تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-06-2016

ٹوٹے

فراغت!
مشیران امور خارجہ طارق فاطمی اور سرتاج عزیز کی فراغت کے چرچے ہونے لگے ہیں سرتاج عزیز نے نواز لیگ کا سیکرٹری جنرل بننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ پارٹی کا آفس ہے نہ کوئی فنڈز ۔مرکزی دفتر ایف ایٹ پر بھی تالے پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ عہدہ اقبال ظفر جھگڑا کے گورنر بننے کے بعد خالی پڑا ہے۔جب کہ اخباری اطلاعات کے مطابق طارق فاطمی کو بھی سبکدوش کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور وزیر اعظم کی واپسی کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی جس بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور پاکستان اقوام عالم میں جس تنہائی کا شکار ہے اور گراوٹ کے جس گڑھے میں گر چکا ہے‘ اس میں سے اسے نکالنے اور اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے جس سیاسی فطانت کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں سرے سے ہی ناپید ہے اور امید کرنی چاہیے کہ وزارت خارجہ کا عہدہ خود وزیر اعظم ہی الحمد للہ کہتے ہوئے اپنے پاس رکھ لیں گے تاکہ اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ بھی پوری ہو جائے جبکہ ملک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اکیلے اسحق ڈار ہی کافی تھے۔
پانی سر سے گزر چکا!
بھنور میں پھنسی ہوئی ملک کی کشتی کو پار لگائے جانے کی اگر کوئی امید تھی تو اب وہ بھی دم توڑ چکی ہے اور یہ بات اب کھل کر کہی جانے لگی ہے کہ جو کچھ اس بدنصیب ملک کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بھی کسی سکرپٹ کا حصہ ہے جس نے ملکی صورت حال کو نقطۂ نا واپسی تک پہنچا دیا ہے۔ جن حلقوں سے کچھ امید تھی کہ وہ کسی مناسب طریقے سے ملک کو اس بحران سے نکال دیں گے وہ بھی باتیں اور تقریریں ہی کرتے رہ گئے ہیں اور اب تو پانی ہی سر سے گزر چکا ہے۔ اس لیے وہ مہربان اب آئے دن کی تقریروں کا سلسلہ بند کر دیں اور ایک طرف ہو کر آرام سے بیٹھ جائیں کہ اس سکرپٹ میں شاید ان کا کردار بھی اتنا ہی ہو اور جھوٹی امیدیں لگائے ہوئے لوگ بھی راضی بہ راضا ہو جائیں اور اس ملک کو خدا کے سپرد کر دیں جبکہ روز روز کی تکرار سے ان کی تقریروں‘ اور ‘ بیانات میں اب کوئی تاثیر بھی باقی نہ رہ گئی تھی‘ اس لیے یہ زعماء اب ہماری طرف سے فارغ ہیں جبکہ تاریخ میں تو وہ اپنا نام لکھوا ہی چکے ہیں‘ مبارک ہو!
عدم اتفاق
ٹی او آرز پر ایک بار پھر اتفاق نہیں ہو سکا اور ہو گا بھی نہیں کیونکہ اتفاق ہو جانے کا مطلب ہو گا کہ راستہ ہموار ہو جائے اور کمیشن کا کام شروع ہو سکے جس کی خواہش کسی بھی پارٹی کو نہیں ہے کیونکہ سب کی الماریوں میں اپنے اپنے ڈھانچے موجود اور محفوظ ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات اور پھر راستے جدا جدا؛حتیٰ کہ دونوں کے راستے میں کسی بھی منزل پر پہنچنے کا کوئی امکان نہیں‘ بلکہ دونوں کی منزل ایک ہی ہے کہ کہیں بھی نہ پہنچا جائے اور عوام کو اس طرح بیوقوف بنایا جاتا رہے کہ ہماری سیاست کی ایک تاریخ اور روایات ہیں جن سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی۔ یہ ملک کرپشن کی گود میں ہی پلا بڑھا ہے‘ پلا بڑھا کیا ہے‘ اس حالت کو پہنچا ہے ورنہ اب تک ہر جماعت کو اپنے اپنے گلے کا رسّہ تیار کر لینا چاہیے تھا‘ لیکن یہ ہو اس لیے نہیں ہو سکا ہے کہ ملک کی گردن پر سوار بھی انہی لوگوں نے رہنا ہے جو کہ اس ملک اور اس کے بدقسمت عوام کی تقدیر میں لکھ دیئے گئے ہیں!
جُھوٹ در جُھوٹ
اگر اوپن ہارٹ سرجری ایک جھوٹ ہے ‘ جیسا کہ اپنے قرائن ہی سے نظر آ رہا ہے تو حیران یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں اس سے بھی بڑے بڑے جھوٹ بولے جا چکے ہیں اور مسلسل بولے جا رہے ہیں بلکہ ملک کا سارا کاروبار ہی جھوٹ اور غلط بیانیوں پر چل رہا ہے۔ ذرا نظر اٹھا کر دیکھیں تو ہر طرف جھوٹ اور فریب کاری ہی کے کرشمے نظر آئیں گے اور اگر یہ صورتحال تھوڑا عرصہ ہی اور جاری رہی تو اس ملک کا ذکر خدانخواستہ تاریخ کی کتابوں ہی میں رہ جائے گا جس میں اس کے بے پناہ وسائل کا ذکر بھی ہو گا اور یہ بھی کہ ان وسائل کے ساتھ سلوک اور مذاق کس طرح کا روا رکھا گیا‘ اور یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہو گی کیونکہ تاریخ عالم اس طرح کے سانحوں سے بھری پڑی ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں‘ کیونکہ یہ انہی لوگوں کے احوال ہوں گے جنہوں نے کوئی سبق حاصل کیا اور نہ ہی کوئی عبرت پکڑی ع
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
نوٹ:گزشتہ روز کے قطعے کے آخری دو مصرعے اس طرح پڑھے جائیں:
وہ اگر ہیں تو ہم ہیں ورنہ لیکس
قوم کا مسئلہ نہیں ہرگز 
آج کامقطع
بیمار ہوں گے سوچ سمجھ کر ہی اب‘ ظفر
اچھا ہے اُٹھ گیا ہے مسیحا کا اعتبار 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved