اسے ہمارے دوست اور شاعر ضیا حسین ضیا فیصل آباد سے نکالتے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے خوشخبری سنائی تھی کہ وہ اسے ماہنامہ کر رہے ہیں‘ اللہ توفیق ارزانی فرمائے۔ تازہ شمارہ کوئی ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت700روپے رکھی گئی ہے۔ اس دفعہ اس کی خصوصی نوعیت بھارتی شاعر ستیہ پال آنند کا طویل انٹرویو ہے جو کوئی ایک سو ستر صفحات کو محیط ہے اور بقول ایڈیٹر یہ آج تک کا طویل ترین انٹرویو ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موصوف اس سلسلے میں ریکارڈ قائم کرنا چاہتے تھے جس میں وہ کامیاب ہیں۔
یہ ایک اکتا دینے والی تحریر ہے جس نے پرچے کا توازن ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے کیونکہ اگر یہ سب کچھ ضروری تھا تو وہ اس کا نمبر بھی نکال سکتے تھے‘ یا پھر اسے تین چار شماروں پر تقسیم کر دیتے ۔آخری حصے میں صاحب انٹرویو کی نظمیں ہیں جبکہ اکثر نظمیں موصوف نے نثری حصے میں بھی نقل کر دی ہیں۔ آنند صاحب ایک کثیر المطالعہ ادیب ہیں، کم از کم وہ ظاہر ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ پچھلے سال یہاں تشریف لائے تھے تو مختلف مجالس میں ان کے خطاب کا ابتدائی جملہ یہ ہوتا تھا کہ میں غزل کامخالف ہوں؛ حالانکہ غزلوں کے کئی مجموعوں کے خالق بھی ہیں جن کے مطالعہ سے ان کا غزل کا مخالف ہونا سمجھ میں آتا ہے، یعنی انگور کھٹے ہیں۔ میں نے اس وقت ایک کالم میں ان کی خبر لیتے ہوئے لکھا تھا کہ غزل اگر اتنی ہی ناپسندیدہ اورکمزور صنف سخن ہے تو یہ اپنی موت آپ ہی مر جائے گی، اس کے خلاف اتنا واویلا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
البتہ اب مذکورہ بالا انٹرویو میں غالباً انہوں نے غزل کے بارے میں اپنے نظریات تبدیل کر لیے ہیں جو کہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ میں غزل کی گردن مارنے کے حق میں نہیں ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ غزل اپنا کچھ علاقہ خالی کر دے جو اس نے ہتھیا رکھا ہے۔ اگر یہ علاقہ نظم کا تھا تو نظم میں اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ وہ غزل سے اپنا چھینا ہوا علاقہ واپس لے لے۔ خالی
بد دعائوں سے تو کوئی چیز حاصل نہیں کی جا سکتی۔ آگے چل کر غزل کی ہئیت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ غزل کواپنی موجودہ ہئیت کذائی میں قائم رہنا چاہیے۔ اس کا ایک تاریخی کردارہے جس سے ہم اپنی آنکھیں چرا نہیں سکتے۔ یہ انشراحِ صدر موصوف کو مبارک ہو۔
ایڈیٹر کی طرف سے ایک سوال یہ تھا کہ ظفر اقبال صاحب نے''لسانی تشکیلات‘‘ کے نام پر ایک جوکھم اٹھایا‘ آپ اس کا فنی اور تخلیقی لیکھا جوکھا کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب ہے، نا بابا نا، مجھے اس بکھیڑے میں مت الجھائیں۔ موصوف کے پاس جب کسی دوست کے اٹھائے ہوئے نکتوں کا منطقی جواب نہیں ہوتا تو وہ ایک کالم کیا‘ کئی کالموں میں اس کی مٹی پلید کر دیتے ہیں۔ مجھے غزل کے معاملے میں ''خصّی‘‘ کہہ کر ایک کالم میں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے ہیں۔ اس سے پہلے شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ ان کا 'لوّ ہیٹ ریلیشن شپ‘ ان کے کالموںکا موضوع بنا تھا۔ یہی حال وہ انتظار حسین صاحب کا بھی کرتے ہیں... نا بابا نا، میں نہیں پھنسنے والا اس بکھیڑے میں! الٹا لو پاندان اپنایا۔
بھئی یہ کیا بات ہوئی‘ آپ تو بھاگ ہی نکلے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو آپ کے پاس دلائل نہیں ہیں‘ اگر ہیں بھی تو اس قدر بودے کہ میرے دفاع اور جوابی حملے کے آگے ٹھہر ہی نہیں سکتے۔ اور یہ جو شمس الرحمن فاروقی اورانتظار حسین کے حوالے سے آپ نے اپنے ایک مغالطے کا اظہار کیا ہے تو اس کی حقیقت اتنی ہی سی ہے کہ ان دونوں کے ساتھ میرا چھیڑ چھاڑ اور پیار محبت کا رشتہ پہلے بھی اور اب بھی ہے‘ میں اختلاف رائے کا بُرا نہیں منایا کرتا‘ اس لیے کہ یہ کام اگر میں خود بھی بڑے ذوق و شوق سے کیا کرتا ہوں تو برا کیسے منا سکتا ہوں۔ نہ ہی میں اختلاف رائے کو مخالفت یا دشمنی سمجھتا ہوں‘ یہ ہر کسی کا حق ہے جو زیادہ سے زیادہ استعمال ہونا چاہیے۔ میں تو اختلاف رائے کرنے والے کواپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ تعریف تو ہرکوئی کر دیتا ہے۔ ایک شعر دیکھیے ؎
ہوں اس کا سب سے زیادہ نیاز مند ‘ ظفرؔ
جو شہر میں مرا سب سے بڑا مخالف ہے
میرے ساتھ اختلاف کرنے یا میری مخالفت کرنے والوں کی اگر کمی نہیں تو اتفاق اور پیار کرنے والے بھی شمار سے باہر ہیں۔ آپ کا اپنا ملک ان سے بھرا پڑا ہے۔ یقین نہ آئے تو سروے کر کے دیکھ لیں۔ سو‘ میرے بارے میں اپنی رائے بے دھڑک بیان کر دیں‘ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کروں گا‘ مجھے اس کا انتظار رہے گا کیونکہ میں آپ کی رائے کی قدرکرتا ہوں۔ نیز یہ کہ مکالمہ تو جاری رہنا چاہیے‘ اس کے بغیر ادب کی گاڑی آگے کیسے چل سکتی ہے؟
آخری بات یہ کہ غزل کے حوالے سے آپ کے تحفظات تبھی اچھے لگیں گے اگر آپ نے نظم میں کوئی خاص تیر مارا ہو‘ کسی کو متاثر کیا ہو‘ کوئی ایک مقلد ہی پیدا کیا ہو‘ کوئی نیا اور مختلف لہجہ ہی استوار کیا ہو، اور کچھ نہیں تو کوئی فتنہ و فساد ہی کھڑا کیا ہو! ع
تو برون در چہ کر دی کہ درونِ خانہ آئی
حق تو یہ ہے کہ ہم نے آپ کی شاعری کا ذکر خود آپ ہی کی زبان سے سنا ہے۔ البتہ آپ نے غزل کے خلاف بیان دے دے کر مشہور ہونے کی کوشش کی۔ یہاں آپ کو جاننے کی سعادت اکثر لوگوں کو حاصل نہیں ہے، البتہ اب شاید اسی لیے آپ نے پاکستان کے پرچوں میں چھپنا شروع کیا ہے‘ حتیٰ کہ آپ کا غزلیہ کلام بھی‘ جو لطفِ سخن سے سراسر خالی ہوتا ہے۔ آپ نے اگر ادھر کا رُخ کر ہی لیا تھا تو کسی چھوٹے موٹے دھماکے سے آغاز توکرتے۔ ایسی گئی گزری شاعری تو یہاں بھی ٹنوں کے حساب سے ہو رہی ہے۔
آخرمیں ایک مفت مشورہ‘ گر قبول اُفتدرہے عز و شرف اور وہ یہ ہے کہ چھوٹی نظم کہنے کی کوشش کریں کہ آج پچاس ساٹھ مصرعوں کی نظم پڑھنے کا حوصلہ کم ہی لوگوں کو ہے جبکہ نظم کے آخر میں ہی جاکر پتا چلتا ہے کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے‘ اور اگر ساٹھ مصرعے پڑھ لینے کے بعد بھی قاری کے ہاتھ صرف مایوسی ہی آئے تو وہ صرف اپنا سر ہی پیٹ سکتا ہے جبکہ غزل کا مطلع پڑھ کر ہی آپ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہ غزل آپ نے پڑھنی ہے یا نہیں۔
دوسرے یہ کہ شاعری آدمی ذہنی آسودگی کی خاطر پڑھتا ہے‘ شاعر کی ذہنی کیفیات اور پیچیدگیوں کا عرفان حاصل کرنے کے لیے نہیں‘ نہ ہی شاعری سے کوئی گیان حاصل کیا جاسکتا ہے‘ اور شاعری کی واحد صفت یہ ہے کہ یہ خود اپنے آپ کو پڑھواتی ہے‘ اسے بیگار کاٹنے کے طور پر نہیں پڑھا جا سکتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ نظم جتنے قاری پیدا کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ کھودیتی ہے۔ اس لیے نظم کو اپنے اندرکشش پیدا کرنی ہوگی‘ اسے قاری کو گھول کر نہیں پلایا جا سکتا۔ نظم کے ساتھ غزل کی کوئی رقابت نہیں، انہیںایک دوسری کی ہم جلیس بننے کی ضرورت ہے، دشمنیوں کی نہیں۔ انہیں آپس میں جڑواں بہنوں کا کردار ادا کرنا چاہیے کہ اسی میں دونوں کا بھلا بھی ہے!
آج کا مطلع
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رسوائے شہر ! اب تری عزت اسی میں ہے