تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-06-2016

باکسنگ محمد علی سے پہلے اور محمد علی کے بعد

محمد علی کی بطور باکسر دنیا بھر میں مقبولیت کی وجہ صرف یہ نہیں کہ اس نے اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں اکسٹھ میں سے چھپن مقابلے جیتے اور پانچ میں اسے شکست ہوئی۔ بہت سے باکسرز کا پروفیشنل کیریئر اس سے کہیں بہتر ہے۔ فلائیڈ مے ویدر جونیئر انچاس مقابلوں میں فاتح ہوا اور کسی میں بھی شکست نہ ہوئی۔ راکی مارسیانو کا پیشہ ورانہ ریکارڈ بھی یہی ہے، یعنی انچاس فتوحات بغیر کسی شکست کے۔ شوگر رے رابنسن دوسو مقابلوں میں سے محض نو میں ہارا۔ عظیم باکسر جولویئس بارہ سال تک لگا تار ہیوی ویٹ چمپئن رہا اور ستر مقابلوں میں صرف تین میں اسے شکست ہوئی۔ فلپائنی باکسر مینی پیکو کو چھیاسٹھ میں سے چھ مقابلوں میں ناکامی ہوئی۔ اسی طرح اور کئی باکسر ہیں جن کا ریکارڈ‘ محض فتوحات اور ناکامیوں کو گنیں، تو محمد علی سے بہتر ہے مگر اس کے باوجود آخر کیا وجہ تھی کہ محمد علی کو دنیا کے بیشتر ماہرینِ کھیل دنیا کا نمبر ایک باکسر ہی نہیں بلکہ دنیا کا بہترین کھلاڑی تسلیم کرتے ہیں۔ 
گوگل پر جا کر آپ دنیا کے ''آل ٹائم گریٹسٹ باکسرز‘‘ کی لسٹ دیکھیں تو آپ کو اس کیٹیگری میں درجنوں لسٹیں ملیں گی اور ان میں نوے فیصد نے محمد علی کو ''آل ٹائم گریٹسٹ باکسرز‘‘ میں نمبر ون قرار دیا ہے۔ اس لسٹ میں باقی باکسرز مثلاً مائیک ٹائیسن‘ شوگر رے روبنسن‘ جولویئس‘ راکی مارسیانو‘ فلائیڈ مے ویدر‘ جارج فورمین‘ ہنری آر مسٹرانگ‘ جولیس سیزر شیواز‘ جیک ڈمپسی‘ ولی پیپ اور چار چھ دیگر نام ہیں جو اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں؛ تاہم ان میں اسی نوے فیصد فہرستیں ایسی ہیں جن میں محمد علی کو پہلا اور دیگر پندرہ بیس فیصد میں شوگر رے روبنسن کو نمبر ون اور محمد علی کو نمبر ٹو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن دنیائے کھیل کے معتبر ترین ماہرین‘ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی غالب اکثریت محمد علی کو ہی پہلے نمبر پر رکھتے ہیں۔ آخر محمد علی میں ایسی کیا بات تھی جو انہیںباقی تمام باکسرز پر فوقیت دیتی ہے؟
محمد علی محض مکے مارنے والی مشین نہ تھا جیسا کہ دیگر عظیم باکسرز کی اکثریت تھی۔ محمد علی نے باکسنگ جیسے وحشیانہ کھیل کو آرٹ کا درجہ عطا کیا اور یہی وہ چیز ہے جو محمد علی کو باکسرز کی صف سے نکال کر عظیم کھلاڑی کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ ایک مقابلے میں محمد علی دس سکینڈ میں لگا تار اکیس مکوں کو محض دائیں بائیں، آگے پیچھے جھکائی دے کر ناکام بناتا ہے۔ اس دوران وہ رنگ کے ایک کونے میں کھڑا اپنے دونوں ہاتھ رسیوں پر رکھے مسکراتا رہتا ہے اور جب حریف شرمندہ ہو کر پیچھے ہٹتا ہے تومحمد علی اپنے کولہے مٹکا کر اور منہ بنا کر اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ محمد علی نے باکسنگ کو ایک نیا رنگ عطا کیا۔ محمد علی نے باکسنگ کو مرصع کر کے رکھ دیا تھا۔
رنگ کے اندر اور رنگ سے باہر‘ محمد علی نے مقبولیت کے وہ معیار قائم کئے جس سے دنیا بھر کے باکسرز ہی نہیں دیگر کھلاڑی بھی یکسر محروم تھے۔ مذاق کرنا‘ لطیفے سنانا‘ دلچسپ دعوے کرنا‘ مخالفین کا ٹھٹھہ اڑانا‘ ان کے مختلف نام رکھنا‘ انہیں مقابلے سے پہلے غصہ دلانا ‘ہر اہم مقابلے میں کوئی نہ کوئی ایسی نئی تکنیک استعمال کرنا جس سے اس کے حریف ناواقف ہوں‘ یہ وہ حربے اور دائو پیچ تھے جن سے باکسنگ کو کبھی پالا نہیں پڑا تھا۔ محمد علی نے باکسنگ کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ باکسنگ نے محمد علی کو پیسہ‘ شہرت‘ عزت اور ناموری دی مگر سچ یہ ہے کہ باکسنگ نے محمد علی کو جو کچھ دیا وہ شاید وقتی ہو مگر محمد علی نے باکسنگ کو جو کچھ دیا ہے، جب تک باکسنگ رنگ موجود ہے وہ زندہ رہے گا۔ محمد علی نے باکسنگ کو اس سے کہیں زیادہ دیا جو باکسنگ نے اسے دیا تھا۔
پاکستان میں تو باکسنگ محمد علی کلے کا دوسرا نام تھا۔ جونہی محمد علی کے باکسنگ کیریئر کا اختتام ہوا‘ پاکستان میں باکسنگ کا اختتام ہوگیا۔ میرا مطلب ہے عام آدمی کا باکسنگ سے رشتہ ختم ہوگیا۔ پھر نہ کبھی ٹی وی پر کوئی عالمی مقابلہ براہ راست نشر ہوا اور نہ ہی کسی نے دوبارہ باکسنگ کا کوئی مقابلہ دیکھنے کی حسرت یا تمنا کی۔ تمام حسرتیں محمد علی کی باکسنگ سے رخصتی کے ساتھ ہی تمام ہوگئیں۔
کیا دن تھے جب قومی نشریاتی رابطے پر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر ایک خاص دھن بجتی تھی اور پھر سیٹلائٹ کے ذریعے پی ٹی وی کا رابطہ کبھی میڈیشن سکوائرگارڈن نیو یارک‘ کبھی ایم جی ایم لاس ویگاس اورکبھی کنشاسا‘ زائرے سے جوڑ دیا جاتا تھا اور ہم دنیا بھرکے کام چھوڑکر ٹی وی کے سامنے برا جمان ہوتے تھے۔ صرف ہم ہی کیا؟ پورے پاکستان کا یہی حال ہوتا تھا۔ ہر شخص دیوانہ ہوا پھرتا تھا۔ جب ملتان میں ٹی وی نہیں آیا تھا‘ میں بھائی طارق مرحوم کے ساتھ ٹرین پر لاہور تایا نواز مرحوم کے گھر محمد علی کلے کی باکسنگ دیکھنے کے لیے گیا تھا۔ چچا رئوف مرحوم لاہور شفٹ ہو رہے تھے اور اسی دن محمد علی کا مقابلہ تھا۔ تب ہمارے گھر ٹی وی نہیں ہوتا تھا۔ چچا کے گھر کا سارا سامان ٹرک پر لوڈ ہو چکا تھا۔ گھر میں نہ کوئی کرسی تھی اور نہ صوفہ، صرف خالی لائونج میں ایک دری تھی اور ٹی وی تھا جس پر مقابلہ دیکھا گیا۔ جونہی مقابلہ ختم ہوا ٹی وی اور دری ٹرک پر لوڈ کی اور لاہور روانہ کر دیا گیا۔
لاہور میں میرا اور ملک شوکت علی کا اتوار کے دن ایک ہی کام ہوتا تھا اور وہ یہ کہ انارکلی میں زمین پر پڑی سکینڈ ہیڈکتابوں میں سے اپنی مرضی کی کتابیں چھانٹی جائیں۔ملک شوکت سے میری دوستی ایمرسن کالج کے زمانے سے تھی۔گگو منڈی کے قریبی گائوں سے تعلق رکھنے والے شوکت کو کتابوں کا کافی شوق تھا اور اسی شوق کے طفیل ہماری دوستی لگی۔ اس نے مجھے نولکشور پریس کی1921ء کی چھپی ہوئی ایک خستہ حال ہیر وارث شاہ دی جو ابھی تک میرے پاس موجود ہے۔ بی اے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگریزی میں داخل ہو گیا۔ اس کے پاس ایک پیلے رنگ کا ''ہنڈا بنلے‘‘ ہوتا تھا جو وہ وہاڑی سے ٹرین پر لاد کر لایا تھا۔ میں نے بڑا کہا کہ اسے وہاڑی سے چلا کر لاہور لے جاتے ہیں مگر کتوں سے انتہائی خوفزدہ ملک شوکت کو ڈر تھا کہ راستے میں سڑک پر کوئی کتا ہمارے پیچھے نہ لگ جائے۔
ہم نے لاہو انارکلی سے محمد علی کے بارے میں چھپنے والی اردو‘ انگریزی اور تصویری کتابوں کی اچھی خاصی تعداد اکٹھی کر لی۔ کئی کتابوں پر تو اچھا خاصا جھگڑا ہوا کہ پہلے میں نے دیکھی تھی اور دوسرا کہتا تھا کہ پہلے میں نے اٹھائی تھی۔ تب کتابیں خریدنے سے زیادہ چوری کرنے کا رواج ہوتا تھا۔ آہستہ آہستہ بہت سی کتابیں چوری ہو گئیں۔ محمد علی کی کتابیں چوری کرنے والوں میں بھی بہت مقبول ہوتی تھیں۔
محمد علی میری عمر کے اکثر بچوں کا ہیرو تھا۔ ہم جو اب پچاس پچپن والے ہیں‘ ہم سب نے محمد علی کی محبت میں اپنے بچپن کا بیشتر حصہ گزارا ہوا ہے۔ میرا معاملہ تھوڑا فرق رہا اور محمد علی سے محبت وقت سے کم نہ ہو سکی۔ ممکن ہے بچپن جیسا ''Craze‘‘ نہ رہا ہو مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ محمد علی میرے ہیروزکی صف سے خارج ہوا ہو۔ وہ میرا سدا بہار ہیرو تھا اور جب تک یہ سانس چل رہا ہے وہ میرا ہیرو رہے گا۔
محمد علی سے کسی نے پوچھا کہ اگر وہ باکسر نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ محمد علی نے کہا ''اگر میں باکسر نہ ہوتا تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ تاہم اگر میں کوڑا اکٹھا کرنے والا (Garbage Collector) بھی ہوتا‘ تو دنیا کا سب سے بہترین کوڑا اکٹھا کرنے والا ہوتا‘‘۔ محمد علی کاملیت پر یقین رکھنے والا شخص تھا اور اس کی ساری کامیابیوں کے پیچھے اس کا یہی جذبہ تھا۔ جب کوئی ویل میں چور محمد علی کا سائیکل چوری کر کے لے گیا تو غم و غصے میں بولتے ہوئے محمد علی نے ہوا میں مکے لہراتے ہوئے کہا کہ اگر اسے یہ چور مل گیا تو وہ اس کو مکے مار مار کر ادھ موا کر دے گا۔ تب پاس سے گزرنے والے مارٹن نے جو ایک جمنیزیم میں باکسنگ کا اتالیق تھا‘ محمد علی سے کہا کہ اس کے لیے پہلے اسے باکسنگ سیکھنی ہوگی۔ محمد علی جمنیزیم جانے لگا اور نواسی پائونڈ وزنی محمد علی نے جو تب کاسیس مار سیلس کلے جونیئر تھا محض ایک ہفتے بعد اپنی پہلی فائٹ میں کامیابی حاصل کی اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا جو 1960ء کے روم اولمپکس کے گولڈ میڈل سے ہوتا ہوا 1964ء میں ورلڈ ہیوی ویٹ چمپئن پر ختم ہوا۔ مگر ختم کہاں ہوا؟ اصل سلسلہ تو اس کے بعد شروع ہوا جب وہ مسلمان ہوا۔
1966ء میں اس نے امریکی فوج میں بھرتی ہو کر ویت نام میں جنگ لڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ناجائز ہے اور ملکی دفاع کی لڑائی نہیں ہے۔ اس انکار پر اس کا ورلڈ چمپیٔن کا ٹائٹل چھین لیا گیا اور اس کے باکسنگ کھیلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ چار سال وہ عدالتی جنگ لڑتا رہا۔ یہ اُس کے عروج کا زمانہ تھا اور ہر کھلاڑی کی طرح پچیس سے انتیس سال کا بہترین پیریڈ رنگ سے باہر گزر گیا۔ تاہم ملک میں ویت نام کی جنگ کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی دبائو اور مظاہروں نے حکومتی پالیسی میں نرمی پیدا کی اور محمد علی کو دوبارہ1970ء میں باکسنگ کھیلنے کی اجازت ملی۔ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد محمد علی کو پارکنسن کے موذی مرض نے آن گھیرا۔ ایک سوال کے جواب میں محمد علی نے کہا کہ ''میںضرور عظیم ترین تھا مگر خدا نے آپ سب کو بتایا ہے کہ محمد علی بہرحال ایک انسان ہی ہے‘‘۔ محمد علی نے اس دوران بچوں کی بہبود‘ انسانی حقوق اور کھیلوں کے فروغ کے لیے دنیا بھر میں سفر کیا اورایک انسان دوست کے طور پر اپنا مقام بنایا۔ محمد علی کے اعتقادات بڑے راسخ اور پختہ تھے۔ اس کا ایک انٹرویو یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں وہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور ہر شخص نے یہاں سے رخصت ہونا ہے خواہ اس کی عمر کتنی بھی لمبی کیوں نہ ہو جائے‘ اس نے ایک روز اپنے اللہ کے ہاں پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا سامنا کرنا ہے۔ چودہ منٹ پر مشتمل یہ کلپ دیکھنے اور سمجھنے والا ہے۔ اس نے 1984ء میں رونالڈ ریگن کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ''ریگن سکولوں میں خدا کو لے آیا اور میرے لیے یہی کافی ہے‘‘ ۔
محمد علی نے باکسنگ میں کوانٹیٹی(مقدار) کی جگہ کوالٹی(معیار) کو متعارف کروایا۔ وہ کم مکے کھانے اور کم مکے مارنے پر یقین رکھتا تھا۔ باکسنگ اس سے پہلے کسی محمد علی سے ناآشنا تھی اور اس کے بعد بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved