت کا ضیاع اور اُن کے دیگر ساتھی بھی ریاضت کیش نہیں۔ گزشتہ تین سال کے دوران شاہ محمود قریشی‘ شفقت محمود‘ شیریں مزاری‘ اسد عمر اور تحریک انصاف کے دیگر ارکان قومی اسمبلی میں سے کسی ایک نے کوئی ایسی یادگار تقریر نہیں کی جس پر پریس گیلری اور لابی میں موجود لوگوں نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے ہوں‘ اور اخبارات میں چرچا ہوا ہو۔ پاناما لیکس کے حوالے سے عمران خان کی دونوں تقریریں لاجواب تھیں مگر تین سال میں صرف دو تقریروں سے تلافی مافات ممکن نہیں یہ طویل غیر حاضری کا جواز بھی نہیں۔
1971ء میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی میں اپوزیشن سکڑتے سکڑتے ایک درجن افراد تک محدود ہو گئی تھی مگر یہ درجن بھر افراد اس قدر متحرک‘ منظم اور قابل رشک کارکردگی کے حامل تھے کہ آئین میں ایک من مانی ترمیم منظور کرانے کے لیے سپیکر کو سارجنٹ ایٹ آرمز کی خدمات حاصل کرنی پڑیں اور مولانا مفتی محمود‘ شاہ احمد نورانی‘ میاں محمود علی قصوری‘ سردار شیرباز مزاری‘ جیسے دیوہیکل اور قابل احترام ارکان کو ڈنڈا ڈولی کر کے ایوان سے باہر پھینک دیا گیا۔ اسمبلی ہال کو باہر سے تالے لگا کر حکمران جماعت نے آئین میں ایسی ترامیم کیں جو بعد ازاں بھٹو کے خلاف فرد جرم کا حصہ بنیں۔ اس ترمیم کے تحت عدلیہ کے اختیارات محدود اور بنیادی انسانی حقوق معطل کئے گئے۔ 1985ء کی غیر جماعتی اسمبلی میں حاجی سیف اللہ مرحوم کی قیادت میں مُنحنی سی اپوزیشن نے آٹھویں آئینی ترمیم پر بحث کو اس قدر طول دیا کہ کئی ماہ تک یہ منظور نہ ہو پائی اور ایک بار حکمران جماعت کو آئینی مسودہ واپس لینا پڑا۔ بعدازاں جنرل ضیاء نے مارشل لاء نہ اٹھانے اور انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی دھمکی دے کر یہ ترمیم تو منظور کرا لی‘ انڈیمنٹی بھی حاصل کر لی مگر یہ ماننا پڑا کہ صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیار کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور 1988ء میں یہ ہوا۔
زرداری حکومت تو اس لیے پانچ سال پورے کر گئی کہ مسلم لیگ نون نے اُسے کندھا دیئے رکھا اور ہر بُرے وقت پر اس کی مدد کی مگر تحریک انصاف میثاق جمہوریت کی پابند ہے نہ این آر او کا حصہ کہ حکومت کی غلط کاریوں کی پردہ پوشی کرے‘ عمران خان نے میاں نوازشریف کو ہمیشہ پریشاں رکھا اور بعض ناقدین میاں صاحب کی علالت کو عمران خان کے دبائو کا نتیجہ قرار دیتے ہیں تاہم پارلیمنٹ کے اندر اور باہر وہ اس قدر دبائو نہیں بڑھا سکے کہ حکومت اپنی پالیسیاں اور طرزعمل تبدیل کرنے پر مجبور نظر آئے۔ سالانہ بجٹ حکومت کی اقتصادی و معاشی کامیابی و ناکامی کا بیرومیٹر ہوتا ہے اور لائق اپوزیشن اسے ‘بجٹ کے موقع پر عوام کے سامنے ایکسپوز کرتی ہے مگر پچھلے کسی بجٹ کے موقع پر اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم نہیں دے سکی اس بار تو عمران خان بجٹ اجلاس سے ہی غائب رہے۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے بننے والی پارلیمانی کمیٹی کو لوگ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی حکومتی چال سمجھتے ہیں مگر دوسروں کی طرح تحریک انصاف بھی شامل باجہ ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز پر مہنگائی کا جو طوفان اُٹھا اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو صوبائی حکومتوں سے مہنگائی کی روک تھام کی اپیل کرنا پڑی یہ اپوزیشن کے لیے نعمت غیر مترقبہ تھی ۔ لوڈشیڈنگ نے روزہ داروں کو ہلکان کر رکھا ہے‘ مگر مجال ہے کہ تحریک انصاف نے اس پر ڈھنگ سے صدائے احتجاج بلند کی ہو‘ ارکان اسمبلی نے اپنی تنخواہیں کئی گنا بڑھائیں تو تحریک انصاف بھی ؎
گومشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
کی علامت بن گئی بعد میں عمران خان اپنی پارلیمانی پارٹی پر خوب گرجے برسے مگر یہ جنگ کے بعد یاد آنے والا مُکّا تھا جس کے بارے میں سیانوں کی رائے ہے کہ اپنے مُنہ پر مارنا چاہیے۔شائد تحریک انصاف کی متمول لیڈر شپ کو مہنگائی سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ لوڈشیڈنگ سے کہ ان کے گھروں میں جنریٹرز اور یو پی ایس روشنی بکھیرتے اور جیبوں میں نئے نوٹ کڑکڑاتے ہیں۔
جتنی توانائی اور وسائل تحریک انصاف نے جلسوں‘ جلوسوں پر خرچ کئے‘ اس کا نصف اگر کسی تھنک ٹینک کی تشکیل‘ حکومت کی ناقص کارگزاری‘ معاشی‘ خارجی‘ داخلی محاذ پر ناکامیوں‘ کرپشن‘ اقرباء پروری اور غلط بخشی کے ثبوت اکٹھے کر کے عوام کو آگہی بخشنے اور اپنی تنظیم پر خرچ کئے ہوتے‘ یونین کونسل کی سطح پر تحریک انصاف منظم ہوتی اور حکومت کو قدم قدم پر ٹھوس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تو وزیراعظم ''یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ جیسے جملے بولتے نہ پرویز رشید آئے روز چیلنج کرتے پھرتے اور نہ خواجہ آصف ''نکمّی اپوزیشن‘‘ کی پھپتی کستے۔ گزشتہ روز خواجہ آصف نے ایک خاتون رکن شیریں مزاری پر جو نازیبا جملے کسے وہ بھی نکمّی اپوزیشن کے لیے چشم کشا ہیں جو اس پر واک آئوٹ تک نہ کر سکی۔ جو حکومت رمضان میں سبزیوں‘ دالوں‘ دودھ‘ گھی کی قیمتیں کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وزیراعظم کی اوپن ہارٹ سرجری کو متضاد بیانات سے متنازعہ بلکہ مذاق بنا بیٹھی ہے۔ پانامہ لیکس پر جس کا موقف مسلم لیگی کارکن بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں‘ فوجی قیادت سے بیٹھے بٹھائے بگاڑ کر زخم چاٹ رہی ہے اور سول ملٹری تعلقات میں رخنہ اندازی کا اعتراف حکومت کے اندھے پیروکار اور پرجوش حامی بھی کرنے لگے ہیں اُسے دبائو میں لانا مشکل نہ تھا مگر اپنی کمزوریوں کی بناء پر اپوزیشن لوہا گرم کر کے ضرب لگانے میں تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے ۔لیکن اب شاید صورتحال مختلف ہو۔ کیونکہ گھوڑا ایک بار پھر بم کو لات مارنے پر بضد ہے اور گزشتہ روز جی ایچ کیو کے اجلاس میں وفاقی وزراء کی باجماعت حاضری نے دل کے افسانوں کو ہونٹوں کی زباں تک پہنچا دیا ہے ؎
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
نریندر مودی‘ کل بھوشن یادیو اور ''را‘‘ نے اعلیٰ ایوانوں میں کھلبلی مچائی ہے اور تبدیلی کی ضرورت کا احساس دلایا ہے کاش اپوزیشن اس کا کریڈٹ لے سکتی ؟۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved