آج غیرمشروط معافیوں کا دن تھا۔ قومی اسمبلی میںخواجہ آصف نے غیرمشروط معافی مانگی اور دوسری غیرمشروط معافی‘ اسمبلی سے باہر الیکشن کمیشن کے ایک سابق‘ افسر افضل خان نے مانگ لی‘ جس نے دھاندلی کے انکشافات کر کے‘ سارے ملک کو حیران کر دیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے سابق افسر کی معافی اب بے معنی ہے۔ کیونکہ الیکشن کو تین سال ہو گئے۔ مزید تحقیق پر‘ دو سال صرف ہو جائیں گے اور اس وقت تک اگلے انتخابات کا وقت آ جائے گا۔ خواجہ آصف کی حس ظرافت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کا معیار تھڑے اور گلی کے آزادمنش‘ لونڈوں لپاڑوں جیسا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے کہ وہ یونین کونسل کی ممبری کے بجائے‘ قومی اسمبلی میں جا پہنچے ۔ لیکن ان کی ذہنی کیفیت کا معیارتھڑے سے اوپر نہیں گیا۔ ان کی حس ظرافت بھی تھڑے والی ہے‘ جس کی تازہ مثال‘ شیریں مزاری کے ساتھ ہونے والا ایک مکالمہ ہے‘ جو قومی اسمبلی میں سنا گیا۔ شیریں مزاری کو قدرت نے‘ ایک پیدائشی احترام دیا ہے کہ وہ خاتون بھی ہیں اور ماں بننے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ عزت اور احترام کا یہ رتبہ‘ انہیں قدرت نے عطا فرمایا ہے ۔ کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا‘ خواہ وہ خواجہ آصف ہی کیوں نہ ہو؟ سارے ملک میں محسوس کیا گیا کہ خواجہ صاحب نے‘ شیریں مزاری کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ شیریں کو اللہ تعالیٰ نے عزت و احترام کا جو رتبہ دیا ہے‘ کوئی مہذب معاشرہ اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ جو لوگ اس سے انکار کرتے ہیں‘ وہ مہذب سوسائٹی میں جانے کے قابل نہیں ہوتے۔ اگر کہیں معاشرے کی شومئی قسمت سے‘ وہ اچھی سوسائٹی میں چلے جائیں‘ تو صوبائی یا قومی اسمبلی میں جانے کے قابل نہیں ہوتے۔ یہ ہماری قومی اسمبلی کی بدنصیبی ہے کہ اس میں خواجہ صاحب جیسا تھڑا نشین پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ شیریں مزاری کی بدقسمتی کہ وہ ایک ایسے ایوان میں چلی گئیں‘ جس میں سینما کے ٹکٹ بلیک کرنے والے بھی آ جاتے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ مخدوم شاہ محمود قریشی جیسا شائستہ انسان ‘ ایسے لوگوں کو تہذیب و اخلاق کے تقاضے سکھانے پر مجبور ہے‘ جنہیں ان کے بزرگ بھی کچھ نہیں سکھا پائے۔ ورنہ کہاں وہ بزرگ ؟جو رونق محفل ہوا کرتے تھے اور آداب محفل بھی جانتے تھے۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا ۔ ملک غلام جیلانی مرحوم‘ جو شہری اور آئینی حقوق کے لئے دلیرانہ معرکہ آرائیاں کرنے میں مشہور تھے‘ وہ اپنے ایک مقدمے کے سلسلے میں جاویداقبال مرحوم کی عدالت میں پیش ہوئے۔ میں یہ واقعہ لکھنے پر‘ دلی طور سے معذرت خواہ ہوں مگر واقعہ بہرحال امرواقع ہے۔ ملک صاحب ‘ عدالت میں جو ریلیف مانگنے گئے تھے‘ و ہ حاصل نہ ہوئی۔ مایوسی اور غصے کے عالم میں‘ عدالت سے باہر آئے اورایک ملاقاتی نے پوچھا ''ملک صاحب! خیریت تو ہے؟ بڑے غصے میں عدالت سے باہر آ رہے ہیں؟‘‘ ملک صاحب نے سٹپٹا کرجواب دیا''کیا بتائوں؟ شیخ نورے کے گھر ‘علامہ اقبالؒ پیدا ہوا اور علامہ اقبالؒ کے گھر‘ پھر سے نورا پیدا ہو گیا۔‘‘ یہ ریسرچ آپ خود کرتے رہیں کہ خواجہ صفدر کس کے گھر پیدا ہوئے؟ اور پھر ان کے گھر کون پیدا ہو گیا؟
گزشتہ روز میں نے کسانوں کے مسائل پر کچھ لکھا تھا۔ اسی کا حوالہ دے کر لائل پور سے ایک صاحب نے فون کیا اور بتایا کہ کسانوں کے طبقے کو‘ جس منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے‘ شاید آپ کو اس کا اندازہ ہی نہیں۔ کسانوں میں پہلے تو خود فصلیں کاشت کرنے کی استطاعت ہی نہ چھوڑی گئی۔ مجبور ہو کر انہوں نے اپنے کھیت ٹھیکے پر دینا شروع کر دیئے اور آج یہ حالت ہے کہ کھیت ٹھیکے پر‘ دے کر بھی گزراوقات نہیں ہوتی۔ کیونکہ ٹھیکیدار بھی اچھے ریٹ نہیں دیتا۔ کسان کو چاروں طرف سے کچلا جا رہا ہے۔ پٹواری اس کا خون چوستا ہے۔ بیورو کریسی اسے نچوڑتی ہے۔ حکومتی پالیسیاں اسے تباہ کر رہی ہیں۔ سیلاب اسے برباد کرتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ کسانوں کو کسی طے شدہ منصوبے کے تحت مٹایا جا رہا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ جدیددور کی ترقی میں کسانوں کو اپنا مقام چھوڑنا پڑتا ہے۔ لیکن تبدیلی کے اس عمل میں‘ کسان خود زرعی ترقی کا حصے دار بن کر خوشحال ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں جس بے رحمی سے‘ کسان کو معاشی نظام سے دھکے دے کر باہر نکالا جا رہا ہے‘ ایسا کہیں نہیں ہوا۔ گزشتہ روز میں نے کپاس کی فصل کے بارے میں لکھا ہے‘ آج آلوئوں پر ایک رپورٹ پیش کر رہا ہوں۔
''آلو کی فصل ستمبر‘ اکتوبر میں کاشت کی جاتی ہے اور 70 دن کے بعد سے ہی اس کی برداشت شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ کسان اسے 95دن تک بھی زمین میں رکھتے ہیں تاکہ آلو کا وزن اور تعداد بڑھ سکے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں‘ خاص کر پنجاب‘ سندھ اور خیبرپختونخواہ میں گزشتہ چند دہائیوں سے‘ اسے ایک اہم فصل کے طور پر کاشت کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے زرخیز ترین اضلاع میں آلو ایک بنیادی فصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جوں جوں اس کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اسے رکھنے کے لئے‘ بنائے جانے والے کولڈ سٹوریج بھی بڑھ رہے ہیں۔ ایک ایکڑ آلو کی کاشت قریبا65 سے 70 ہزار‘ پاکستانی روپوں میں مکمل ہو جاتی ہے اور اگر کہرا‘ بلائیٹ اور دیگر بیماریوں اور آفات سے محفوظ رہے تو اس ایکڑ سے تین سو من سے بھی زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے۔
پچھلے دنوں ''کسان اتحاد‘‘ کے تحت کسانوں نے لاہور میں احتجاج کیا اور اپنے مطالبات دہرائے۔ یہاں مجھے بھارتی پنجاب کے جاٹوں کا احتجاج یاد آ گیا اور ساتھ ہی ایک مصرع ''یہاں کی روٹی ویسی ہی چھوٹی‘‘ بھی یاد آ گیا۔ جلد ہی یہ پاکستانی جاٹ بھی‘ اپنے سرحد پار کے برادری والوں کی طرح ‘ کھاٹ لے کر واپس چلا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ پچھلی فصل کے غم میں‘ وہ اگلی فصل کا وقت ضائع نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں کسان‘ زمیندار‘ وڈیرا اور جاگیردار نامی مخلوق کے بارے میں‘ بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ یہ فصل کبھی تو کسانوں کو مالا مال کر جاتی ہے اور کبھی کنگال؟ دیگر شعبوں کی طرح زراعت میں بھی دو مراحل ہوتے ہیں۔ ایک پیداوار اور دوسرا فروخت۔ ان دونوں مراحل میں کاشتکار کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس کے لئے وہ صرف آسمان کی طرف ہی دیکھ سکتا ہے۔ جس ملک میں 70 فی صدآبادی‘ بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے منسلک ہو‘ وہاں ایک مربوط زرعی پالیسی کا نہ ہونا‘ بہت ہی تعجب کی بات ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب آلو کی فصل کاشت ہو رہی ہو‘ اسی وقت سے تخمینہ لگا لیا جائے کہ اس سال کتنی پیداوار متوقع ہے۔ ایک سرکاری قیمت مقرر کی جائے اور ملکی ضروریات پوری ہونے کے بعد‘ بچ رہنے والا آلو برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جائے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ آلو کاشت کیا جاتا ہے اور اس کاشت میں‘ اسے مشورہ اور مدد دینے والا مختلف کمپنیوں کا نمائندہ ہوتا ہے‘ جس کا مقصد ظاہر ہے‘ اپنے ادارے کی مصنوعات بیچنا ہوتا ہے۔ اگر فصل اچھی ہو جائے تو قیمت گر جاتی ہے‘ بری ہو جائے تو چڑھ جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں کسان کا بھلا نہیں ہوتا۔ ناک کو ادھر سے پکڑ لیا جائے یا ادھر سے‘ بات تو ایک ہی رہتی ہے۔
اپنے ملک میں اچھی پیداوار ہونے کے باوجود‘ جب ذخیرہ اندوز‘ آلو ذخیرہ کر لیتے ہیں تو کسان سے مشورہ کئے بغیر‘ بھارت سے آلو منگا لیا جاتا ہے اور آڑھتیوں کے بقول پاکستانی آلو ''پٹ‘‘ جاتا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کو یہ موقع اس لئے ملتا ہے کہ حکومت مسلسل کسی ضروری کام سے سو رہی ہے اور جاگنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ جاگتی ہے تو الل ٹپ بدیس سے‘ جنس منگواکر بحران دور کر دیتی ہے اور یقینا اس تجارت میں کسی کا ذاتی فائدہ تو ہوتا نہیں۔ چاہیں تو قسم اٹھوا لیں اور پھر بھی یقین نہیں آتا تو آپ قابل رحم ہیں‘ تشکیک کا مرض ہی برا ہے۔ اس غیریقینی صورتحال سے‘ نہ صرف کاشتکار متاثر ہوتا ہے بلکہ پوری معیشت پر برا اثر پڑتا ہے۔ زرعی اصلاحات کے نام پر بڑے مزرعوں کو چھوٹے مزرعوں میں توڑنے اور زرعی ٹیکس کا شور مچانے والے کاغذی دانشور‘ کبھی وقت نکال کر ایک مربوط زرعی پالیسی بنانے کا بھی سوچیں‘ جس میں پانی کی کمی‘ سستی بجلی کی فراہمی‘ سبسڈائزڈ کیمیکل‘ زرعی آلات کی بلاٹیکس درآمداور دیگر مسائل جن میں‘ کیمیائی زراعت کے انسانی صحت اور زمین پر دوررس اثرات جیسے مسائل پر غور کیا جائے۔
پنجاب کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ اگر دونوں ملک اپنی اپنی بدی ایک طرف رکھ ‘کے مشرقی اور مغربی پنجاب اور کشمیر کو صرف ایک زرعی ریاست بنا دیں تو میرا دعویٰ ہے کہ پوری دنیا کو خوراک مہیا کی جا سکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ یہاں میری جاٹوں والی موٹی عقل مجھے زیادہ ہی سجھا گئی ہو لیکن جب تک باریک سوچ رکھنے والے دانشور‘ ایک مربوط اور دورس پالیسی نہیں بنائیں گے‘ یہ جاٹ بار بار کھاٹ لے کر ‘صاحب لوگوں کے آرام میں مخل ہوتا رہے گا اور پوچھتا رہے گا کہ ''آلو میاں مٹالو کہاں گئے تھے؟‘‘ (آلو کی رپورٹ بی بی سی اردوڈاٹ کام سے لی گئی ہے)