افسوس کہ اکثر ہم غور ہی نہیں کرتے، بس گریہ کرتے ہیں۔ غلامی کا ورثہ اور مرعوبیت؛ چنانچہ خود ترسی اور پیہم خود ترسی۔
اس سے پہلے بھی کئی بار عرض کیا کہ عامر خاکوانی میرے پسندیدہ کالم نگار ہیں۔ آخری پیمانہ پذیرائی نہیں۔ کبھی کوئی احمد فراز‘ مجید امجد ایسے باکمال اور طباع شاعر کو دھکیلتا ہوا ہیرو بن جاتا ہے۔ قدرت کے قوانین میں استثنیٰ تو نہیں۔ بعض اوقات اللہ کے قانون کو ہم سمجھ نہیں پاتے۔
یہ تمہید تھی مگر بے سبب نہیں۔ اگرچہ ایمائیت کے وہ قائل تھے، فصاحت کے لیے قدیم عربوں نے ابلاغ کو لازم ٹھہرایا۔ اظہار کا ایک حصہ، دوسروںسے اجنبی دکھائی نہ دے۔ الفاظ کی نسلیں اور رشتہ و پیوند ہوتے ہیں۔ اسی طرح خیالات کے بھی۔ افکار کے قبیلے ہیں اور ان میں اختلاط ہوتا ہے۔ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے، یہ عمل جاری ہے اور جب تک گردش لیل و نہار قائم ہے، جاری رہے گا۔
قومی ناکامیوں سمیت رمضان المبارک میں مہنگائی اور اس پر خود ترسی کے حوالے سے کالم نگار کا تجزیہ درست ہی نہیں، قابلِ رشک بھی ہے، اخذ کردہ نتیجہ بھی۔ رائے عامہ کی اخلاقی تربیت اور زندگی کے سب دائروں میں ایک نظام کی تشکیل۔
سفر کے کسی موڑ پر ایک فلک آسا چٹان تیز رفتار مسافروں کی راہ اچانک جیسے روک لے، یہاں ایک سوال سر اٹھائے کھڑا ہے۔ ایک نظام اور اس کے نیچے نظام در نظام کی تشکیل کیسے ممکن ہے۔ بہت سی دوسری کئی اقوام بھی تاخیر کی مرتکب ہوئیں اور ہم سے بھی زیادہ۔ برطانیہ سے آزادی کے 83 برس بعد ریاست ہائے متحدہ کی خانہ جنگی میں پندرہ لاکھ لاشوں پر امریکی مفاہمت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس خوف کے جلو میں کہ وہ خود کو بھسم کر لیں گے۔ افراد کی طرح اقوام بھی قدرت کے بعض اصولوں کا ادراک کرنے میں بار بار ٹھوکر کھاتی ہیں۔
ہمارا مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہے۔ فکری یتیم، وعدہ معاف گواہ اور نظریاتی بھک منگے بہت ہیں۔ سنگین تر رکاوٹ مگر دوسری ہے، کالم نگار نے جس کی طرف اشارہ کیا مگر وضاحت نہیں۔ خود رحمی اور خود ترسی۔ خاکروبوں کے محلے کی نفسیات۔
یہ غلامی کی نفسیات ہے۔ ہوس کی طرح یہ مرض بھی مذمّن ہے۔ اسی کی طرح چھپ چھپ کے رگ و پے میں اتر جاتا ہے اور بہت گہرائی میں۔ عالم اسلام کے بعض دانشوروں اور حکمرانوں نے علاج تجویز کیا کہ آج کی ترقی یافتہ اقوام کے نقّال بن جائیں۔ مصطفی کمال اتاترک، امان اللہ خان اور رضا شاہ کبیر۔ ذوالفقار علی بھٹو اور سوئیکارنو بھی۔
مصطفی کمال نے مغربی جارحیت کا منہ پھیر دیا؛ چنانچہ احترام ان کا باقی ہے مگر ان کے نظریات کی تدفین کا سلسلہ بھی۔ جوں جوں یہ عمل آگے بڑھا، ترک سرزمین زرخیز تر ہوتی گئی، سرسبز ہوتی گئی۔ رضا شاہ کبیر کے مرقد پہ 31 برس سے ملّا رقص کناں ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق ابھی بدن کی تلاش میں ہے
اور یاد رکھیے کہ اقبالؔ سے بڑھ کر اپنے زمانے اور زمینی حقائق کا نبض شناس کوئی نہ تھا۔ مشرق و مغرب کا عارف، ماضی اور مستقبل شناس۔ امان اللہ خان کے لیے مفکر کا نرم گوشہ تھا۔ کابل سے روانہ ہوا، راولپنڈی کے نواح میں پہنچا ۔ دعا کی درخواست کے ساتھ خواجہ مہر علی شاہ کے سامنے وہ مودب کھڑا رہا۔ یہ بات مگر فاتح سمجھ نہ سکا کہ بتدریج، تاریخی عمل سے ایک قبائلی معاشرہ جدید سماج میں ڈھلتا ہے۔ افغان تو اور بھی زیادہ بے لچک ۔
تمام انسانی معاشرے رفتہ رفتہ ہی ارتقا پذیر ہوتے اور نئے ادارے تعمیر کرتے ہیں۔ جب وہ قائل ہو جائیں۔ علمائے دین الگ، مولانا احمد علی لاہوری مرحوم نے ارشاد کیا تھا کہ دو نمازوں کے درمیانی وقفے میں وہ اسلام نافذ کر سکتے ہیں۔ دانشور اور لیڈر تک، ملوکیت کے بارے ایک نیم قبائلی، جاگیردارانہ معاشرے میں برق رفتاری سے تبدیلی کے تمنائی ہیں۔ تجزیے عملی جامہ نہ پہنیں تو خود پہ انہیں ترس آنے لگتا ہے۔ اپنی قوم کو وہ جاہل بتاتے ہیں۔ کبھی اس کی تاریخ اور ایمان کو گالی دیتے ہیں۔ وہ مرعوب احمق جو محمود غزنوی کو لٹیرا کہتے ہیں۔ حالانکہ محمود اگر نہ ہوتا تو مسلم برصغیر ہی نہ ہوتا، پاکستان ہی نہ ہوتا۔ پھر ہیجان کے مارے وہ واعظ ہیں جو نام تو اللہ کا لیتے ہیں مگر جیتے قبائلی عہد میں ہیں۔ گویا آج کا زمانہ، اللہ کا زمانہ ہی نہیں۔
ایک مؤثر، جامع نظام کی تشکیل کیسے ممکن ہے، عدل کو یقینی بنا کر جو استحکام کی ضمانت دے۔ عدم تحفظ سے نجات دلا کر طبائع میں وہ توازن پیدا کرے، جو صداقت کے اظہار اور اس کی قبولیت پر آمادہ کرتا ہے۔ رواداری کو فروغ دے کر آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ ڈسپلن نافذ کر کے فساد کی راہ بھی روکتا ہے، حتیٰ کہ بہترین طور پر انسانی صلاحیت بروئے کار آنے لگتی ہے۔
گنجائش ہوتی تو یہ ناچیز اور ناکردہ کار ان مختلف اسالیب سے بحث کرنے کی کوشش ضرور کرتا، تاریخ میں جو کارفرما ہوئے۔ قوموں کو کم از کم قومی اتفاق رائے تک لے گئے جو تحفظ کی فضا میں مقبولیت اور اعتدال کو جنم دیتا ہے۔ جس طرح درختوں کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں، کسی بھی قوم کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اداروں کی بنا اس کی تاریخ، تمدن، ایقان اور اعتقادات میں۔ درخت ہوا میں نہیں اگتے اور قومیں نظریاتی خلا میں پرورش نہیں پاتیں۔ نقّال دل بہلانے کی چیز ہے اور نقّالی زیادہ سے زیادہ خود فریبی۔ مسخرے مقبول بہت ہو سکتے ہیں، صاحبِ نظر اور صاحب دانش نہیں۔
فکری اور نظریاتی تنوع کے ساتھ کم از کم قومی اتفاق رائے، وعظ اور تلقین سے متشکل نہ ہو گا۔ فکر و خیال سے پھوٹے گا، مشاورت سے زیبا اور مقبول ہو گا۔ تازہ تصور فعال طبقات میں جڑ پکڑے گا۔ پھر اس کے لیے قوت نافذہ درکار ہو گی۔ قوموں کے ایجنڈے ان کی ہیئت حاکمہ تشکیل دیا کرتی ہے جدید لغت میں جسے اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، نیشنل اسٹیبلشمنٹ۔ کیا اس مملکت خداداد میں وہ اپنا وجود رکھتی ہے؟ جی نہیں، بالکل نہیں۔
قومی ہیئت حاکمہ سے مراد عسکری قیادت نہیں۔ اس کے علاوہ بلکہ اس سے بڑھ کر موزوں اور مقبول سیاسی قیادت جو جدید جمہوری پارٹیوں کی سرخیل ہو۔ اپنے عصر کے لیے موزوں تربیت یافتہ بیوروکریسی۔ ہر فن مولا سی ایس ایس افسر نہیں، مختلف میدانوں کے ماہرین۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے لے کر جو یونین کونسل تک کا نظام آئین اور قانون کے مطابق چلائیں۔ ممتاز قانون دان اور مفکر۔ سول سوسائٹی کے چیدہ افراد، چڑچڑی بڑھیا ایسے نہیں جو یہ کہتی ہے کہ یہ ملک بنا ہی کیوں۔ عدالت‘ خاص طور پر سپریم اور ہائی کورٹس کے زیادہ لائق جج اور آزاد میڈیا۔ سرحد پار سے خیالات درآمد کرنے والا اور نہ حکمرانوں کا دستِ نگر۔ تازہ خیالات کے لیے زرخیز مگر شورش پسند نہیں کہ فتنہ ہر برائی سے بڑی برائی ہے۔
ایک دانا اور جہاندیدہ آدمی کی صحبت میں یہ نکتہ آشکار ہوا کہ پاکستان میں وہ اسٹیبلشمنٹ موجود ہی نہیں۔ امریکہ، چین اور جاپان میں ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں، تمام کامیاب ممالک؛ حتیٰ کہ برہمنوں کے بھارت اور ملّائوں کے ایران میں مگر پاکستان میں نہیں۔ نواز شریف ہیں جو بعد ازاں صاحبزادی کو ملک سونپ دینا چاہتے ہیں۔ جس طرح بھٹو کے بعد ان کی بیگم صاحبہ، صاحبزادی، پھر ان کے مجازی خدا اور اب خیر سے نواسے۔ فوج ہے جو خود کو بچانے اور سول قیادت کو محدود کرنے میں لگی رہتی ہے۔ شکوہ سنج کہ قومی سلامتی کی سیاستدان پروا نہیں کرتے۔ لوٹ مار میں لگے رہتے ہیں۔ عدالتیں لاچار ہیں کہ تفتیشی ادارے قانون کے نہیں حکمرانوں کے وفادار ہیں۔ افسر شاہی کا حال اور بھی پتلا ہے۔ چنائو غلط، طریقِ کار ہی غلط۔ تقرر اور فروغ کا انحصار خدمت اور صلاحیت نہیں، شریف یا زرداری خاندان پر ہے۔ صلاحیت نہیں، چالاکی، چستی اور ابن الوقتی پر۔ میڈیا؟ قومی دفاع کا سوال ہو تو بھارتی اخبار نویس کورس میں گاتے ہیں یا چپ ہو رہتے ہیں۔ ساری دنیا میں یہی۔ ہمارے اخبار نویسوں میں این جی اوز بنانے والے بھی ہیں، ان سے صلہ پانے والے بھی۔ دشمن ممالک کے گیت گانے والے بھی اور حکمرانوں کے کاسہ لیس بھی۔ جو چند آزاد ہیں، وہی روشنی کا مینار ہیں۔
بیوی اچھی بچے باعث برکت لیکن باپ کے بغیر گھر نہیں ہوتا۔ ایک قومی ہیئت حاکمہ اور ایک کم از کم اتفاق رائے کے بغیر کوئی معاشرہ قرار نہیں پاتا۔ استحکام کے بغیر قومی ادارے تشکیل پاتے ہیں، عدل کا فروغ ممکن ہے اور نہ معیشت کا۔ نمو پذیر معیشت کے بغیر آزاد خارجہ پالیسی اور مضبوط دفاع کا سوال ہی کیا؟ افسوس کہ اکثر ہم غور ہی نہیں کرتے، بس گریہ کرتے ہیں۔ غلامی کا ورثہ اور مرعوبیت؛ چنانچہ خود ترسی اور پیہم خود ترسی۔