تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     09-06-2016

اسحاق ڈار کا بجٹ اور مشکل فیصلوں کے ثمرات

''تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرُزے‘‘....پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کا مرحلہ بحسن وخوبی گزر گیا تھا اور اب وزیرخزانہ کی تقریر کے ساتھ بجٹ سیشن کا آغاز تھا۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات سے نئے سیاسی عمل کا آغاز ہوا تو جنرل ضیاء الحق اس کے گاڈ فادر تھے۔ آٹھویں ترمیم کی منظوری کے بعد انھوں نے مارشل لاء اُٹھا لیا تھا لیکن فوجی وردی زیبِ تن کئے رکھی اور اسی وردی میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس میں وہ حکومت کی طرف سے بھیجی گئی تقریر ایک طرف رکھتے اور اپنی تقریرکرتے۔ یہ دراصل ایک سخت گیر ہیڈ ماسٹرکا خطاب ہوتا جس میں بچوں کی کارکردگی کی تعریف و تحسین کم اور ان کے لئے پند و نصائح اورڈانٹ ڈپٹ زیادہ ہوتی۔ 1988ء سے شروع ہونے والے نئے جمہوری دور میں غلام اسحاق خان، وزیراعظم بینظیر بھٹو اور اُن کی اپوزیشن کے مشترکہ اور متفقہ صدر تھے۔ بینظیر حکومت کی برطرفی کے بعد نواز شریف کے پہلے دور میں غلام اسحاق خان کو محترمہ اور اُن کے جیالوں کی طرف سے''گو بابا گو‘‘کا سامنا ہوتا۔ محترمہ کے دوسرے دور میں صدر لغاری ''گولغاری گو‘‘کے شور میں تقریر مکمل کرتے۔ جنابِ رفیق تارڑ کی صدارت کے دنوں میں محترمہ کی زیر قیادت اپوزیشن صرف ڈیڑھ درجن ارکان پر مشتمل تھی، اب ''گنجی نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا‘‘ والا معاملہ تھا۔ 2002ء والی پارلیمنٹ میں ڈکٹیٹر صرف ایک بار آیا۔ اپوزیشن نے ایسا ہنگامہ اُٹھایا کہ ''کمانڈو صدر‘‘کے پسینے چھوٹ گئے اور وہ مُکے دکھاتے ایوان سے رخصت ہوگیا اور پھرکبھی ادھر کا رخ نہ کیا۔ 
2008ء سے شروع ہونے والے جمہوری دور میں صدر زرداری کے پانچوں خطاب پُر امن ماحول میں ہوئے۔ انہیں میاں صاحب کی تیسری حکومت کے پہلے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ سے خطاب کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 
اور اب یہ جنابِ ممنون کا تیسرا خطاب تھا جس نے بعض تجزیہ کاروں کو اس لحاظ سے مایوس کیا کہ وہ پارلیمانی نظام کے صدر سے ایک بالا دست صدرکے خطاب کی توقع کر رہے تھے۔ 2 روز بعد بجٹ سیشن کا آغاز تھا۔ وزیراعظم علاج کے لئے بیرونِ ملک تھے اور اپوزیشن کے پاس پاناما کا گرماگرم ایشو تھا۔ میڈیا کا ایک حصہ ایک بڑے ہنگامے کی توقع باندھے ہوئے تھا لیکن اسحاق ڈار اس پل صراط سے بآسانی گزرگئے۔ اس میں اپوزیشن کی امن پسندی کے ساتھ جناب ڈارکی حکمتِ عملی بھی بروئے کار آئی۔ سپیکر نے وزیرِخزانہ کو بجٹ تقریرکی دعوت دی تو قائدِ حزب اختلاف سیّد خورشید شاہ کھڑے ہو گئے اور جنابِ سپیکر سے چند الفاظ کی اجازت چاہی۔ قواعد کے مطابق یہ ممکن نہ تھا کہ بجٹ سیشن کا آغاز وزیرخزانہ کی تقریر سے ہوتا ہے۔ خورشید شاہ کھڑے رہے تو اسحاق ڈار بیٹھ گئے۔ قائد حزب اختلاف نے یہ نکتہ اُٹھایاکہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کو سات سال گزر گئے،اس صورت میں اس بجٹ سیشن کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے نیشنل اکنامک کونسل کے اجلاس میں سندھ کی سفارشات کو نظر انداز کرنے کا ذکر بھی کیا اور اس توقع کا اظہار بھی کہ وزیرخزانہ کی تقریر میں پاناما کے حوالے سے بھی کچھ ہوگا۔ خورشید شاہ کی بات مکمل ہوئی تو وزیر خزانہ نے آغاز ان الفاظ سے کیا، قائدِ حزبِ اختلاف نواسۂ رسول کی حیثیت میں میرے لئے قابلِ صد احترام ہیں، وہ جتنی بارکھڑے ہوں گے میں ان کے احترام میں بیٹھ جائوںگا۔ ان الفاظ نے ماحول کو خوشگوار تر بنا دیا۔ 
بجٹ سیشن اور خصوصاً وزیرخزانہ کی تقریر والا دن، پارلیمانی سال کا اہم ترین سیشن اور اہم ترین دن ہوتا ہے لیکن یہاں ارکانِ اسمبلی کی عدم دلچسپی عیاں تھی۔ وزیراعظم علالت کے باعث غیر حاضر تھے تو مولانا فضل الرحمان اور (بزعمِ خود) فیوچر پرائم منسٹر عمران خان نے بھی اسمبلی میں آنے کی زحمت نہ کی تھی۔ خان کی یہ دوسری اسمبلی ہے۔ 2002 ء میں وہ اپنی پارٹی کے اکلوتے ممبر تھے۔ پانچ سال میں وہ شاید پانچ بار ایوان میں تشریف لائے ہوں۔ 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور اب اسمبلی میں تیس بتیس ارکان کے ساتھ پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر ہیں لیکن ادھر کم ہی آتے ہیں۔''وزیراعظم نہیں آتے تو میں کیوں آئوں؟‘‘
سوموار6 جون سے بجٹ پر بحث جاری ہے اور سرکاری اور غیر سرکاری بنچوں کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ کورم پورا نہیں ہوتا۔گزشتہ دونوں بارکی طرح نوازشریف کی تیسری حکومت کا آغاز بھی دم بلب معیشت کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کی بحالی کچھ مشکل فیصلوں کی متقاضی تھی۔ یاد آیا، وزیرخزانہ کی بجٹ تقریرکے بعد ہم جناب الطاف حسن قریشی کے ساتھ احسن اقبال کے دفتر چلے آئے تھے۔ یہ میاں صاحب کی تیسری حکومت کا پہلا بجٹ تھا۔ ہمارا سوال تھا کہ اس میں عوام کے لئے اور سرکاری ملازمین کے لئے کیا ہے؟ احسن اقبال نے دلچسپ مثال دی، ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مریض کو خوش کرنے کے لئے اسے چاکلیٹ دے دی جائے اوردوسری یہ کہ مرض کے علاج کے لئے اسے کڑوی گولی دیں جو اسے یقیناً ناگوار گزرے گی لیکن حقیقی خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ عارضی لذت ِکام ودہن کی پروا کئے بغیر اسے مرض سے نجات دلانے پر توجہ مرکوز کی جائے اور ہم نے یہی مشکل فیصلہ کیا ہے۔ ورنہ یہ بہت آسان تھا کہ ہم بھی روزانہ اربوں روپے کے نوٹ چھاپتے رہتے، یہ پرواکئے بغیرکہ دم توڑتی قومی معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوںگے۔ اسحاق ڈارکا پیش کردہ وہ بجٹ تلخ معاشی حقائق پر مبنی تھا جس میں کڑوی گولیاں بھی تھیں لیکن قومی معیشت کے مرض کہن کا چارہ بھی یہی تھا۔ میاں صاحب کی تیسری حکومت کو ابتدائی آٹھ دس مہینے ہی سکون کے نصیب ہوئے تھے اس کے بعد دھرنا مہم جوئی اور پھر ایک ہی پیج پر ہو نے یا نہ ہونے کے مسائل، بے یقینی کے سائے اور عدم استحکام کا تأثر۔ اس کے باوجود اسحاق ڈارکے اس دعوے کو جھٹلانا مشکل ہے کہ معیشت اپنے پائوں پرکھڑی ہو رہی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کو بھی اس کا اعتراف ہے، اکنامک انڈیکیٹرز بھی مثبت ہیں۔
ماضی میں کئے گئے مشکل فیصلے خوشگوار نتائج لا رہے ہیں۔ بیشتر منصوبے 2018ء تک مکمل ہو جائیںگے اور یہی چیز دشمنوںکو بے چین کئے ہوئے ہے۔گزشتہ شب صدیق الفاروق کے عشائیے میں یہی بات ہو رہی تھی۔ زرداری صاحب کی حکومت پانچ سال پورے کرگئی، اس میں موصوف کی سیاسی بصیرت کا دخل بھی ہوگا لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ تھی کہ خود مخالفوںکی بھی ضرورت تھی کہ یہ نااہل اور بدعنوان حکومت اپنی مدت پوری کرکے اپنے فطری انجام سے دو چار ہو۔ نواز شریف حکومت بھی زرداری حکومت جیسی ہوتی تو اس کے 2018ء تک جانے میں کسی کوکوئی خطرہ نہ تھا لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ اگلے دو سال، گزشتہ تین سال کے مشکل اقتصادی فیصلوں اور ترقیاتی منصوبوں کے برگ وبار لانے کے سال ہیں۔ اسے یہ مل گئے تو اگلے پانچ سال کے لئے بھی اس کا راستہ کھل جائے گا۔ 
اور اب کچھ ذکر اہلِ خیر کا: کہا جاتا ہے کہ پاکستانی قوم خیرات و صدقات (چیریٹی) کے حوالے سے دنیا میں سب سے آگے ہے (بعض لوگ اسے امریکیوں کے بعد دوسرے نمبر پر قرار دیتے ہیں ) رمضان نیکیوں کا موسم ِ بہار ہے جس میں ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہو جاتا ہے ۔ اہلِ خیر یوں توسارا سال کارِ خیر میں مصروف رہتے ہیں لیکن اس ماہ مبارک میں یہ جذبہ دو چند ہو جاتا ہے۔ چنانچہ عوامی فلاح بہبود کی تنظیمیں بھی اپنے سال بھر کے اخراجات اور ضروریات کی تکمیل کے لئے اس ماہ زیادہ سرگرم ہو جاتی ہیں۔ مسئلہ اعتماد کا ہے، کوئی تنظیم اپنا اعتماد قائم کر لیتی ہے تو وسائل اس کے لئے مسئلہ نہیں رہتے۔ ان میں جماعت اسلامی کی ''الخدمت‘‘بھی ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے چیرٹی ڈنرکا اہتمام کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک کروڑ روپے جمع ہو گئے (اہل ِ گوجرانوالہ لاہور والوں سے زیادہ زندہ دل ثابت ہوئے تھے۔) یتیم بچوں کی کفالت الخدمت کے مختلف شعبوں میں اہم ترین شعبہ ہے۔ یہاں 200 سے زائد بچوں کی سال بھرکی کفالت کا اعتمام بھی ہوگیا ( فی بچہ 36,000روپے سالانہ۔)
1994ء میں قائم ہونے والی رِیڈ فائونڈیشن کی سرگرمیوں کا فوکس بھی بے وسیلہ بچوں کی تعلیم ہے۔ ملک بھر میں اس کے 344 تعلیمی اداروں میں 92,000 سے زائد طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ گزشتہ 20 سال سے دیہی پاکستان کو تعلیمی سرگرمیوں کا محور بنائے ہوئے ہے۔ ملک بھر کے پسماندہ ترین دیہات میں اس کے 672 سکولوں میں 75,000 سے زائد کم وسیلہ خاندانوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان میں 42,000 ہزار طلبا وطالبات کی مکمل سرپرستی ٹرسٹ کے ذمے ہے۔ ایک اہم اور دلچسپ بات یہ کہ جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ میں ہندو بچوں کے لئے الگ سکولوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ میاں اخلاق الرحمان اپنے دوستوں کے ساتھ''ہیلپ لائن‘‘چلا رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں اور ان کے لواحقین کے لئے طعام کی فراہمی، ان کے کئی اہم کاموں میں ایک اہم کام ہے۔ حافظ سعیدکی فلاح ِانسانیت فائونڈیشن اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی ''اخوت‘‘ اپنی خدمات کے حوالے سے عالم گیر شہرت کی حامل ہیں۔ جدہ (سعودی عرب) میں مقیم ڈاکٹر خلیل اور ان کے رفقاء سالہا سال سے وہاں کم وسیلہ پاکستانی تارکینِ وطن کو مفت طبّی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ اب انہوں نے ایبٹ آباد میں پاکستان کڈنی سینٹر کاا ٓغاز کیا ہے۔ اور عبدالستار ایدھی کا ٹرسٹ....آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved